• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی عوام پر ستمبر کی پہلی تاریخ کو گرائے گئے ”پٹرول بم“ کے باعث لوگوں کی زندگی اور اجیرن ہوجائے گی کیونکہ پٹرولیم مصنوعات کے مہنگا ہونے کے ساتھ ہی مہنگائی کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ قوم کو حکومت کی جانب سے نئے مہینے میں ایک اور نیا تحفہ مبارک ہو۔ جمہوریت اسی کا نام ہے۔ پتہ نہیں نام نہاد جمہوریت ہمیں کہاں پہنچائے گی۔ جب سے پاکستان بنا ہے چند خاندان حکومت کررہے ہیں حسن اتفاق ہے کہ ان خاندانوں کی آپس میں گہری رشتہ داریاں ہیں، اس طرح یہ ایک ہی خاندان بن جاتا ہے اس ایک خاندان کو پاکستان سے کوئی غرض نہیں، صرف اقتدار سے غرض ہے، اس خاندان کے افراد کا پیسہ اور جائیدادیں مغربی ممالک میں ہیں۔ یہ کالے وائسرائے بس حکومت کرنے آتے ہیں۔ بیرونی طاقتیں ہی حکومتوں کے آنے جانے کا تعین کرتی ہیں۔ کالے وائسرائے بیرونی ایجنڈے پر عمل کرتے ہیں اور لوٹ مار کرکے اگلے کو باری دے دیتے ہیں باریاں لگانے والوں نے ملک کو اتنا لوٹا ہے کہ آج پاکستانی کرنسی کو رسوائی کا سامنا ہے۔ 1954ء میں تین روپے کا ایک امریکی ڈالر تھا، 1970ء میں ڈالر پانچ روپے کا تھا، موجودہ حکمرانوں کے پہلے دور میں جب فارن کرنسی اکاؤنٹس کوسیز کیا گیا تھا تو ڈالر 20 روپے سے چھلانگ لگاکر چالیس پچاس پر پہنچ گیا تھا۔ جنرل مشرف کے عہد میں استحکام رہا پھر 2008ء میں ”نام ور“ اسحق ڈار وزیر خزانہ بنے اوران کے بعض بیانات کی وجہ سے ڈالر ساٹھ روپے سے اسی اور نوّے تک پہنچ گیا۔ اب ڈالر کی قیمت سو روپے سے زائد ہے۔ مغربی ممالک میں جائیدادوں کے حامل پاکستانی سیاست دانوں کے مغربی بینکوں میں بڑے بڑے اکاؤنٹس ہیں۔ حیرت ہے کہ جن کا اپنا سرمایہ اس ملک میں نہیں برطانیہ اور دیگر ممالک میں ہے کچھ کا بزنس دبئی اور قطرمیں ہے وہ لوگ، دوسروں سے کہتے ہیں کہ… پاکستان میں سرمایہ کاری کرو…“
جس ملک میں حکمرانوں کے شاہی ٹھاٹھ ختم نہیں ہوتے وہاں کے ایک شہر کراچی میں ایک شخص بھوک اور بیروزگاری سے تنگ آکر اپنے بچوں کو مار دیتا ہے۔ معمول کی ایف آئی آر کے ذریعے وہ شخص سلاخوں کے پیچھے ہے مگر حکومت وقت خاموش ہے۔ ایسے ملک میں بہت سے لوگوں کو محنت کا ثمر بھی نہیں ملتا۔ مثلاً سرکاری ملازمین کی ترقی کیلئے 1991ء میں چار درجاتی فارمولا بنایا گیا تھا مگر افسوس اس پر پوری طرح عمل نہ ہوسکا۔ مثال کیلئے صرف ایک محکمے کا نقشہ پیش خدمت ہے۔ ویسے تو یہ محکمہ بڑا بدنام ہے مگر اس کے اسکول کالج بہت اچھے ہیں وہاں کا تعلیمی معیار بھی بہت عمدہ ہے۔ اس محکمے کا نام واپڈا ہے واپڈا کے 46 اسکولز اور 2 کالجز احسن انداز میں چل رہے ہیں مگر یہاں کے اساتذہ کی ترقی اس چار درجاتی فارمولے کے تحت نہیں ہو پائی۔ گزشتہ دور میں جب عابد شیر علی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے چیئرمین تھے تو انہوں نے بڑا ”رولا“ ڈالا تھا، اس ”رولے“ کا فائدہ یہ ہوا کہ کالج کے اساتذہ کی ترقی ہوگئی مگر اسکولوں کے اساتذہ ہنوز ترقی کے منتظر ہیں۔ وقت بدل چکا ہے اور اب عابد شیر علی واپڈا کے وزیر مملکت ہیں۔ پتہ نہیں اب ان کا رویہ کیا ہوگا جس ملک میں ناانصافی اور ظلم کے ساتھ ساتھ بدامنی بھی ہو وہاں کیا ہوسکتا ہے پھر سونے پہ سہاگہ یہ کہ الیکشن بھی شفاف نہ ہو وہاں میرٹ کی بات کیسے ہوسکتی ہے۔ اس تمام صورتحال کے باوجود ”مایوسی گناہ“ کا اصول مایوس نہیں ہونے دیتا۔ اسی لئے آج کل ریاض فتیانہ نئی سیاسی پارٹی بنانے کیلئے تگ و دو کررہے ہیں ان کی پارٹی کا اعلان مارچ 2014ء میں ہوگا۔ چار نظریاتی ستون ان کے پیش نظر ہیں۔ پروگریسو، نیشنلسٹ، ڈیمو کریٹک اور ریفارمسٹ۔ ان کا خیال ہے کہ ملک میں گڈ گورننس، عدل اور میرٹ کے ساتھ ریفارمز ہونی چاہئیں تاکہ پاکستان ایک سوشل ویلفیئر اسٹیٹ بن سکے۔ فتیانہ صاحب بڑے کامیاب سیاست دان ہیں خدا کرے ان کا خواب پورا ہوسکے۔
گزشتہ سے پیوستہ رات ممتاز بلوچ رہنما اختر مینگل کے گھر پر دستی بموں سے حملہ کیا گیا، اختر مینگل نے چند روز پہلے ہی بلوچستان اسمبلی کے ممبر کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا۔ انہوں نے اس مرحلے پر کہا تھا کہ… آج کڑوا گھونٹ پی لیا ہے۔“ شاید انہیں حالات کا اندازہ تھا۔ خیر جس وقت یہ حملہ ہوا۔ اتفاق سے اختر جان گھر پر نہیں تھے۔ بعد میں انہوں نے کہا کہ ”مخالفین کو میرا اسمبلی جانا اچھا نہیں لگا۔“ اختر جان سے گزارش ہے کہ وہ پاکستان کی محبت میں سب کچھ کر گزریں چونکہ پاکستان کے مخالفین کی خواہش ہے کہ بلوچ رہنما قومی دھارے میں شامل نہ ہوں۔ کوئٹہ کے بعد کراچی کا ذکر ہوجائے۔ جہاں چیف جسٹس آف پاکستان نے ”تھرتھلّی“ مچادی ہے کہ آخر کراچی میں اتنا اسلحہ آسمان سے تو نہیں گرا، حکومتی اکابرین ان کو جوابات تو دینے کی کوشش کررہے ہیں مگر سوال اپنی جگہ ہے۔ ویسے افسوس کی بات ہے کہ کراچی میں آئے روز قتل ہورہے ہیں۔ کراچی کی شاہراہوں کو قتل گاہوں میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ کراچی کی بات چھڑی ہے تو ساتھ ہی بحریہ کے خفیہ اہلکاروں کی بات ہوجائے جن پر الزام ہے کہ وہ اغوا برائے تاوان میں ملوث تھے۔ اگر پاکستان کے تمام سرکاری اداروں کا جائزہ لیا جائے تو مذہبی اداروں میں بھی چند گندی مچھلیاں نظر آجائیں گی مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ مذہبی ادارے برے ہیں، اسی طرح اگر نیوی کے چند نچلے درجے کے اہلکار اغوا برائے تاوان میں ملوث ہیں تو پاکستان نیوی کو چاہیے کہ انہیں قرار واقعی سزا دے تاکہ آئندہ کوئی ایسی حرکت نہ کرے۔ پاکستانی بحریہ قابل فخر ہے۔ چند عناصر کی کسی گھناؤنی کارروائی کی بنیاد پر ادارے کو برا بھلا نہیں کہنا چاہیے۔ ویسے جو لوگ خفیہ اداروں کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں انہیں پتا ہے کہ خفیہ اداروں میں صرف اسی محکمے کے لوگ کام نہیں کررہے ہوتے۔ معاشرے کے بہت سے افراد باقاعدہ وہاں کام کررہے ہوتے ہیں۔ جیسے آئی ایس آئی میں صرف فوجی نہیں بہت سے سویلینز بھی کام کرتے ہیں۔ خفیہ اداروں کی بات چلی ہے تو مسنگ پرسنز کی بھی بات ہوجائے۔ پچھلے دنوں ایسے افراد کا دن بھی منایا گیا تھا جس طرح حال ہی میں لاہور سے ایک سابق ایم این اے کے گھر سے ”جکڑی“ ہوئی تیرہ سالہ ملازمہ برآمد ہوئی ہے، اسی طرح پاکستان کے طاقت ور طبقوں کی بے شمار نجی جیلوں میں کئی افراد گل سڑ رہے ہیں مگر ہمارے ہاں فیشن بن گیا ہے کہ جو بھی غائب ہو الزام خفیہ اداروں پر لگادیا جائے۔ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں خفیہ ادارے بہت سی کارروائیاں کرتے ہیں مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہر غائب ہونے والا خفیہ اداروں کے پاس ہو۔ اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو وہ رخ بھی بڑا درد ناک ہے۔ مثلاً خفیہ اداروں کے بہت سے اہلکار اپنے وطن کی خاطر مختلف کارروائیاں کرتے ہوئے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں آپ کبھی پریڈ گراؤنڈ میں ان شہداء کے بچوں کو دیکھیں جو والد کے سایہ شفقت سے ہمیشہ کیلئے محروم ہوجاتے ہیں اور ان کا یہ جذبہ بھی دیکھیں کہ وہ پھر بھی پرعزم ہوتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اگر وطن کو ان کی جان کی ضرورت پڑی تو وہ بھی حاضر ہے۔ تنقید کرنے والوں کو تصویر کے دونوں رخ دیکھنے چاہئیں۔ ابھی تصویر کا ایک اور رخ پیش کرتا ہوں۔ پاکستان میں بہت سی اقلیتیں بستی ہیں، ان میں خاص طور پر عیسائی، ہندو، پارسی اور سکھ قابل ذکر ہیں مگر آپ سوچیں کہ ان اقلیتوں نے کبھی فساد برپا نہیں کیا، کبھی دہشت گردی نہیں کہ بلکہ ملک کی خدمت کی ہے، کبھی غداری نہیں کی بلکہ حب الوطنی کا مظاہرہ کیا ہے مگر یہ بھی سوچیں کہ پاکستان میں فساد اور دہشت گردی نام نہاد مسلمانوں نے برپا کررکھی ہے۔ انہوں نے پاکستان کا امن برباد کیا ہوا ہے، سرکاری عمارات کو نقصان پہنچانا ان کا شیوہ ہے۔ انہوں نے قائد اعظم کی آرام گاہ کو بھی نہیں بخشا۔ وہ نام نہاد لوگ اقلیتوں پر بھی حملہ آور ہوتے ہیں۔ لیکن شاباش اس ملک کی اقلیتوں کو کہ وہ اپنے ملک میں فساد برپا کرنے والوں میں شامل نہ ہوئے۔ ان کی حب الوطنی سلامت رہی۔
میری جان محمد ﷺ پر قربان مگر توہین رسالت کے قانون کو بھی ذاتی دشمنیوں کی خاطر استعمال کیا گیا یہ سراسر غلط ہے۔ الزام لگانے والوں کو بھی سزا ملنی چاہئے۔ میرا تو اقبال کے اس شعر پر یقین ہے کہ:
کی محمد سے وفا تونے، تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
باقی رہے اس ملک پر حکومت کرنے والے لوگ تو ان کا قصہ اوپر بیان کرچکا ہوں خدا کرے پاکستانی عوام سے ان کی محبت جاگ اٹھے۔ جوہر آباد، خوشاب سے نعیم سندھو ایڈووکیٹ نے ایک شعر بھیجا ہے، آپ کی خدمت میں پیش ہے:
ہم بچاتے رہ گئے دیمک سے اپنا گھر مگر
کرسیوں کے کیڑے ملک سارا کھا گئے
تازہ ترین