السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
جدائی کا سال
سال 2021ء سنڈے میگزین کے ساتھ ہی گزر گیا اور خُوب گزرا۔ سالِ نو ایڈیشن میں ’’جو ہم میں نہ رہے‘‘ پڑھ کے دل بہت رنجیدہ ہوگیا۔ اللہ پاک مرحومین کو جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ سالِ رفتہ تو بس گویا جدائی کا سال ہی رہا۔ (شری مرلی چندجی گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)
حصّہ اوّل کی کسر
سنڈے میگزین کے’’سال نامے‘‘ کا حصّہ دوم بھی لاجواب مضامین سے سجا دکھائی دیا۔ ہرہر صفحہ قابلِ تعریف ہے۔ بھنبھور، مکلی، شاہ جہانی مسجد اور کینجھر جھیل پر محمّد کاشف نے مختصر سی بہت اچھی رپورٹ دی۔ اس دفعہ دو دو ماڈلز نظر آئیں۔ غالباً سال نامےکےحصّہ اوّل کے شوٹ کی کسر پوری کی گئی۔ منور راجپوت دو کتابوں پر تبصرہ لے کر آئے۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ بہت اچھے انداز سےمرتّب کیا گیا۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ تو ہر دل عزیز صفحہ ہے ہی۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: عموماً کلر آف دی ائیر‘‘ کا شُوٹ دو ہی ماڈلز کے ساتھ کیاجاتا ہے۔ اورایساکسر پوری کرنےکےلیے نہیں، تھوڑی ناولٹی لانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
مکمل شعر لکھ دیا کرو
سالِ نَو کے لیے دُعا اور التجا تو اپنے اللہ سے یہی ہے کہ سب خیر ہو، لیکن اس خیر و بھلائی میں ہمیں اپنا کردار بھی ادا کرنا ہوگا، کیوں کہ اگر یک طرفہ معاملہ رہا، تو پھر پورا سال وہی حال رہے گا، جو گزشتہ برسوں رہا۔مائوں کو اپنی ذمّے داری نبھانی ہوگی۔ سیرت و کردار میں اپنی اولاد کے لیے رول ماڈل بننا ہوگا۔ ارے ہاں، آپ نے میری نواسی کے نام سے متعلق دریافت کیا، تو بچّی کا نام ’’لنت احمد‘‘ قرآنِ پاک میں سورئہ آلِ عمران کی آیت نمبر159 میں اللہ نے نبی پاک ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ آپ ﷺ نرم دل واقع ہوئے ہیں۔ مَیں جب قرآنِ پاک کی کلاسز لے رہی تھی، اُس وقت سے یہ نام اچھا لگا، سوچا نواسی یا پوتی جو بھی ہوگی، اُس کارکھوں گی،پھر نواسی ہوگئیں، تو اُن کا نام رکھ دیا۔ سالِ نو کا میگزین اچھا تھا۔ خُوب محنت جھلک رہی تھی۔ ویسےقوم کےکچھ کارہائے نمایاں بھی بیان ہو جاتے، کچھ نوجوانوں کی کاوشیں صفحہ قرطاس پر بکھرتیں، تو ہم جیسے بزرگ بھی خوش ہوجاتے۔ اچھا اِک گزارش تھی کہ ہر مضمون کےساتھ جو مصرع لکھا ہوتا ہے، تو مکمل شعرمضمون کےآخرمیں لکھ دیاکرو،کیوں کہ بعض مصرعے بہت ہی خُوب صُورت ہوتے ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ مکمل شعر مل جائے، وگرنہ ایک تشنگی سی رہ جاتی ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ بہترین سلسلہ ہے۔ کبھی کبھار دسترخوان سے بھی اچھی خوشبوئیں آتی ہیں۔ اور ’’آپ کے صفحے‘‘ کی تو بات ہی الگ ہے ابھی ہم نئے نئے آپ کی بزم میں آئے ہیں، اس لیے تھوڑا جھجکےہوئے ہیں، خیر کُھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں۔ سب اچھا لکھتے ہیں، اندازہ ہوتا ہے کہ مصروفیات سے وقت نکال کر آپ کے صفحے کو رونق بخشتے ہیں۔ اللہ سلامت رکھے، ورنہ موبائل کی مصروفیت نے تو اپنوں سے لاتعلق کردیا ہے، تم خوش قسمت ہو کہ لوگ تمہارےلیےقلم، کاغذ تھام لیتے ہیں۔ ورنہ تو اس دَور میں منہ سے بات کرنا مشکل، ملاقات دوبھر ہے، کجا کے نصف ملاقات۔ خادم ملک بھلے آدمی ہیں۔ صاف اور کھری بات کرتے ہیں اور کچھ نہ کچھ وقت نکال کر ہر ہفتے اپنا بےلاگ تبصرہ بھی بھیجتے ہیں، اُن کی قدر کیا کرو۔ اچھا بچّی! اجازت دو، زندگی رہی، تو پھر کچھ لکھ دیں گے۔ (مسز خالدہ خان، کراچی)
ج: آپ کی ساری ہی باتیں بہت پیاری ہیں۔ خط پڑھ کے بےحد اپنائیت سی محسوس ہورہی ہے۔ آپ کی باتوں پر عمل کی بھی کوشش رہے گی۔
وہ دن کب آئے گا؟
اس بار بھی ہمیشہ کی طرح دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ ایک میں رُوح پرور واقعات سے مزیّن ’’سرچشمہ ٔ ہدایت‘‘ کا صفحہ موجود تھا، دوسرے میں نہیں۔ آپ سے پہلے بھی گزارش کی تھی کہ کوئی بھی صفحہ ڈراپ کردیا کریں، مگر یہ صفحہ نہیں۔ ’’منہگائی کے تھپیڑوں سے بدحال عوام‘‘ شان دار تحریر تھی، گویا ہماری دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا گیا۔ یہ سچ ہے کہ کورنا کی وجہ سے ساری دنیا میں منہگائی ہوئی ہے، مگر اتنی نہیں ہوئی، جتنی پاکستان میں ہوگئی ہے۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں معروف رہیوماٹالوجسٹ ڈاکٹر صالحہ اسحاق کی بات چیت معلوماتی تھی۔ دونوں ہی شماروں میں ’’اسٹائل‘‘ کا رائٹ اَپ عالیہ کاشف نے تحریر کیا۔ اس بار تو ایک انٹرویو کے ساتھ اُن کی تصویر بھی موجود تھی۔ پتا نہیں وہ دن کب آئے گا، جب ہم آپ کی تصویر بھی دیکھ سکیں گے۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں خوش جمال، بااعتماد، شوخ و چنچل، پاکستانی/ افغانی اداکارہ نجیبہ فیض کی باتیں لُطف دے گئیں۔ ’’سردیوں کی سوغات، خشک میوہ جات‘‘ تو اب غریب کی پہنچ سے بہت دُور ہوگئے ہیں۔ موہن جو دڑو کی سیر کا مزہ آگیا۔ شری مُرلی چند کو شادی مبارک ہو۔ محمّد سلیم راجا نے ناچیز کا ذکرِ خیر کیا، بےحد شکریہ۔ اور آپ نے بھی دونوں شماروں میں میرے خطوط شایع فرمائے، مہربانی۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)
ج: اِن شاء اللہ تعالیٰ وہ دن نہیں آئے گا کہ آنا ہوتا، تو اب تک آچُکا ہوتا۔ ادارے کی طرف سے سب کو اجازت ہے، جو چاہے، اپنی تصویر شایع کروائے، جو چاہے، نہ کروائے۔ ہمیں ذاتی طور پر ایک بات پسند ہی نہیں، تو وہ کیوں کر ممکن ہے؟ لہٰذا آپ اپنی یہ حسرت، اپنے دل ہی میں سنبھال رکھیں۔
قارئین کے انفرادی واقعات
’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ کا حصّہ اوّل ملا‘‘ تو دل اُداس ہوگیا۔ کیوں…؟ کیوں کہ مجھے ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ بالکل پسند نہیں۔ وہی گزرے واقعات، وہی ماضی کے قصّے، وہی رونے دھونے۔ جو سال بھر بیتی ہوتی ہے، وہی دُہرانی پڑتی ہے۔ پہلے تو یہ پھر ایک ہی ایڈیشن ہوتا تھا، اب خدا خیر کرے، دو دو تین تین ایڈیشن ہوگئے ہیں۔ اس سےتوبہترہے، قارئینِ جریدہ کے انفرادی واقعات پر کوئی رپورٹ مرتّب کر لی جائے۔ جیسا کہ اگر میری بات ہو تو گزشتہ سال کی خوشی یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے پھول سا بیٹا عطا کیا اور غمی کی بات یہ کہ اُس نے پورا سال ناک میں دَم کیے رکھا۔ بہرحال، ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ پر آپ نے محنت تو کی ہے، اس لیے آپ کو سراہنا بھی چاہیے۔ ’’حرفِ آغاز‘‘ تو بس ایک نوحہ ہی ہوتا ہے۔ ’’بساطِ عالم‘‘ میں منور مرزا نے اچھا تجزیہ کیا۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ میں ڈاکٹر ناظر محمود نے اچھے اِن اینڈ آئوٹ کیے، لیکن اگر کورونا اِن اور پولیو آئوٹ کی جگہ، اومی کرون اِن اور کورونا آئوٹ لکھتے، تو زیادہ اچھا ہوتا۔ ’’کِلکس‘‘ میں منور راجپوت نے سال کو ایک صدی کے برابر قرار دیا، حالاں کہ اب تو سال گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا۔ ’’پاک افواج‘‘ میں کمانڈر محبوب حیدر نے بتا دیا کہ تحریکِ طالبان پاکستان کے پیچھے درحقیقت کس مُلک کا ہاتھ ہے، تو اب ہمارے نام نہاد دانش وَروں کو بھی اسلام اورافغان طالبان کےخلاف پروپیگنڈا بندکردیناچاہیے۔’’ایوانِ نمائندگان‘‘ میں فاروق اقدس کی فرینڈلی اپوزیشن والی بات سچ ہی لگتی ہے۔ چاروں صوبوں کا منظرنامہ عُمدگی سے پیش کیا گیا۔ ’’جو ہم میں نہ رہے‘‘ نے اُداسی میں اضافہ کیا۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں برقی خطوط کی کمی محسوس ہوئی۔ (مامے کا پُتر، نارتھ کراچی، کراچی)
ج: کورونا نے بڑے بڑوں کو سدھار دیا، نہیں سدھار سکا تو آپ کو اور خادم ملک کو۔ سالِ نو ایڈیشن میں قارئین کے ذاتی واقعات پر رپورٹ مرتّب کرنے کا آئیڈیا اتنا ہی مضحکہ خیز ہے، جتنا ایک نالائق حکومت کا، اپنے لائق ورزاء میں تعریفی اسناد تقسیم کرنے کا۔ اب بھلا مامے کے پُتر کے پُتر کی پیدایش سے عام قارئین کا کیا لینا دینا، آج کل تو لوگ سیلیبرٹیز کےبچّوں کی پیدایش کو بھی معمول کی بات سمجھ کر زیادہ دل چسپی کا اظہار نہیں کرتے۔
بے ذائقہ نہیں ہو سکتا
’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ میں آپ کا ’’حرفِ آغاز‘‘ ایک بہترین رائٹ اَپ تھا۔ میرا شکوہ بھی دُور ہو گیا ہے کہ آپ نے غالباً چار شعراء کا کلام اپنی تحریر میں سمویا۔ نئی کتابوں پر تبصرہ بھی ایک شان دار سلسلہ ہے۔ بہرحال، مختصراً یہ کہ شمارے سے آپ کی محنتِ شاقّہ کی بخوبی غمّازی ہو رہی تھی۔ یوں بھی جس رسالے میں ادبی تڑکا لگا ہو، وہ کبھی بے ذائقہ ہو ہی نہیں سکتا۔ (صدیق فن کار، کلمہ چوک، جھاورہ کینٹ)
ج: خطوط کو بھی ادبی تڑکا لگانے کی کوشش کرلیا کریں کہ جنہیں شعر و ادب سے رغبت ہو، وہ پھر کسی بھی صنف میں طبع آزمائی کرلیتے ہیں۔
چھوٹی سی غلطی
سال 2022ء کے ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ میں مُلکی و غیر مُلکی حالات و واقعات کاہر ہرزاویے سے بھرپور تجزیہ کیا گیا۔ 2021ء میں جُدا ہونے والی نام وَر ہستیوں کو جو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا، وہ بھی بےمثال تھا۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘2021 کے بارہ ماہ کے 52 اتواروں کے شماروں پر مشتمل نامہ نگاروں کی چِٹھیوں کےجائزے کا تو کوئی مول ہی نہ تھا، لیکن اس جائزے میں، مَیں نے ایک چھوٹی سی غلطی نوٹ کی کہ آپ نے لکھا، ’’21نومبر 2021ء کو عدنان حسین نے بھی دوسری جست لگا ہی لی۔‘‘ مگر عدنان حسین کا نام 21 نومبرسے پہلے اس جائزے میں شامل نہیں تھا۔ ممکن ہے مِس پرنٹ ہوگیا ہو یا پھر کہیں 6جون والے عرفان حسین ہی تو عدنان حسین نہیں تھے۔ بہرکیف، آپ کی سال بھر کی اَن تھک محنت کو سلام۔ (ایم اے ثاقب، راول پنڈی)
ج: جی ہاں، آپ نے بالکل درست نشان دہی کی۔ عدنان حسین کا نام کمپوزنگ اورپروف کی غلطی کے سبب پہلی بار عرفان حسین ہی لکھا گیا اور آپ کی اس قدر عمیق نگاہی، عرق ریزی پر ہم بھی آپ کو تہہ دل سے سلام پیش کرتے ہیں۔
راجا کا راج
شمارہ موصول ہوا، سرِورق پر ماڈل گرم جیکٹ میں بال بکھرائے کھڑی تھی۔ ’’عالمی اُفق‘‘ میں منور مرزا یوکرین تنازعے پر امریکا، روس جنگ کا خدشہ ظاہر کر رہے تھے، اللہ نہ کرے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر ایم صابر سکندری نے غذائی نالی کی تکلیف پرمعلوماتی مضمون تحریرکیا۔ ’’انٹرویو‘‘ میں وحید زہیرکی ڈاکٹر شاہ محمّد مری سے اچھی بات چیت تھی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں شفق رفیع بےنظیر بھٹّو کی 14ویں برسی پر اُن کی بھرپور جدوجہد سے آگاہ کر رہی تھیں۔ ’’ناول‘‘ دُھندلے عکس کا اختتام کرن عباس نے غیرمتوقع طور پر اچانک ہی کر دیا۔ اس بار ’’سینٹر اسپیریڈ ‘‘ کی ماڈل ماضی کی معروف ماڈل کبریٰ خانم سے مشابہ لگی۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں عالیہ کاشف ہم سےباصلاحیت اداکار،یاسرحسین کی سیدھی سچّی باتیں شیئرکررہی تھیں۔’’نئی کتابیں‘‘پرمنور راجپوت نے اپنے منفرد انداز میں بہترین تبصرہ کیا۔ ویسے یہ ہمارا اور ہمارے ایک دوست کا بھی شکوہ ہے کہ اکثر ناشرین کے پتے پرجب خط لکھتے ہیں، تو نہ جواب آتا ہے، نہ کتاب۔ اور اردو بازار جاکر دکانوں کی خاک چھاننے کی اب ہمّت نہیں۔ اس ضمن میں ناشر اور بُک ڈپو ہی کو ذمّے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ویسے بھی کتابیں پڑھنے کا رجحان کس قدر کم رہ گیا ہے۔ ’’متفرق‘‘ میں صبور فاطمہ ’’اسلام میں تحفّظِ ماحولیات کی اہمیت‘‘ پر اچھی تحریر لائیں، مگر افسوس، ہم تو دن رات بڑی بےرحمی سے جنگلات کی کٹائی ہی میں مصروف ہیں۔ تب ہی پاکستان کا شمار دنیا میں کم رقبۂٔ جنگلات رکھنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں مدثر اعجاز ناپسندہ عادات سے چھٹکارے کی تدابیر بتا رہے تھے، تو مصباح طیب گھر میں خوشیاں بکھیرنے کا نسخہ لائیں۔ اِک رشتہ، ایک کہانی، ہمایوں ظفر نے اچھے انداز میں مرتّب کیا اور اپنےصفحے پر اس مرتبہ بھی راجہ ہی کا راج تھا۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)
ج: راج بھی کسی کو ایسے ہی نہیں مل جاتا۔ بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ قسمت کے دھنی تو چند ایک ہی ہوتے ہیں، اصل قدر ٹیلنٹ اور محنت ہی کی کی جاتی ہے۔ کسی نے 20، 22 سال کا ’’پینڈا‘‘ کر رکھا ہو، تب ہی کوئی ’’دستِ شفقت‘‘ رکھنے کو بھی تیار ہوتا ہے۔ ’’وہ آیا، اُس نے دیکھا اور فتح کرلیا‘‘ والی کہانی اب بہت پرانی ہوگئی۔
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
آگیا وہ شاہ کار، سال بھر کا انتظار، تھا جس کے لیے ہر ایک کا دل بے قرار… ؎لیکن مرے دل یہ تو فقط اِک ہی گھڑی ہے.....ہمّت کرو ،جینے کو تو اِک عُمر پڑی ہے۔ حرف شناس مدیرہ کے ’’حرفِ آغاز‘‘ کو حرف بہ حرف پڑھا۔ نیلگوں ابتدائیے کے لبوں پر حرماں نصیب سالِ رفتہ کی حرف گیری تھی، تو جبیں پر سالِ نو کے لیے دل آویز تبسّم بھی۔ بیتے سال کی یادوں کو تازہ کرتا حرف نامہ، فیض احمد فیض کے ’’درد کے ڈیرے‘‘ سے شروع ہوکر ڈاکٹر شاہدہ حسن کی ’’زندگانی خُوب صُورت ہے‘‘ پر اختتام ہوا۔ ’’امّتِ مسلمہ‘‘ کی شان میں لکھے سالم صفحے کا انت، پاکستان سے متعلق ساڑھے سات سطری نِکّے جئے پیرا گراف پر ہوا اور وہ بھی کشمیر کےبغیر۔ زلف گیر، محمّد بلال غوری ’’خارزارِ سیاست‘‘ میں زلفِ پریشاں کی طرح حیراں تھے کہ 16میں سے 15 ضمنی انتخاب ہارنے کے باوجود کپتان کا کِلّا مضبوط رہا۔ تو عرض ہے کہ ؎ جے مولے نوں مولا نہ مارے، مولا نئیں مر سکدا۔ ہاہاہا… محمّد اویس یوسف زئی کا ’’عدالتِ عظمیٰ‘‘ کو پیش کیا گیا۔ سلامِ عشق ہم نے تو قبول کرلیا، مگر بابے رحمتے نے پاناما کی آنکھ سے جو اقامہ کا شہتیر نکالا تھا، اُس فقید المثال آرڈر کے بھی کیا ہی کہنے۔’’حالاتِ عالم‘‘ کے’’منٹو‘‘منورمرزاکے دو صفحی بساطِ عالم میں اگر کسی حسینۂ عالم کے سنہری تاج کی طرح دو موتی (وادیٔ کشمیر کے) جڑے ہوتے، تو ہم بھی گنگنا اٹھتے۔ او میرے رشک قمر… جمہوربت نواز، ڈاکٹر ناظر محمود کا ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ بلحاظ ہمہ جہتی آئوٹ کلاس تھا۔ مَن کے راجا،منورراجپوت نے 21ویں صدی کے سالِ راج کمار (2021ء) کی راج دھانی کے چیدہ چیدہ واقعات کو راج نگر ’’کِلکس‘‘ میں خُوب صُورتی سے فِٹ کیا۔ ’’ونگ کمانڈر (ر) محبوب حیدر سحاب تاروں کی چھائوں میں طیارے اُڑانے کے بعد اب تاروں کی انجمن میں بھی زبردست شاہ سواری کر رہے ہیں۔ اسلام آبادی جرنلزم کے گاڈ فادر، فاروق اقدس نے گالم گلوچی پارلیمنٹ ہنگامے کو اپنے قلمِ شائستہ سے پیرائیہ مضمون میں بڑی نفاست سے ڈھالا۔ 11کروڑ کے پنجاب کی ہیر رانجھوی داستانِ سالِ ماسبق کو محض چار کالموں میں سمونے پر ہم رئوف ظفر کو ’’فخر پنجاب‘‘ قرار دیتے ہیں۔ ’’سندھ‘‘ ساگرکی ہل چل کو مَن موجی، منور بھیّا نے ساحلی ریت پر بڑی چاہت سے لکھ کر اہلِ کراچی کو امن کی آشا بطورِ نذرانہ پیش کی، تو ارشد عزیز ملک کی ’’کے پی کے‘‘ کتھا میں مولانا نے خاناں کو پنکھڑی گلاب کی عاجزانہ پیش کی ؎ تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے…چُرالوں اِک ’’الیکشن‘‘ اگر بُرا نہ لگے۔ اور بلوچستان میں ’’باپ‘‘ کے دو بیٹوں کی باہمی تخت تبدیلی سے نالاں عوام کی محرومی کا مداوا بھلا کیسے ہو؟ چشم کُشا ’’کشمیر‘‘ رپورٹ لکھ کشمیر کےنام نہاد وکیلوں پرسرداسرد چھینٹے مارنے پرراجا پاکستانی کی طرف سے کشمیری راجا حبیب اللہ خان کو سیلوٹ۔ اور 2021ء میں جہانِ لیل و نہار سے کُوچ کرجانے والی نابغۂ روز گار ہستیوں کے نام ہمایوں ظفر نے قلمِ دل گیر سے گنوائے۔ آخر میں احوال، دربارِ خاص 2021ء کی بہترین چِٹھی کا، جس میں پوسٹ بابو نے ملکۂ عالیہ کی طرف سے بزمِ احباب کے نام خراجِ تحسین اِن الفاظ میں پیش کیا ؎ خط اُن کا بہت خُوب عبارت بہت اچھی..... کثیرترین چٹھیوں اوربہترین چٹھی کے دونوں اعزاز گدڑی کے لعل آف لال کوٹھی کے نام رہے۔ احباب کی دُعا و داد کا بہت شکریہ۔ (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)
ج:اطلاعاً عرض ہے، مختلف عنوانات کے تحت تجزیاتی رپورٹس فائنل کرتے ہوئے اس بات کا بطور خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ تکرار کم سے کم ہو۔ چوں کہ کشمیر کے لیے الگ سے ایک صفحہ مختص ہوتا ہے، تو پھر ہر رپورٹ میں کشمیر کا ذکر شامل کیا جانا ضروری نہیں تھا۔
گوشہ برقی خطوط
* سرما کی ٹھنڈی میٹھی، خوش گوار شاموں میں سنڈے میگزین کاساتھ کتنا بھلا لگتا ہے، بتانا مشکل ہے، بس تجربے ہی سے بات سمجھ آئے گی۔ ڈاکٹر شاہ محمّد مری کی کڑوی کسیلی باتیں سو فی صد سچ ہی لگیں۔ محترمہ کی برسی پر شفق رفیع کی اُجلی تحریر پڑھ کے آنکھیں بَھر آئیں۔ ’’نئی کتابیں‘‘ دسترس سے دُور ہوں، تو غصّہ دلانے کا سبب بنتی ہیں۔ اور بےکار ملک کی بےکار باتیں اب بالکل لُطف نہیں دیتیں۔ (حبیبہ انجم،کالج آف نرسنگ، لودھراں)
ج: ویسے خادم ملک قسمت کے بڑے دَھنی ہیں، اُن کا ایک ووٹ کم ہوتا ہے، تو10ہم درد اورپیدا ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ آج کل ایک صاحب مستقل اُن کی وکالت پر مامور ہیں اور ہماری شان میں قصیدے لکھ لکھ بھیج رہے ہیں۔
* مَیں آپ کا جریدہ بے حد ذوق وشوق سے پڑھتی ہوں۔ (صبا سلیم)
ج: یہ تو بڑا نیک کام کرتی ہو۔
* مَیں نے ایک نظم اشاعت کی غرض سے بھیجی تھی، مگرتاحال شایع نہیں ہوئی۔ کیا ناقابلِ اشاعت ہے؟ (ارم ہاشمی)
ج: اس کے لیے آپ کو ناقابلِ اشاعت کی فہرست باقاعدگی سے دیکھنا ہوگی۔
* WWE کے ریسلر، مصطفیٰ علی کا انٹرویو بھی کروائیں۔ (فہد حسین)
ج: انٹرویو تو ذرا مشکل ہے۔ ہاں اُن کی پروفیشنل لائف سے متعلق کوئی مضمون ضرور لکھوایا جاسکتا ہے۔
* ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے لیے اگر کوئی کہانی لکھنا چاہیں، توکیا ای میل کے ذریعے بھیج سکتے ہیں۔ (محمّد انس اکمل، لاہور)
ج: ’’آپ کا صفحہ‘‘ کےلیےکہانی…؟؟ بھیّا، یہ خطوط کا صفحہ ہے، رام کہانیوں کا نہیں۔ کہانی یا واقعہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ صفحےکےلیےبھیجا جاسکتا ہے اور پوسٹ یا ای میل دونوں ذرایع سے بھیجا جاسکتا ہے۔
* مَیں آپ کو ایک سفرنامہ بھیجنا چاہتا ہوں۔ ای میل کے ذریعے بھیجوں یا پوسٹ کردوں۔ (میاں عامر عزیز، شعبہ انگریزی، ساہیوال یونی ورسٹی)
ج: جیسے آپ کو سہولت ہو، آپ بھیج دیں۔.
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk