• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جناب آصف علی زرداری کے ایوان صدر میں پانچ سال پورے ہو گئے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے وزیر اعظم ہاؤس میں زرداری صاحب کو ایک الوداعی عشائیہ دیا جا رہا ہے۔ اس عشائیے کے بعد آصف علی زرداری ایوان صدر سے رخصت ہو جائیں گے لیکن پاکستان کی سیاست سے رخصت نہیں ہوں گے۔ پانچ سال پہلے کوئی یہ ماننے کے لئے تیار نہ تھا کہ آصف علی زرداری ایوان صدر میں اپنی مدت پوری کریں گے لیکن نواز شریف کے غیر اعلانیہ تعاون سے وہ اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب رہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے 2006ء میں چارٹر آف ڈیمو کریسی پر اتفاق رائے کیا تھا۔ دونوں جماعتیں اس چارٹر آف ڈیمو کریسی پر عملدرآمد نہ کر سکیں لیکن دونوں نے مل کر آئین میں اٹھارہویں ترمیم منظور کرائی۔ اس ترمیم کے تحت صدر نے اپنے تمام اختیارات پارلیمنٹ کو واپس کر کے 1973ء کے آئین کو بحال کردیا۔ مارچ 2009ء میں نواز شریف نے معزول ججوں کی بحالی کے لئے لانگ مارچ شروع کیا تو آصف علی زرداری اس لانگ مارچ کو روکنے کے لئے فوج کو استعمال کر سکتے تھے لیکن انہوں نے اپنی انا کے بت کو توڑ دیا اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے کہا کہ وہ لانگ مارچ کرنے والوں کو بتا دیں کہ معزول جج بحال کئے جا رہے ہیں لہٰذا لانگ مارچ ختم کر دیا جائے۔ پچھلے پانچ سال میں نواز شریف کو فرینڈلی اپوزیشن کہا جاتا رہا آج کل پیپلز پارٹی کو فرینڈلی اپوزیشن کہا جاتا ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس میں آصف علی زرداری کے اعزاز میں الوداعی عشایئے پر بھی دونوں جماعتوں میں ملی بھگت کی آوازیں لگائی جائیں گی لیکن یہ الوداعی عشائیہ پاکستان کی سیاسی قیادت کی بالغ نظری کا ثبوت ہے۔ نواز شریف نے آصف علی زرداری کو صرف ایوان صدر سے رخصت کرنا ہے۔ زرداری صاحب نئے صدر ممنون حسین کی تقریب حلف برداری میں بھی شریک ہوں گے اور پھر کھل کر سیاست کریں گے۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف کو مل کر ابھی بہت سے کام کرنے ہیں۔ نواز شریف وزیر اعظم ہیں اور آصف علی زرداری کی جماعت سندھ میں حکمران ہے۔ سندھ کے شہر کراچی میں امن کی بحالی کیلئے دونوں کو مل کر کام کرنا ہے۔
گزشتہ دنوں متحدہ قومی موومنٹ نے کراچی میں قیام امن کیلئے فوجی آپریشن کا مطالبہ کیا۔ اس مطالبے پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت کئی جماعتوں کے کان کھڑے ہو گئے اور دونوں جماعتوں نے فوجی آپریشن کی مخالفت کر دی۔ کراچی کے حالات پر جیو ٹیلی ویژن نے گزشتہ اتوار کو اہم سیاسی جماعتوں کی قیادت کے درمیان ایک مکالے کا اہتمام کیا جس میں پانچ نکات پر اتفاق ہو گیا۔ طے یہ ہوا کہ پولیس اور رینجرز مل کر انٹیلی جنس اداروں کی مدد سے ٹارگٹڈ ایکشن کریں۔ اس ایکشن کی نگرانی کیلئے سیاستدانوں، تاجروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں پر مشتمل مانیٹرنگ کمیٹی بنائی جائے، تمام نو گو ایریاز ختم کئے جائیں، کراچی سمیت پورے ملک کو ناجائز اسلحے سے پاک کیا جائے اور گواہوں کے تحفظ کیلئے قانون سازی کی جائے۔ منگل کو وزیر اعظم نواز شریف کراچی پہنچ گئے۔ انہوں نے گورنر عشرت العباد اور وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے ہمراہ ایک آل پارٹیز کانفرنس میں کراچی کی صورتحال پر مختلف جماعتوں کی قیادت کا نکتہ نظر سنا اور بدھ کو کراچی میں وفاقی کابینہ کا اجلاس منعقد کیا۔ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت مل کر کراچی میں جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کر چکے ہیں لیکن خیال رہے کہ کراچی میں پہلی دفعہ کارروائی نہیں ہو رہی۔ اس کارروائی کی کامیابی کا انحصار درست معلومات پر ہو گا اور درست معلومات کی فراہمی انٹیلی جنس اداروں کی ذمہ داری ہے۔ انٹیلی جنس اداروں کو سب سے پہلے تو اپنی صفوں میں کالی بھیڑوں کو تلاش کرنا ہے۔ کراچی میں نیول انٹیلی جنس کے کچھ اہلکاروں پر اغوا برائے تاوان کی تین مختلف وارداتوں میں ملوث ہونے کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ ایک واقعے میں نیول انٹیلی جنس کے اہلکار کو پولیس نے موقع واردات سے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا۔ چند افراد کے مکروہ فعل کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ تمام انٹیلی جنس اداروں کے تمام اہلکار جرائم میں ملوث ہیں۔ چند افراد نے ان اداروں کو بدنام ضرور کیا ہے اور بدنامی کے داغ دھونے کیلئے ضروری ہے کہ ذمہ داروں کے خلاف جلد از جلد کارروائی کی جائے۔
کراچی میں جرائم پیشہ افراد کیخلاف ٹارگٹڈ ایکشن کی کامیابی میں سب سے اہم کردار پولیس کا ہو گا۔ پولیس پر بہت سے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ کچھ الزامات سچے ہیں کچھ جھوٹے ہیں۔ اگر فرض شناس پولیس افسران کو فری ہینڈ دے کر کراچی میں امن قائم کرنے کی ذمہ داری دی جائے تو شہر کے حالات بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ کراچی کی پولیس نے ماضی میں کئی خطرناک مجرم گرفتار کئے۔ کراچی پولیس کے ایک سینئر افسر نے مجھے کچھ دستاویزات دیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں سیاسی دباؤ پر اقدام قتل سمیت دیگر سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کو جیلوں سے پیرول پر عارضی رہائی دی گئی لیکن یہ سب فرار ہو گئے۔ 2003ء سے 2005ء کے درمیان کراچی کی جیلوں سے ایسے ملزمان رہا کئے گئے جن کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ سے تھا۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو جیلوں میں ایم کیو ایم حقیقی سے تعلق رکھنے والوں کی سرپرستی شروع ہو گئی۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ایک طرف متحدہ قومی موومنٹ شریک اقتدار تھی اور دوسری طرف ایم کیو ایم حقیقی کو بھی استعمال کرنے کی کوشش ہوئی۔ اس وقت بھی کراچی میں یہ دونوں ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں۔ دونوں میں سیز فائر کی ضرورت ہے۔ پولیس کے پاس فری ہینڈ ہو تو متحدہ قومی موومنٹ، مہاجر قومی موومنٹ، پیپلز پارٹی، پیپلز امن کمیٹی، اے این پی، تحریک طالبان پاکستان اور کچھ دیگر کالعدم تنظیموں کے صرف ایک سو مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا جائے تو شہر میں جرائم کی وارداتیں کم ہو سکتی ہیں۔ تمام اہم سیاسی جماعتوں کی قیادت بار بار یہ اعلان کر چکی ہے کہ اگر ان کی صفوں میں موجود جرائم پیشہ افراد پر ہاتھ ڈالا گیا تو وہ کسی کو بچانے کی کوشش نہیں کریں گے۔
یاد رکھئے! اگر کراچی میں بھتہ بند ہو جائے، اغوا برائے تاوان کا سلسلہ رک جائے اور نو گو ایریاز ختم ہو جائیں تو صرف کراچی میں امن قائم نہیں ہو گا بلکہ قبائلی علاقوں اور بلوچستان کے حالات بھی بہتر ہو جائیں گے۔ قبائلی علاقوں میں سرگرم مزاحمت کاروں کی مالی ضروریات کراچی کی بلیک اکانومی سے پوری ہوتی ہیں جبکہ بلوچستان میں سرگرم ریاست کے حامی اور مخالف عسکریت پسند بھی کراچی میں بنک لوٹ کر اپنا کام چلاتے ہیں۔ کل رات سندھ حکومت کے ایک وزیر نے مجھے پوچھا کہ اگر کراچی میں امن قائم ہو گیا تو کریڈٹ کس کو ملے گا؟ میں نے اسے کہا کہ یہ مت سوچو کہ کریڈٹ کس کو ملے گا یہ سوچو کہ فائدہ کسے ہو گا؟ وزیر صاحب نے پوچھا کہ فائدہ کسے ہو گا؟ میرا جواب تھا کہ کراچی میں امن قائم ہو گیا تو فائدہ صرف نواز شریف یا صرف آصف علی زرداری کو نہیں بلکہ جمہوریت کو اور پاکستان کو ہوگا۔
تازہ ترین