• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت ہماری معیشت آئی ایم ایف،ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے رحم و کرم پر ہےجبکہ دوسری جانب بلوچستان کے ریکوڈک ذخائر اتنے ہیں کہ سو سال تک ہماری ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔قارئین کرام پس منظر و پیش منظر کے طور پر یاد رکھیں کہ بعض بین الاقوامی ”امدادی“ کاموں میں ملوث ادارے ہمیں یہ بتاتے نہیں تھکتے کہ وہ”احسن طریقے“ سے اپنا کام کررہے ہیں اور ان کی خدمات کی بدولت دنیا بھر میں ترقی ہوئی ہے،جبکہ اس ترقی سے فائدہ اُٹھانے والے اپنی جان کو رورہے ہیں۔آئی ایم ایف اور ایسے دیگر مالیاتی ادارے دنیا کے پسماندہ اور ضرورت مند ممالک کی معیشت کو بذریعہ سودی قرض بنام امداد بہتر بنانے کےلیے وجود میں لائے گئے تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ جہاں جہاں انہوں نے قدم رکھا وہاں وہاں سکھ اور چین تو کیا آتا، رہی سہی عافیت واطمینان بھی رخصت ہوگیا۔ ان عالمی امدادی اداروں نے جس کو بھی امداد فراہم کی، وہ کبھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہوسکا، بلکہ اگرکسی نے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے اور ان کے قرضے کے شکنجے سے نکلنے کی کوشش کی تو اسے نشانِ عبرت بنادیا گیا۔ چاہے وہ پانامہ کا صدر ٹوری جوس ہو، ایکواڈور کا جیمی اولڈوس ہو، گوئٹے مالا کا حکمراں اربینز ہو یا چلی کا ایلندے۔ سب کے سب قتل کردیے گئے۔ ایک نکتے کی طرف آئیے!امریکہ کو اعتراض رہتا ہے کہ اس کے خلاف دہشت گردی کے مرتکب چند سرپھرے ہیں جو غربت اور جہالت کے ہاتھوں تنگ آکر فدائی حملوں کے ذریعے ظالم سماج سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ اب سوال یہ نہیں کہ ان فدائیوں میں یورپ کے اعلیٰ کالجوں کے تعلیم یافتہ اور کروڑ پتی خاندان کے سپوت کیسے نمایاں نظر آتے ہیں؟ سوال یہ ہےکہ امریکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے 450ارب ڈالر کیوں خرچ کررہا ہے؟ جبکہ وہ ماہرین کے تجزیے کے مطابق صرف 50 ارب ڈالر کے ذریعے دنیا بھر سے غربت وجہالت ختم کرسکتا ہے۔ نہ رہے گی غربت، نہ رہے گی اس سے جنم لینے والی دہشتگردی۔ پاکستان جس طرح کی بدحالی وپسماندگی میں گھرا ہے، اس کا ایک سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کے پاس نہ تو عرب ممالک جیسا تیل وگیس ہے، نہ جنوبی افریقہ کی طرح سونے کی کانیں۔ نہ بدخشاں کے یاقوت اور نہ چلی کی طرح کاپر اور المونیم، لہٰذا یہاں کی تعلیم یافتہ اور ہنرمند آبادی دنیا بھر میں مزدوری کرنے پر مجبور ہے۔ ممکن ہے یہ بات ٹھیک ہو، دنیا کے پیدا کرنے والے نے چودہویں صدی میں اسلام کے نام پر بننے والی ریاست میں کچھ نہ رکھا ہو، لیکن اس کا کیا کریں کہ صرف سندھ میں اتنا تیل اور کوئلہ ہے کہ پاکستان کے سارے قرض اُترسکتے ہیں۔ صرف بلوچستان میں اتنی گیس اور سونا ہے کہ پاکستان کی پوری آبادی کو با آسانی تعلیم اور علاج کی اعلیٰ ترین سہولتیں فراہم کی جاسکتی ہیں۔بلوچستان کے ریکوڈک ذخائر اتنے ہیں کہ ہم سو سال کے لیے خود کفیل ہوسکتے ہیں۔ پنجاب جیسی زرخیز ترین زمین دنیا میں نہیں۔ سرحد کے قیمتی پتھروں سے بھرے پہاڑ چھیڑنے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کا 600 میل طویل سمندری ساحل جو دنیا کے بہترین ساحل اور قدرتی بندرگاہوں میں شمار ہوتا ہے، یہ سب اضافی مراعات ہیں۔ ان میں سے ایک چیز بھی دنیا کے جس ملک کے پاس ہے، وہ ترقی یافتہ ہے، مگر ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ جنوبی امریکہ کے ان ممالک کی طرح ہمارے ہاں بھی وافر قدرتی وسائل کے باوجود توانائی کا بحران ہے جو حل ہونے میں نہیں آتا۔ اب ہمارے حکمران ہوگوشاویز تو ہیں نہیں کہ ان سے عالمی استعمار کے خلاف کسی جرأت مندانہ اقدام کی توقع کی جاسکے، اور امریکہ انہیں ہوگوشاویز کی طرح اقتدار سے ہٹانے میں ناکام ہوکر کینسر میں مبتلا کرکے مارنے کی کوشش کرے۔ ایک ذرا سی کوشش ہوئی تھی کہ ہمارے ملک میں بجلی فراہم کرنے والے اداروں کو اپنے ملک کا سستا ایندھن فراہم کردیا جائے تو اسی وقت حوصلہ افزائی کے بجائے منظورشدہ قرض بھی روک دیاگیاتھا۔IMF کے چکر میں ایک دفعہ پھنسنے کے بعد کسی ملک کا وہی حال ہوتا ہے جو ہاؤس بلڈنگ کا لون لینے والے شخص کا ہوتا ہے کہ بالآخر اسے وہ مکان ہی واپس کرنا پڑتا ہے،جو اس نے قرض لے کر بنایا ہوتا ہے۔ یہی حال یہاں ہے کہ ملک کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں، ملک ہمارا ہے، لیکن ٹیکس لگائیں یا سبسڈی دیں، یہ فیصلہ IMF کرے گا۔ گویا ہم نام کے حکمراں رہ گئے، فیصلے کہیں اور سے ہورہے ہیں۔ ہمیں اس سلسلے سے جلد از جلد جان چھڑانی ہوگی تاکہ ہم اپنی پالیسیوں کے ذریعے ملک میں خیر لاسکیں، ورنہ مہنگائی کا سیلاب نہ رُکے گا اور نہ ہی ہمارے مالی حالات بہتر ہوں گے۔

تازہ ترین