• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تجسس انسان کا وہ خاصا ہے جس نے بقول اقبال ٹھٹکتے سہمے تاروں کے جھرمٹ میں مٹی سے بنے آدم خاکی کو مہ کامل (چودھویں کا چاند) بنا کر عروج پر پہنچا دیا۔ چاند تک انسانی پہنچ، تسخیر کائنات کی طرف پہلا قدم ثابت ہوا جبکہ مزید سفر و کامرانیاں جاری ہیں۔ انسانی تہذیب کے ارتقا کا ہر سنگ میل ثابت کرتا ہے کہ اس کی کرشماتی طرز کی تیز تر ترقی انسانی خاصے تجسس در تجسس کی مرہون منت ہے۔ غور اور سوال، تجسس کے محرک ہیں جو اسے کھوج و تحقیق میں تبدیل کردیتے ہیں۔ جس سے علم اور علم سے انسانی زندگی کے لئے بہت کچھ اچھا نکلتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ انسان اپنی منفی جبلت سے کھوج سے بھی کچھ برا نکال لے، جیسے کیمیائی ہتھیار۔ آسمانی صحیفوں کی مقدس و معتبر ہدایت اور اس پر چل کر انبیاء کرام کی زندگی کے عملی مظاہروں سے حاصل حق و سچ کے اسباق کامل تو لامتناہی ذریعہ فضل و کرم و رحمت ربی اور ہمارا ایمان ہیں۔ ان ہی سے جلا پا کر انسان نے بھی اپنے تجسس اور سوالوں سے حاصل طاقت سے انفرادی، گروہی اور ریاستی زندگی و عالمی معاشرے کو سنبھالنے سنوارنے میں کوئی کم کامیابیاں حاصل نہیں کیں۔ قانون، قاعدہ، قانون و دستور انسانی ارتقائی زندگی کا ایسا حاصل ہیں جنہوں نے آدم خاکی کو انسان بنانے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔ مہذب و مستحکم، خوشحال معاشرے آئین و قانون کی حکمرانی کی عمل داری اور بالادستی سے ہی تشکیل پائے۔

آئین و قانون کی اہمیت کے اس نظری پس منظر پر غور اور سوال کرنے، تجسس میں مبتلا رہنے، اسے کھوج میں بدلنے سے ہم وہ کچھ حاصل کرسکتے ہیں جو اَن ہونا لگتا ہے لیکن ہو جاتا ہے جیسے حصول پاکستان۔آج پاکستان 75 سال کا ہے۔ 24 ہی سال میںاس کا دولخت ہونا، پھر متفقہ دستور کے بعد بھی دو طویل ڈکٹیٹر شپ کی اسیری میں آنے اور ہر سول منتخب دور کی سنگین آئینی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہونے کی تاریخ کے تجزیے، سوال اور تحقیق ہم پر عیاں کر چکے ہیں اور کئے جا رہے ہیں کہ ہم بحیثیت قوم آئین 1973 ءکی روح کے باغی ہیں۔ ایسے کہ آج پاکستان کی قومی سیاست کا بڑا دھڑا جمہوری سیاست کا مقلد ہونے کی بجائے دو بڑے اور کچھ ان سے کم حجم کے خاندانوں میں مرتکز اقتدار و اختیار کا اسیر ہے، جبکہ دوسرا جو اس کے ردعمل میں تبدیلی اور حقیقی جمہوریت کے دعوے پر بمشکل حکومت بنانے میں کامیاب ہوا، پھر اس نومولود تیسری سیاسی پارلیمانی طاقت کے اپنے جملہ سیاسی امراض بھی ملک میں مطلوب جمہوری عمل بمطابق آئینی روح، صحت مند سیاسی عمل شروع کرنے میں رکاوٹ بن گئے۔ 2008 ءسے شروع ہونے والے بحالی جمہوریت کے عشرے میں ن لیگ اور پی پی کے دعوئوں اور چارٹر آف ڈیموکریسی کے باوجود جو غیر آئینی دھماچوکڑی مچی اور کرپشن کا بازار گرم ہوا اس کے رسپانس میں پاکستان کو بحرانوں اور خاندانی اجارے کے سول اقتدار سے نکالنے کے لئے مکمل شعوری کوشش سے ’’آئین نو‘‘ کا کالمی بیانیہ ’’آئین کا مکمل اور تمام شہریوں پر قانون کا یکساں اطلاق‘‘ متعارف کرا کر اس کی تکرار کی گئی۔ مولانا فضل الرحمٰن کی انتخابی شکست جو اسٹیٹس کو کی ابتدائی تبدیلی کے طور پر ہوئی، سے اسٹیٹس کو کی قوت نے ردعمل میں پلٹا کھایا، یہ عودکر باہر نکل آئے اور پی ڈی ایم، روایتی گٹھ جوڑ کےنتیجے میں تشکیل پایا۔ معاملہ اپوزیشن کے ’’الیکشن میں دھاندلی‘‘ اور ’’ناجائز بنی حکومت‘‘ کے روایتی الزام تک نہیں رہا، بلکہ اناڑی حکومت کی چند بڑی کمزوریوں کے ساتھ نہ صرف یہ کہ اس کے مثبت پہلو بھی رنگ نہ دکھا سکے، بلکہ گورننس پراسٹیٹس کو کے سائے تبدیلی حکومت پر پڑنے لگے، اور مولانا کی حصۂ اقتدار یاپارلیمان نہ بننے کی بے چینی اچھی بھلی بڑی اپوزیشن پارٹیوں میں مولانا صاحب سے بھی زیادہ منتقل ہوگئی۔ اتنی کہ ن لیگ تو ’’لائحہ عمل‘‘ کے حوالے سے منقسم ہوگئی۔ اس پس منظر میں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے جو آئینی بحران پیدا ہوا، اس نے جلتی پر تیل کی مانند بیرونی سازش کے حوالے سے جو پرخطر شکل اختیار کی اس میں اسلام آباد میں حکومت اور پی ڈی ایم کی اپنی اپنی جارح سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے جو تشویشناک شکل اختیار کی اسلام آباد میں دنگا فساد ہونے اور اس کے ملک پر ایسے ہی منفی اثرات مرتب ہونے کے جو خطرات امڈے وہ ٹل گئے۔ جس طرح کا سیاسی چھانگا مانگا برسوں بعد ’’سندھ ہائوس‘‘ میں لگا، اس کی جس طرح مذمت اور قانونی و آئینی وکالت ہوئی اس سے جو تشویشناک ماحول بنا اس نے پاکستان اور بیرون ملک 22کروڑ پاکستانیوں کو تشویش و تجسس کی عجب اور تکلیف دہ کیفیت میں مبتلا کردیا۔ الحمد للہ، ایوان سے باہر او رایوان میں تحریک پر ووٹنگ کا ایجنڈکھلنے سے پہلے وہ کچھ نہ ہوا جس کے خدشات خود حکومتی جماعت اور پی ڈی ایم کی جماعتوں نے پیدا کئے۔ پی ڈی ایم کو اسپیکر پر بھی عدم اعتماد کی درخواست سے انہیں اٹھا کرڈپٹی اسپیکر سے اجلاس کی کارروائی کروانے میں کامیابی حاصل تو ہوئی لیکن ان (ڈپٹی اسپیکر)کی آرٹیکل 5 کے حوالے سے جو فوری رولنگ آگئی اس نے پی ڈی ایم کے امیدوار میاں شہباز شریف کے وزیر اعظم، (لیڈنگ ٹو) بیٹے کے پنجاب کا وزیرا علیٰ بننے کا خواب چکنا چور کر کے انہیں مایوسی میں غرق کردیا۔ لیکن قابل تعریف یہ ہے کہ کوئی اور غیر آئینی راہ اختیار کرنے کی بجائے اپوزیشن نے فوری طور پر اپنی مایوسی کو ’’قانونی جنگ‘‘ میں تبدیل کردیا۔ گزشتہ روز رات گئے تمام ٹی وی سکرینوں پر بحران کے ابلاغ کا تمام تر رخ آئین و قانون کی تشریح کی طرف مڑ گیا اور عدلیہ نے اپنی آئینی ذمہ داری کے مطابق خود نوٹس لیتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کیخلاف اپوزیشن کے شدید تحفظات اور اسے غیر آئینی قرار دینے کے مطالبے پر سماعت شروع کردی۔ عمران خان نے جس طرح آرٹیکل 5 کا پوشیدہ کارڈ استعمال کرکے اپنا اعلیٰ منصب اور حکومت ختم کرکے سارے بحران کا رخ آئین و قانون، عدلیہ، الیکشن کی طرف موڑ دیا ہے، اس نے ثابت کیا کہ وہ واقعی اسٹیٹس کو کے نہیں تبدیلی کے قائد ہیں۔

تازہ ترین