• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

نیا ناول کب شروع ہوگا؟

’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے جو مضمون لکھا،پڑھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ محمّدہمایوں ظفر نے تو ’’فیچر‘‘ میں خشک میوہ جات کی دکان ہی کھول لی۔ منور راجپوت نے اچھی رپورٹ تیار کی۔ ناول بہترین ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں بچّوں کی دیکھ بھال پر اچھا مضمون شامل کیا گیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’چاندکاداغ‘‘ پسند آیا۔ شُکر، ڈاکٹر قمر عباس کا بھی کہیں نام پڑھنے کو ملا۔ اور سال کا آخری جریدہ پڑھ کر کچھ اُداسی سی ہوئی۔ بلاشبہ، آپ سب لوگوں نے سال بھر سخت محنت کی۔ ہمیں تو گھربیٹھےایک شان دارمیگزین باقاعدگی سے پڑھنے کو ملتا رہا۔ شفق رفیع کا شکریہ، انہوں نے بے نظیر بھٹو پر ’’ایک نہتّی لڑکی‘‘ کے عنوان سے خُوب صُورت مضمون تحریر کیا۔ کرن عباس کرن کا ناول ختم ہوگیا، اب کیا ہوگا، نیا ناول کب شروع کریں گی۔ نئی کتابوں پر منور راجپوت کے تبصرے بہترین ہوتے ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں جڑی بوٹی، تارا میرا کا نام پہلی بار ہی سُنا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عنایت اللہ ایاز کی دُعا پسند آئی اور سال کے آخری شمارے کی اہم چِٹّھی بھی سلیم راجہ ہی کے نام رہی، مبارک ہو۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: ناول سے کہیں خُوب صُورت ایک نیا سلسلہ ’’آدمی‘‘ شروع کردیا گیا ہے۔ اُمید ہے آپ لوگوں کو بہت پسند آئے گا۔ اور تارا میرا کا نام آپ نے پہلی بار سُنا، حیرت ہے۔ ہم تو بچپن سے تارا میرا کے تیل کا تذکرہ سنتے آئے ہیں۔

کُوزے میں سمندر

’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ ملا۔ ’’حرفِ آغاز‘‘ میں آپ نے ’’تبدیلی خان‘‘ کی کارکردگی کا خُوب مہارت سے کچّا چٹھا کھولا، پڑھ کے مزہ آگیا۔ اب تو اُن کے ووٹرز اور ورکرز بھی ’’تبدیلی‘‘ کے نام سے کانپنے لگے ہیں۔ ’’امّتِ مسلمہ‘‘ میں طلعت عمران نے امّتِ مسلمہ کےزبوں حالی اورنااتفاقی کی بہترین نقشہ کشی کی۔ ’’خارزارِسیاست‘‘ میں محمّد بلال غوری نے ’’دل ضبط، جگر ضبط، زباں ضبط، فغاں ضبط‘‘ کے کمال عنوان کے ساتھ گویا کوزے میں ’’سمندر‘‘ سمو دیا۔ ’’عدالتِ عظمیٰ‘‘ میں اویس یوسف زئی کا کہنا تھا کہ وقت ہی منصف ہے، صحیح فیصلہ دے گا۔ ’’بساطِ عالم‘‘ میں منور مرزا سال بھر میں دنیا بھرمیں رونماہونے والے حالات و واقعات کا تفصیلی تجزیہ کررہے تھے،تو’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ میں ڈاکٹر ناظر محمود عروج و زوال کی دل چسپ کہانیاں سُنا رہے تھے۔ اے کاش! کہ کوئی دیدئہ عبرت نگاہ ہو۔ ’’کِلکس‘‘ میں منور راجپوت نے پورے سال کا منظر نامہ تصویری جھلکیوں کی صُورت پیش کیا۔ ’’پاک افواج‘‘ کے عنوان سے ونگ کمانڈر محبوب حیدر نے تینوں مسلح افواج کے کارہائے نمایاں سے آگاہ کیا، تو ’’ایوانِ نمائندگان‘‘ میں فاروق اقدس شرم سے سر جُھکا دینے والی ہنگامہ آرائی کی رُوداد لیے آئے۔ چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کے بھی تفصیلی منظرنامے دکھائے گئے، تو ’’جو ہم میں نہ رہے‘‘ نے بہت دیر رنجیدہ وفسردہ رکھا اور ہمارے صفحے میں حسبِ توقع محمّد سلیم راجہ ہی سرِفہرست رہے۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپور خاص)

ج: جی… ہم نے تو خود ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ کی صُورت کُوزے میں دریا، سمندر تو کیا، ایک ’’سونامی‘‘ سمونے کی کوشش کی ہے۔ لیکن بخدا یہ ’’سونامی خان ‘‘ والا سونامی قطعاً نہیں تھا۔

ہر گزرتے سال، کم زور ہوتی روایت

مَیں روزنامہ جنگ اور ’’سنڈے میگزین‘‘ کا 2010ء سے باقاعدہ قاری ہوں اور اس کے کوئی ایک ہزار سےبھی زائدشمارے میرے پاس محفوظ ہیں۔ ’’سال نامہ‘‘ سنڈے میگزین کی ایک ایسی انفرادیت و روایت ہے، جو برس ہا برس سے چلی آرہی ہے۔ مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہر گزرتے سال یہ روایت کچھ کم زور ہی ہو رہی ہے۔ صفحات کی تعداد مسلسل گھٹ رہی ہے، جیسا کہ میرے ریکارڈ کے مطابق سال 2013ء میں 92صفحات کا سال نامہ شایع ہوا، تو سال 2014ء میں 72صفحات کا، 2015ء میں 80صفحات کا، 2016ء میں 68صفحات، 2017ء میں 72، 2018ء میں 48، 2019ء میں 36، 2020ء میں 32 اور 2021ء میں صرف 24صفحات کا۔ اس طرح آہستہ آہستہ ادارتی صفحات کا کم ہونا قارئین کے ساتھ سخت زیادتی ہے۔ پھر جریدے کا سائز بھی چھوٹا کردیا گیا ہے۔ ایڈیٹر صاحبہ! آپ کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جنگ اخبار، دنیا میں اردو کا سب سے زیادہ شایع ہونے والا اور پڑھا جانے والا اخبار ہے، تو اس اعتبار سے اس کا حجم بھی اتنا تو ہو کہ دیکھ کے اور پڑھ کے قاری کی تشفّی ہوسکے۔ (راحیل قریشی، ہائی کورٹ، لاہور)

ج:ایڈووکیٹ صاحب! ساڑھے 3سال ’’تبدیلی سرکار‘‘ کےپاکستان میں گزارنے کے بعد آپ کی یہ 4 صفحات پر مشتمل گزارشات، تجاویز (جو ایڈٹ کردی گئی ہیں) کم ازکم ہمارے لیے تو بے معنی ہیں۔ ارے بھئی، ہم تو سروائیول کی جنگ لڑ رہے ہیں، آپ کہاں آئیڈل ازم، اخلاقیات و روایات کی باتیں لے کےآگئے۔ بس،اتناسمجھ لیں کہ ہم فی الوقت بھی جو پیش کر رہے ہیں، وہ ہمارا بیسٹ ہی ہے۔

محض بھرم رکھتی ہیں

غالباً آپ ہر ہفتے لوگوں کے خطوط کے جواب دے کر محض اُن کا بھرم ہی رکھتی ہیں، وگرنہ تو علاوہ چند ایک کے، باقی ردّی کی ٹوکری کی نذر ہوجانے چاہئیں۔ کیا الا بلا نہیں لکھ ڈالتے لوگ، جو جس کے جی میں آتا ہے، لکھ بھیجتا ہے۔ مَیں تو اس محفل میں بالکل نئی اور طفلِ مکتب ہوں۔ مجھ سے لوگوں کی باتیں ہضم نہیں ہوتیں، تو آپ کیسے سہہ جاتی ہیں، حیرت ہوتی ہے۔ وہ جو آپ نے ’’حرفِ آغاز‘‘ میں لکھا۔؎ نگاہِ شوق کہتی ہے، طلوعِ صبح فردا سے… لباسِ خاک، رنگ آسمانی خُوب صُورت ہے۔ مَیں تو پڑھ کے بس گرویدہ ہی ہوگئی۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، کوٹ ادّو، مظفر گڑھ)

ج: ایسا نہیں ہے شمائلہ! اِس بزم میں بہت اچھے اچھے لکھنے والے بھی موجود ہیں۔ دوسری بات یہ کہ یہ ہماری اپنی ہی کُھلی آفر ہے کہ ’’جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے، کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر ہمیں لکھ بھیجیے‘‘ تو پھرکوئی کچھ بھی لکھ بھیجے،ہمارےسر، آنکھوں پر۔

مبارک و باسعادت سال ہو

’’سنڈے میگزین‘‘ کے لیے دلی دُعا ہے کہ سال 2022ء انتہائی مبارک و باسعادت ثابت ہو۔ صحافی برادری سالِ گزشتہ جن مسائل و مصائب کا شکار رہی، رواں سال ایسی کسی آزمائش میں مبتلا نہ ہو۔ خصوصاًیہ جریدہ دن دونی،رات چوگنی ترقی کرے۔ (شری مرلی چند جی گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)

135نامہ نگار،440خطوط

اگرچہ سال 2021ء بعدِ جست و خیز گزر گیا، تاہم ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے لیےخطوط لکھنے والوں کے نام ’’ہائیڈ پارک‘‘ کے درودیوار پر نقش کرگیا۔ آئیے، سالِ رفتہ کے 135نامہ نگاروں کے تقریباً 440تبصراتی خطوط آئینۂ ماہ و سال میں شمار کرتے ہیں۔ 77مکتوب نگاروں نے 365دنوں میں ایک ایک خطِ عید لکھ کر رسم پوری کی۔ اُن میں سے 12کے نام ہیں، صبیحہ عمّاد، مصباح طیّب، رانی خاور میو، امامہ بنتِ محمّد اسلم، سونیا رائے سونم، رضیہ سلطانہ، محبوب حیدر سحاب (سال کی ابتدائی چِٹھی)، وارث علی بٹ، سیّد وارث علی، ظفر احسان اور والدئہ محمّد خبیب (سال کی آخری چِٹھی)۔ 21خطوط نگاروں نے’’بزمِ احباب‘‘کو دو دو گل دستۂ عیدین پیش کرکے دوستی کا بھرم رکھا، جن میں سے 13نمائندہ نام ہیں، عفّت زرّیں، اقصیٰ منوّر، عابدہ ارشد علی، نرجس مختار، نادیہ ناز غوری، مسز خالدہ خان، فریحہ تبسّم، ظہیر الدین غوری، امّ حبیبہ نور، راجہ افنان احمد، سیّد شاہ عالم زمرّد، سیّد سخاوت علی جوہر اور صدیق فن کار۔محض تین چِٹھیوں میں حال دل کاتمام لکھنے والے10 سیانے ہیں، عیشا نیاز رانا، ناز جعفری، حمیدہ گل و حمیرا گل، شاہدہ ناصر، شاہدہ کمال، ریحانہ ممتاز، سائیں تاج دین بٹ، محمّداسلم بھٹّی، تجمّل حسین مرزا اور مسٹر معذرت خواہ۔ چار چار بار چمکنے والے قلم کھلاڑی چار ہی ہیں۔ ڈاکٹر ایم عارف سکندری، عدنان حسین خان، نیمروز خان مہمند اور نورالہدیٰ بنتِ محمّد اسلم۔ جب کہ ’’کوچہ سخن‘‘ کو پنج وقتہ چمکانے والے دو نام عشرت جہاں اور وجیہہ تبسّم ہیں۔ قلم کارواں کے سالارِ محترم پروفیسر سیّد منصور علی خان، شاہ سوار ڈاکٹر اطہر رانا اور شاہ مدار، چاچا چھکّن نے شش شاہ پارے نذرِ بزم کیے، تو اسماء خان دمڑ نے 7شرارت نامے لکھ کر اپنی سَت رنگی سسرال میں غائبانہ بھونچال برپا کیےرکھا۔ جاوید اقبال اور سمیع عادلوف نے سال کے چار موسموں کو آٹھ بار مہکایا۔ آصف احمد نے گویا نولکھا ہار پیش کیا، تو ڈاکٹرمحمّدحمزہ خان نے 10گلاب نامے۔ شری مُرلی چندجی کے چودہ طبق روشن ہوئے۔ مائی لارڈر اینڈ آل آف لارڈ، نواب زادہ خادم ملک نے 15قلابازیاں کھائیں۔ پیر جنید علی چشتی نے 19جستیں لگائیں۔ پرنس آف لیٹراسٹیٹ، افضل شاہین نے 20چاہت نامے لکھ کررشتۂ کاغذ قلم کو دوام بخشا، تو کلے کورٹ گیم میں 22بازیاں جیت کر چار قلم کھلاڑی سیمی فائنل تک پہنچے، جوکہ شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، ضیاء الحق قائم خانی، نازلی فیصل اور… بندہ محمّد سلیم راجا فیصل آبادی ہیں۔ مگر سب سے زیادہ یعنی 30عقیدت نامے لکھ کر فائنل ٹرافی وصول کرنے کے حق دار ٹھہرے، بزمِ سخن کے روحِ رواں،شیریں بیاں، رونق افروز برقی۔ کھیڈ مقدراں دی… ہاہاہا! (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج: سلام ہے، آپ کی اس عرق ریزی کو۔

الفاظ کا بہتا جھرنا

تازہ شمارہ حسبِ معمول دنیا کے تمام رنگ لیے مہک رہا تھا، منور مرزا حالات و واقعات کی ڈور تھامےروس، بھارت کے دفاعی معاہدے کی رُوداد سُنا رہے تھے۔ ’’فیچر‘‘ کا پردہ اٹھا، تو ہمایوں ظفر ’’سردیوں کی سوغات،خشک میوہ جات‘‘ کے ساتھ موجود تھے۔ روزمرّہ کی نقشہ کشی میں منور راجپوت کامشورہ ’’گاڑی احتیاط سے چلائیں، ایسی بھی کیا جلدی‘‘ سُننے کو ملا۔ واقعی جان ہے، تو جہان ہے۔ ناول ’’دُھندلے عکس‘‘ تو گویا الفاظ کا بہتا جھرنا ہے۔ ’’کچھ توموسم کےمطابق بھی سنورنا ہے اُسے‘‘ سرِورق کاموسم، سینٹر اسپریڈ تک چھایا دکھائی دیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ سے ذہنی دبائو دُور ہوا، تو بچّوں کی دیکھ بھال کے کچھ نئے نسخے بھی ہاتھ آئے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ واقعتاً ناقابلِ فراموش ہی لگا۔ اور اپنی محفل میں بھی سب ہی معتبر نام، اپنی تحریری خوشبوئوں کےساتھ رونق افروز تھے۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)

منہگائی کا رونا

منور مرزا سے کہیں کہ منہگائی پر تنقید نہ کیا کریں۔ منہگائی پوری دنیا میں ہے۔ رونے دھونے سے کیا ہوگا۔ انسان کو اپنے بل بوتے پر کچھ کرنا چاہیے۔ اور یہ تو ہم 1997ء سے سُن رہے ہیں کہ منہگائی بہت ہے، تو بھئی منہگائی کے مسئلے کا ایک انتہائی آسان حل ہےکہ منہگی چیزیں خریدی ہی نہ جائیں، جب کوئی منہگی چیزیں نہیں خریدے گا، تو وہ آپ ہی آپ سستی ہوجائیں گی۔ ہر کام وزیر اعظم پر چھوڑنے کے بجائے خود بھی ہاتھ پیر ہلانے چاہئیں۔ دنیا ہم سے ہی کچھ سیکھ لے۔ ہم ایک بےروزگار نواب زادے ہیں، لیکن خوش و خرّم زندگی گزار رہے ہیں۔ (نواب زادہ بےکار ملک، سعید آباد، کراچی)

ج:آپ نے تو غالباً منہگائی سے عقدثانی فرمانے کا ارادہ باندھ لیا ہے،لیکن کم از کم باقی دنیا سے تو اس حماقت کی توقع مت رکھیں۔

سب پر سبقت لے گیا

اس بارتو آپ نے کمال کر دکھایا، دل کش میگزین تمام تر دل چسپیوں کے ساتھ پڑھنے کو ملا۔ بیماری کی حالت میں بھی خُوب پڑھا۔ نت نئی تحریریں اچھی لگیں۔ یادیں تو آتی رہیں گی، دل دُکھاتی رہیں گی۔ بہرحال، سنڈے میگزین سب جرائد پر سبقت لے گیا ہے، بلاشبہ محنت رائیگاں نہیں جاتی۔ (سیّد شاہ عالم زمرّد اکبر آبادی، راول پنڈی)

ج:ہم کیا کمال دکھائیں گے، جو کمال آپ اپنے خطوط میں دکھاتے ہیں۔ اچھا خاصا خط لکھتے لکھتےایسےپٹری سےاُترتےہیں(نہ جانےکتنی ہی ناقابلِ اشاعت باتیں ایڈٹ کرنی پڑتی ہیں) کہ جی تو ؒچاہتا ہے 4ٹکڑے کرکے ڈسٹ بن میں ڈال دیں، مگر،پھر آپ کی عُمر کا خیال آجاتا ہے۔

سارا اتوار نچھاور

روزنامہ جنگ میرا پسندیدہ اخبار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر روز صبح ناشتے سے پہلے جب تک ’’جنگ‘‘ کا مطالعہ نہ کرلوں، ناشتے کا مزہ کرکرا ہی رہتا ہے، حالاں کہ بیگم صاحبہ کی بھی جلی کٹی سُننے کو ملتی ہیں۔ مگر مَیں ہنس کر ٹال دیا کرتا ہوں۔ اس لیے کہ اخبار کا مطالعہ میری فطرت میں شامل ہے۔ اب بات کروں سنڈے میگزین کی، تو میری بیٹی کہتی ہے’’ آپ تو سارا اتوار اسی پر نچھاور کردیتے ہیں‘‘۔ اور ساتھ ہی اس کی دلی خواہش اور فرمائش ہےکہ ایک صفحہ بچّوں کےلیےبھی مختص کیا جائے۔ (ایم۔جے ساحل رومانی، غوری ٹائون، اسلام آباد)

ج: بچّوں کے لیے جنگ اخبار کا ایک بڑا رنگین صفحہ موجود ہے۔ بیٹی سے کہیں، اس سے استفادہ کرے اور اخبارکےمطالعے پر اگر بیگم کی جلی کٹی سُننی پڑتی ہیں، تو سُن لیاکریں۔ جب کئی تخریبی کاموں پر سُن لی جاتی ہیں، تو ایک تعمیری کام پر بھی سہی۔

    فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

؎ گفتگو کیجیے کہ فطرتِ انسان ہے شکیب… جالے بن جاتے ہیں، جب بند مکاں ہوتا ہے۔ بے شک ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ پاکستانیوں سے گفتگو کا اِک ذریعہ ہے۔ وگرنہ آج کے اس پُرآشوب دَور میں کون کس کی خبر گیری کرتا ہے اور کسے دوسروں کی پسند و ناپسند کا خیال رہتا ہے۔ اسی اُمید کے ساتھ کہ میگزین کے لیے قارئین کی آراء بہت اہم ہیں، ہم حاضرِ محفل ہیں۔ سالِ نَو ایڈیشن (حصّہ اوّل) کا آغاز ’’حرفِ آغاز‘‘ سے ہوا۔ ایڈیٹر صاحبہ نے 2021ء میں پاکستان کے حالات و واقعات کا اجمالی جائزہ مع دل کش اشعار پیش کیا۔ طلعت عمران نے ’’امّتِ مسلمہ‘‘ کی حالتِ زار پر روشنی ڈالی۔ پڑھ کر افسوس ہوا کہ چند عرب ممالک کی طرح بنگلا دیش نے بھی اسرائیل سے تعلقات استوار کر لیے۔ ’’خارزارِ سیاست‘‘ میں محمّد بلال غوری نے 2021ء میں پاکستان کا سیاسی منظرنامہ پیش کیا، جب کہ سالِ گزشتہ میں’’عدالتِ عظمیٰ‘‘کی کارکردگی پر اویس یوسف زئی نے طائرانہ نگاہ ڈالی۔ عالمی امور کے ماہر، منور مرزا اس بار’’بساطِ عالم‘‘کو کُوزے میں بند کیے موجود تھے۔ نہایت عالمانہ و محقّقانہ اندازمیں دنیا کے سیاسی اتار چڑھائو کا ذکر کیا گیا۔ چاروں صوبائی دارالحکومتوں،وفاقی دارالحکومت اور آزاد کشمیر کے بارے میں مضامین بھی میگزین کی زینت بنے، لیکن گلگت بلتستان شاملِ اشاعت نہ تھا۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ کا سلسلہ ہمیشہ کی طرح بے مثال رہا۔ زندگی کی یہی حقیقت ہے کہ ہر شے کو زوال ہے۔ چاہے وہ کوئی مشہور ترین شخصیت ہو یا دنیا کو اپنے سحر میں گرفتار کرلینے والی کوئی ایپ۔ ہمایوں ظفر نے 2021ء میں بچھڑ جانے والے جواہرِ نایاب کا ٓذکر کیا۔ گفتگو ہو اور ہائیڈ پارک (آپ کا صفحہ) کی بات نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے، تو ’’ہائیڈ پارک‘‘ میں ہر شخص کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیردل کی بات کیےجارہا تھا۔ ہم بھی وہیں موجود تھے۔ سو، اس موقعے سے فائدہ اُٹھایا اور اپنے دل کی باتیں کہہ ڈالیں۔ ہمیں شاید خامیاں، برائیاں کم نظرآتی ہیں،کیوں کہ ہم خود بحیثیتِ انسان کمیوں، خامیوں، برائیوں کامرقّع ہیں۔ آخر میں تمام قارئین کو ’’یومِ پاکستان‘‘ کی مبارک باد کہ یہ خط مارچ ہی میں شایع ہونے کی اُمید ہے۔ (فرّخ جامی، کورنگی، کراچی)

ج:ہم آپ کی اُمید پر پورے نہیں اُترے، مگر اس بات کی ہمیں خوشی ہے کہ بالآخر خطوط کی وصولی سے اشاعت تک کا وقفہ تھوڑا کم کرنے میں کام یاب ہو ہی گئے۔

گوشہ برقی خطوط

* مَیں نے کچھ مضامین آپ کو بھیج رکھے ہیں۔ اگر اشاعت کے لائق ہیں، تو جلد ازجلد شایع کرکے شکریے کا موقع دیں۔ (مدثر اعجاز، لاہور)

ج: آپ کے مضامین تو اکثر و بیش تر شایع ہوتے رہتے ہیں۔ جن مضامین کی آپ نے نشان دہی فرمائی، وہ بھی قابلِ اشاعت ہوں گے، تو باری آنے پر شایع کردیئے جائیں گے۔

*  اُمید ہے،خیریت سے ہوں گی، نئے سال کا شمارہ حسبِ توقع شان دار تھا، دیکھ کر دل خُوش ہوگیا، بخوبی اندازہ ہورہا تھا کہ اسٹاف کی اور آپ کی دن رات کی محنت کا نچوڑ ہے۔ خاص طور پر منور راجپوت کو بہت سراہنا چاہوں گی، جس طرح انہوں نے ’’کِلکس‘‘ کےصفحات مرتّب کیے اور ’’سندھ‘‘ کا پورے سال کا منظرنامہ ایک دَم آنکھوں کے سامنے رکھ دیا، کمال تھا۔ محمّد ہمایوں ظفر نے ’’جوہم میں نہ رہے‘‘ میں کئی قابلِ قدر ہستیوں کی یاد تازہ کرکے آنکھیں نم کروا دیں اور، ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے سالانہ جائزے کا توسال بھر انتظار رہتا ہے۔ ویسےاس میں سال بھر ’’گوشہ برقی خطوط‘‘ کو رونق بخشنے والوں کا بھی تذکرہ ہونا چاہیے۔ (قرأت نقوی،ٹیکساس، یوایس اے)

ج: بات تو آپ کی سوفی صد درست ہے، بالکل تذکرہ ہوناچاہیے۔ اِن شاءاللہ تعالیٰ بشرطِ زندگی اگلے سال خیال رکھیں گے۔

* میگزین لاجواب ہے۔ بس ایک کمی محسوس ہوتی ہے۔ تاریخِ اسلامی کا تذکرہ بھی کسی نہ کسی طور ہونا چاہیے۔ (احسن مجید)

ج: کوئی باقاعدہ سلسلہ نہ سہی، لیکن کسی نہ کسی طور تو ہو ہی جاتا ہے۔ کبھی ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے تحت، تو کبھی کسی اور مضمون کی شکل میں۔

* کیا آپ کو ہمارا آنا کچھ خاص بھایا نہیں تھا، جو اب تک پہلی ای میل بھی شایع نہیں کی۔ لیکن خیر، ہمیں بھی کچھ خاص پروا نہیں کہ زمانے میں اور بھی غم ہیں، ای میل کی اشاعت کے سوا… (ادیبہ چدھڑ، حافظ آباد)

ج: تو پھر یہ شکایتی ای میل کیوں کی؟

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk