• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ ہمیشہ زبان سے اچھی بات نکالو، کوئی وقت قبولیت کا ہوتا ہے اور انسان کو محسوس بھی نہیں ہوتا کہ اس کی زبان سے کہی کوئی بھی اچھی بُری بات مستقبل میں سچ ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے کہ جب سابق صدر ممنون حسین مرحوم نے نواز شریف دور میں اچانک ایک تقریب کے دوران احتساب کے حوالے سے مستقبل کا منظر نامہ کچھ یوں بیان کردیا کہ’’ ایک ایسا دور آنے والا ہے کہ جب بڑے بڑے سرمایہ دار، کرپٹ سیاست دان احتساب کے شکنجے میں آئیں گے، انہیں کڑی سزائیں سنائی جائیں گی، ایسے سب لوگ جیلوں میں ڈالے جائیں گے‘‘۔ اس لمحے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے انتہائی ممنون، صدر پاکستان کے یہ الفاظ آنے والے دنوں میں ان پر کس طرح بھاری پڑیں گے اور صاحبِ اقتدار لوگ کیسے سڑکوں پر خوار ہوں گے۔ عدالتی پیشیاں بھگتیں گے، جیلوں میں ڈالے جائیں گے لیکن قدرت نے ان کا کہا سچ ثابت کر دیا اور تاریخ نے ایسا پلٹا کھایا کہ جو خود کو طاقتور ترین شہنشاہ سمجھتے تھے، کمزور ترین حکمران ثابت ہوئے۔ درویشوں، فقیروں اور اللہ کے عاجز بندوں کی نشانیاں مختلف ہوتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ چہروں پر لمبی لمبی داڑھیاں ہی ہوں اور وہ ظاہری روپ میں عامل کامل بابے دکھائی دیں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے دلوں میں داڑھیاں اور چہرے صاف شفاف چمکتے دمکتے نظر آتے ہیں اور ان کی کہی بات مستقبل میں سچ ثابت ہو جاتی ہے۔ ایسا ہی ایک بابا ڈینگا پنجاب کے ایک بڑے سرکاری دربار میں بیٹھا ہے جس کے کہے یہ الفاظ کہ ہم نے آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر قرض کے عوض اپنا سب کچھ بیچ دیا اور آئندہ نسلیں اس کی قیمت ادا کریں گی۔ اللہ ہمارے گناہ معاف کرے، ہمارے منہ میں خاک کہ یہ الفاظ کبھی سچ ثابت ہوں اور ہمیں قرضے کے عوض ایسی کوئی قیمت ادا کرنا پڑے لیکن آثار کچھ اچھے نظر نہیں آتے کہ شہر اقتدار کے ایک آسیب زدہ محل پر بڑی بڑی بلائیں منڈلاتی نظر آرہی ہیں۔ عامل، کامل بابے، بیبیاں ان بلاؤں کو ٹالنے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ درودیوار پر ’’جل تُو جلال تُو، آئی بلا کو تال تُو‘‘۔ پڑھ پڑھ پھونکیں ماری جارہی ہیں کہ مرشد کے سر پر جو بلائیں بسیرا کیے بیٹھی ہیں، ان کا کوئی اُپائے کیا جاسکے۔ اب مرشد ہیں کہ اپنا حصار کئے منہ سے یہ الفاظ ادا کر بیٹھے ہیں کہ اگر مجھے نکالا تو میں خطرناک ہو جاؤں گا۔ کیا مرشد کے یہ الفاظ بھی بغیر داڑھی اگلے پچھلے بابوں کی طرح سچ ثابت ہونے جارہے ہیں یا پھر یہ الفاظ ہینڈ سم بوائے کی محض ایک دھمکی سمجھی جائے گی۔ صورت حال تو یہ نظر آتی ہے کہ مرشد کے سر پر منڈلاتی بلائیں جس طرح روپ بدل بدل کر حملہ آور ہو رہی ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ مرشد اپنا حصار توڑ کر باہر نکلیں، اپناخطرناک روپ دکھائیں اور وہ انہیں دبوچ کر شہر اقتدار سے نکال کر سڑکوں پر لے آئیں۔ اب تو آسیب زدہ محل کی یہ بلائیں آس پاس کے مکینوں کو بھی تنگ کرنے لگی ہیں۔ اس حوالے سے شدید بے چینی محسوس کی جانے لگی ہے۔ ہر کوئی ان بلاؤں کی آئے روز کی شرارتوں، توڑ پھوڑ سے خوف زدہ نظر آتاہے۔ یہ محسوس کیا جانے لگا ہے کہ کسی بڑے نقصان سے پہلے اس کا توڑ نکال لیا جائے تو بہتر ہے۔ عارضی مکین پریشانی کے عالم میں در در مارے پھر رہے ہیں اور کسی ایسے محفوظ مقام کی تلاش میں ہیں جہاں طلسماتی طورپر چند روزہ سکون کے ساتھ ساتھ قیام و طعام بھی ملے۔ اگرچہ بڑے مولانا صاحب نے اپنی کرشماتی طاقت سے مرشد کے قلعہ بالا حصار میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کامیابی سے بہت بڑا سوراخ کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مرشد کا حصار توڑنا کوئی مشکل کام نہیں، مولانا صاحب کی اسی طاقت نے تمام چھوٹی بڑ ی بلاؤں کو یہ حوصلہ دیا ہے کہ اگر وہ اجتماعی چلہ کشی پر متفق ہو جائیں تو بوتل سے نکلنے والے ”بڑے خطرناک جن“ کو قابو کرنا اتنا بھی مشکل نہیں جتنا ہو ّا بنایا گیا تھا۔آثار تو بڑے واضح نظر آتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کی منظور ی کے موقع پر ان بلاؤں کی خاموش حمایت اسی چلہ کشی کا نتیجہ تھی کہ مرشد کا حصار توڑ کر شہرِ اقتدار میں داخلے کا کوئی نیا راستہ پیدا کیا جائے۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر خاموشی بھی اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ اگر مرکز اور بلوچستان میں باپ پارٹی کی حمایت درکار ہو تو ایک راستہ کُھلا رکھا جائے۔ بلوچستان میں امن و امان کی بگڑتی صورت حال اور سیاسی ضرورتوں کے تحت صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ کے عہدے پر برقرار رکھنا فریقین کی ضرورت ہے۔ توقع یہی کی جارہی ہے کہ جناتی طاقتیں قلعہ بالا حصار کے بعد دوسرا بڑا حملہ قلعہ پنجاب پر کریں گی اور پنجاب کی پگ جہانگیر ترین گروپ کے ہاتھوں چوہدری پرویز الٰہی کے سر پر رکھی جائے گی۔ اس بات پر بڑا واضح اتفاق نظر آتا ہے کہ شہباز شریف کا مستقبل اسلام آباد ہے اور یہ نظام عبوری نہیں آئندہ ڈیڑھ سال تک آئینی طریقے سے چلایا جائے گا۔اس نظام کو مزید ڈیڑھ سال برقرار رکھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ مرشد کے جو مریدین نئے دربار کے خادم بننے کی خواہش رکھتے ہیں انہیں یہ موقع دیا جاسکے کہ وہ آئندہ انتخابات تک عوام میں اپنی ساکھ دوبارہ بحال کرسکیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ مرشد خطرناک ہوتے ہیں یا پھر یہ بلائیں وقت سے پہلے ان پر قابو پا لیتی ہیں؟ تبدیلی کا ایک طریقہ آئینی ہے دوسرا طریقہ ٹیڑھی انگلی سے گھی نکالنے کا یہ ہے کہ جس طرح خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کا صفایا دو دھاری تلوار سے ہو رہا ہے ایک طرف وہ عوام کے ہاتھوں پٹ رہی ہے تو دوسری طرف الیکشن کمیشن بھی بے خوف فیصلے سنا رہا ہے۔ علی امین گنڈا پور کے بھائی عمر امین گنڈا پور کی نااہلی فارن فنڈنگ کیس کی طرف ایک اشارہ ہے کہ اگرآپ خطرناک ہوئے تو...

تازہ ترین