• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکمران ملک کےعوام کیلئے ہمیشہ باپ کا درجہ رکھتے ہیں، وہ عوام کو دھونس اور دھمکیاں نہیں دیتےجب کہ کچھ دن قبل ملک کے وزیر خزانہ یہ کہتے پائے گئے کہ ہم ٹیکس نہ دینے والوں سے ٹیکس لے کر رہیں گے، کس کے پاس کتنی دولت ہے ہمیں علم ہے ، اب ہم نوٹس نہیں بھجیں گے بلکہ ان سے ٹیکس وصول کریں گے۔ ان کا لب ولہجہ بتا رہا تھا کہ وہ ٹیکس کی وصولی کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کریں گے۔ جس جماعت میں مالی معاملات میں خورد برد پر شور ہورہا ہے وہ جماعت یا اس کا کوئی بھی رہنما کیسے عوام کو دھمکیاں دے سکتا ہے؟ خیر اس بات میں تو کوئی شک و شبہ نہیں کہ ملک میں ٹیکس کا نظام ناقص ہے جبکہ ملکی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ٹیکسوں کی وصولی کا نظام درست ہو اور ٹیکس ادا کرنے کے قابل ہر شہری اپنے ذمہ واجب الادا ٹیکس قواعد و ضوابط کے مطابق ادا کر رہا ہو پھر ہمیں اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے کشکول نہیں اٹھانا پڑے گا۔

پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ حکمرانوں کا تعلق ایک خاص طبقے سے رہا ہے۔ ان میں بیشتر پرکرپشن کے الزامات لگتے رہے اور جب یہ حکومت میں آئے تو ایسا تاثر دیا جیسے یہ پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہوں اور سب سے زیادہ ایماندار ہوں۔ غریب عوام کو یہ ٹیکس چور قرار دینے سے باز نہیں آتے ،اس کی مثال موجودہ حکمرانوں کی تقریریں ہیں۔ ہمارے پالیسی سازوں اور حکمرانوں نے کبھی ٹیکس سسٹم کو ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا اور نہ ہی ان انڈسٹریز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے اقدامات کئے جن پر اربوں روپے ٹیکس چوری کے الزامات ہیں، ایک ایسا ہی شعبہ سگریٹ انڈسٹری ہے جس کے مالکان پر اربوں روپے ٹیکس چوری کا الزام لگا مگر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اگر بات ٹیکس چوری کی ہو تو اربوں ڈالر کی انڈسٹری رکھنے والے بعض لوگ پارلیمنٹ کا حصہ ہیں جو ٹیکس کی خورد برد میں ملوث ہیں، جو خود بھی ٹیکس ادا نہیںکرتے اور چونکہ یہ افسر شاہی کا حصہ ہیں لہٰذا یہ ٹیکس نظام کو بہتر اور مربوط بنانے کے خلاف سازشیں بھی کرتے رہتے ہیں۔قارئین کے ذہن میں سوال تو آتا ہوگا کہ اربوں روپے ٹیکس کہاں سے آتاہے؟ تو جناب ایک عام آدمی جب 5روپے کے بسکٹ خریدتا ہے تو اس پر بھی وہ ٹیکس دیتاہے جب کہ قومی خزانے میں ٹیکسوں کی مد میں جو رقوم آتی ہیں وہ زیادہ تر تنخواہ دار طبقے کی تنخواہوں میں سے ازخود انکم ٹیکس کی کٹوتی کی صورت میں حاصل ہونے والی رقوم ہیں یا پھر وہ چھوٹے تاجر جن سے زبردستی ٹیکس لیا جاتا ہے۔ عوام جو ٹیکس دیتےہیں بدلے میں حکومت انہیں کیا دے رہی ہے؟ کیا صحت کا نظام بہتر ہے؟ کیا علاج مفت ہوتا ہے؟ کیا تعلیم کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے؟ کیا سڑکیں بہتر ہوئیں؟ کیا ٹیکس دینے والےعوام کو کوئی سبسڈی ملتی ہے؟ یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ واقعی تماشا ہے کہ پورا پورا ٹیکس ادا کرنے والے یہ لوگ زندگی کی بنیادی ضرورتوں اور سہولتوں سے بھی محروم ہیں جبکہ بجلی، گیس اور دیگر بلوں، ٹرانسپورٹ کے کرایوں اور اشیائے خور ونوش کی خریداری کے وقت ان کے نرخوں میں جنرل سیلز ٹیکس شامل ہوتا ہے جو ان سے جبری طور پر وصول کیا جاتاہے اور پھر کہاجاتا ہے کہ عوام ٹیکس چور ہیں۔ اسی طرح وسائل سے محروم یہ طبقات براہ راست اوربالواسطہ ٹیکس ہر صورت ادا کرنے پر مجبور ہیں جو دہرے ٹیکسوں کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے نہ اپنا مکان بنا سکتے ہیں نہ بچوں کو بہتر تعلیم دلوا سکتے ہیں۔

دوسری طرف نظر دوڑائیں تو عوام کا خادم ہونے کا دعویٰ کرنے والے، انڈسٹری کے مالک، صنعت کار اور دیگر مراعات یافتہ طبقات نہ صرف ٹیکس چوری میں ملوث ہیں بلکہ اپنے اختیارات اور اثرو رسوخ کے بل بوتے پر واجب الادا ٹیکسوں میں چھوٹ بھی حاصل کر لیتے ہیں اور انہیںریفنڈ کے نام پر یہ ٹیکس واپس بھی کر دیا جاتا ہے، کیا عوام کا دیا ہوا ٹیکس کبھی ریفنڈ ہوا؟ ایسا کیوں ہے کہ ہماری ریاست ان مراعات یافتہ افراد کو جو ٹیکس دیتے ہیں ،ٹیکس ریفنڈ کر دیتی ہے یعنی ایک ہاتھ سے ٹیکس دو اور دوسرے سے لے لو۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ سب سے پہلے ان مراعات یافتہ طبقات کو مکمل طور پر ٹیکس نیٹ میں لانے اور ان سے واجب الادا ٹیکس بلاامتیاز وصول کرنے کے لئے متعلقہ حکومتی، انتظامی مشینری کو متحرک کیا جائے، پارلیمان میں بیٹھے افراد جن پر ایک روپے بھی ٹیکس چوری کا الزام ہے انہیں تاحیات نااہل کردیا جائے ٹیکس چوروں کے خلاف کارروائی اگر ان سے شروع ہوگی تو عوام کو بھی یقین آئےگا کہ اس ملک میں قانون سب کے لئے یکساں ہے۔

حال ہی میں ایک رپورٹ سامنے آئی ہے کہ پارلیمنٹ کے100 سے زیادہ ارکان ایسے ہیں جن کے 35، 35ارب کے اثاثے ہیں مگر یہ ٹیکس دینا تو دورکی بات، ایف بی آر میں رجسٹرڈ تک نہیں ہیں۔ چاروں صوبائی اسمبلیوں ، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مبینہ طورپر 700سے زائد پارلیمنٹیرینز ایسے ہیںجو ٹیکس کی مد میں ایک روپیہ بھی نہیں دیتے مگر ہمارے حکمران عوام کو ٹیکس چور کہتے نہیں تھکتے ، پاکستان کی معیشت کا سارا بوجھ ان افراد کے کندھوں پر ہے جو اپنی تنخواہ اور کاروبار میں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ازخود انکم ٹیکس کی کٹوتی کراکے ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں۔ ٹیکس ریٹ میں اضافے کا شکار وہ لوگ ہی ہوئے جو آج تک ایمانداری سے اپنا ٹیکس جمع کروا رہے ہیں۔ خدارا ٹیکس دہندگان کی ایمانداری کامذاق نہ اُڑائیں ۔ ٹیکس دینے والے کو سہولت دیں اور جو ٹیکس نہیں دے رہے خصوصی طور پر مراعات یافتہ طبقہ، ان سے ٹیکس لینے کیلئے موثر اقدامات کریں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین