پاکستان کی مشرقی سرحد تو بھارت کے معاندانہ عزائم اور جارحانہ اقدامات کی بدولت ہمیشہ سخت ترین سیکورٹی انتظامات کی متقاضی رہی ہے مگر افغانستان اور ایران جیسے برادر اسلامی ممالک کے ساتھ ملنے والی مغربی سرحد پر بھی دونوں جانب اپنی اپنی کمین گاہیں رکھنے والے دہشت گردوں، جرائم پیشہ گروہوں، عسکریت پسندوں اور انسانوں اور منشیات کے اسمگلروں کی آماج گاہیں بنی رہی ہیں۔ ان کا قلع قمع کرنے کیلئے پاکستان کی سیکورٹی فورسز اور دوسرے مسلح اداروں کو مسلسل حالت جنگ کی سی کیفیت سے دوچار رہنا پڑا۔ پہلے روسی اور پھر امریکی حملوں کے بعد افغانستان میں تاریخ کی جس بدترین دہشت گردی نے جنم لیا، اس نے پاکستان کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ افغانستان سے امریکیوں کی واپسی اور طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھی دہشت گردی پوری طرح ختم نہیں ہوئی اور طالبان کی عبوری حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود اب بھی افغان سرزمین سے نہ صرف پاکستان کے قبائلی علاقوں پر دہشت گرد حملے ہو رہے ہیں بلکہ ملک کے اندرونی علاقوں میں بھی تخریبی کارروائیاں جاری ہیں جن پر پاک فوج مسلسل عمل کے ذریعے کنٹرول کر رہی ہے۔ ایران کے ساتھ ہمارا کوئی تنازع نہیں تاہم بلوچستان ایران سرحد پر دونوں جانب جرائم پیشہ گروہوں نے اپنے ٹھکانے بنا رکھے ہیں جو اپنے اپنے مقاصد کیلئے امن و امان کے مسائل پیدا کرتے رہتے ہیں۔ موقع ملنے پر یہ گروہ سیکورٹی فورسز کی چیک پوسٹوں پر بھی حملے کرنے سے باز نہیں آتے۔ اس صورتحال کے پس منظر میں اطلاعات کے مطابق ڈی جی آئی ایس آئی نے پچھلے دنوں ایران کا غیرعلانیہ دورہ کیا جس کے بعد ایرانی وزیر داخلہ ڈاکٹر احمد وحیدی بھی پاکستان آئے اور وزیراعظم عمران خان، وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں پاک ایران مشترکہ سرحد پر دہشت گردی اور دوسرے جرائم کی بیخ کنی پر خصوصی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے تجارت، علاقائی رابطے کے فروغ اور سیکورٹی معاملات کے جلد حل کے علاوہ مشترکہ سرحدی منڈیوں کی تکمیل پر زور دیا۔ آرمی چیف سے ایرانی وزیر داخلہ کی ملاقات میں جیو اسٹرٹیجک، بالخصوص علاقائی سلامتی کی صورتحال، دفاع اور پاک ایران سرحدی سیکورٹی کے میکانزم پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ جنرل باجوہ نے اس موقع پر اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم پاک ایران سرحد پر دہشت گردی اور شر پسندی کو پنپنے نہیں دیں گے۔ پاک ایران سرحد امن اور دوستی کی سرحد ہے۔ دونوں برادر ملکوں کے درمیان تعاون میں اضافہ امن و استحکام کیلئے ضروری ہے۔ دونوں ممالک کے وزرائے داخلہ کی ملاقات سرحدی امن اور باہمی تعاون کے فروغ کے معاملے میں اس اعتبار سے مفید رہی کہ اس میں پاک ایران سرحدی امور سے متعلق معاملات سے نمٹنے کیلئے ایک مشترکہ ورکنگ گروپ کے قیام پر اتفاق ہوا۔ اس کے علاوہ انسانی امیگریشن اور منشیات کی اسمگلنگ روکنے کیلئے باڑ لگانے کا کام جلد مکمل کرنے کا فیصلہ ہوا اور قیدیوں کے تبادلے اور زائرین کو سہولتیں دینے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ایرانی وزیر داخلہ نے یقین دلایا کہ پاکستان پر دہشتگرد حملوں کو ایران اپنے ملک پر حملہ سمجھتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ باہمی تعلقات کو ہمہ جہت بنانے کیلئے دونوں ملکوں کے مشترکہ ورکنگ گروپ بنائے جائیں گے۔ پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی یقین سے کہا کہ پاک ایران سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتی۔ پاکستان اور ایران مشترکہ مذہبی اور ثقافتی اقدار رکھتے ہیں توقع ہے کہ ایرانی وزیر داخلہ کے دورے سے دونوں ملکوں کے تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔ خاص طور پر بلوچستان سے عسکریت پسندوں کے ایران میں پناہ لینے کے راستے بند ہو جائیں گے۔