• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہیمو فیلیا: شدید متاثرہ مریض ہی معالجین سے رجوع کرتے ہیں

ورلڈ فیڈریشن آف ہیموفیلیا کے زیرِاہتمام دُنیا بَھر میں ہر سال17اپریل کو ’’ہیموفیلیا کا عالمی یوم‘‘ منایا جاتا ہے،تاکہ اس موروثی اور جینیاتی بیماری سے متعلق معلومات عام کی جاسکیں۔ رواں برس کے لیے جس تھیم کا اجراء کیا گیا ہے، وہ"Access for All: Partnership. Policy. Progress. Engaging your government, integrating inherited bleeding disorders into national policy"ہے۔ یہ تھیم منتخب کرنے کا بنیادی مقصد مریضوں، ان کے اہلِ خانہ، رضاکاروں اور معالجین کو آگاہی مہم میں شامل کرکے متاثرین اور مشتبہ افراد کی مناسب دیکھ بھال تک رسائی یقینی بنانا ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق پوری دُنیا میں ہیموفیلیا کے تقریباً چار لاکھ مریض موجود ہیں، لیکن تشویش ناک امر یہ ہے کہ ان میں سے متعدّد میں مرض تشخیص نہیں ہوپاتا، وہ ناکافی علاج کروا رہے ہوتے ہیں یا پھر انہیں علاج کی سہولتیں سِرے سے دستیاب ہی نہیں۔ پاکستان کا ذکر کریں تو یہ صُورتِ حال الم ناک ہے کہ مُلک بھر میں سرکاری طور پر رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے متاثرہ بچّوں کی درست تعداد کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت 15سے 20 ہزار بچّے اس مرض کا شکار ہیں، جن میں سے تین ہزارکا تعلق صرف کراچی سے ہے۔اس مرض کےلاحق ہونے کےاسباب، اقسام،علامات، تشخیص اور مؤثرعلاج سے متعلق ایک مضمون پیشِ خدمت ہے۔

٭ہیمو فیلیا کیا ہے؟ ہیموفیلیا ایک موروثی،جینیاتی مرض ہے، جسے عرفِ عام میں خون بہنے کی بیماری کہاجاتا ہے۔ اس مرض میں جسم میں موجود خون جمانے والے ذرّات میں، وہ خاص پروٹین جو جگر میں بنتے ہیں، اس حد تک کمی واقع ہوجاتی ہے کہ اگر کوئی چوٹ یا زخم لگ جائے، تو خون رُکنے یا جمنے میں خاصا وقت لگتا ہے،جو بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ 

اگر مرض شدّت اختیار کرلے، تو کسی حادثے کے بغیر بھی مریض کے جسم سے خون خارج ہو سکتا ہے ۔ خون سُرخ و سفید خلیات، پلیٹ لیٹس اور پلازما پر مشتمل ہوتا ہے۔ پلازما میں خون جمانے والےفیکٹرز پائے جاتے ہیں، جن کا کام چوٹ لگنے کی صُورت میں خون بہنے کا عمل روکنا ہے۔ جب کسی عام صحت مند فرد کو چوٹ لگتی ہے، تو قدرتی طور پر ایک خاص وقت تک خون بہنے کے بعد اس پر خودبخود ایک جھلّی سی بن جاتی ہے۔ 

یہ عمل خون جمانے والے فیکٹرز انجام دیتے ہیں ،جب کہ جھلّی خون روکنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یہ جھلّی طبّی اصطلاح میں کلاٹ کہلاتی ہے۔ اگر جھلّی بنانے والے پروٹین یعنی فیکٹرکی جین متاثر ہو جائے، تو پروٹین بننے کا عمل بھی رُک جاتا ہے،جس کے نتیجے میں خون جمنے کا عمل غیر مؤثر ہوکرہیموفیلیا کا سبب بنتاہے۔ یہ ایک موروثی مرض بھی ہے، جو والدین سے بچّوں میں منتقل ہو سکتاہے۔

٭ہیمو فیلیا کی اقسام: ہیمو فیلیاتین بنیادی اقسام میںمنقسم ہے،جوہیموفیلیا اے، بی اور ریئرفیکٹر ڈیفیشنسیز (Rare Factor Deficiencies)سے موسوم ہیں۔ان تینوںمیں سب سے عام ہیموفیلیا اےہے۔ واضح رہے،خون رُکنے یا جمنے کے عمل میں 12 کلاٹنگ فیکٹرز (خون جمانے والے عناصر) حصّہ لیتے ہیں۔ اگر ان فیکٹرز میں سے کوئی ایک بھی کم ہوجائے، تو خون جمنے کا عمل متاثر ہو جاتا ہے۔اس اعتبار سے ہیموفیلیا اے میں فیکٹر8، ہیموفیلیا بی میں فیکٹر 9، جب کہ ریئرفیکٹر ڈیفیشنسی میں ایک تا بارہ مختلف فیکٹرزکی کمی واقع ہوجاتی ہے۔

٭مرض کی درجہ بندی: عمومی طو پر ایک صحت مند فرد میں کلاٹنگ فیکٹرز کی نارمل مقدار 50 تا 200 انٹرنیشنل یونٹ ہوتی ہے اور اس مقدار کی کمی بیشی ہی مرض کا تعین کرتی ہے۔ ہیمو فیلیا کی شدّت کے اعتبار سے درجہ بندی کی گئی ہے، جس کے مطابق پہلا درجہ مائلڈ ہیموفیلیا (Mild Hemophillia) ہے۔ اس میں کلاٹنگ فیکٹرز کی تعداد5فی صد سے زائد پائی جاتی ہے۔ معتدل ہیموفیلیا (Moderate Hemophillia) میں فیکٹرز کی تعداد ایک سے 5فی صد اورشدید ہیموفیلیا (Severe Hemophillia)میں کلاٹنگ فیکٹرز کی مقدار ایک فی صد سے بھی کم پائی جاتی ہے۔

٭ علامات : ہیموفیلیا کی علامات مختلف ہوتی ہیں، جو کلاٹنگ فیکٹرز کے لیول پر انحصار کرتی ہیں۔ تاہم، ممکنہ علامات میں کسی بھی قسم کی سرجری یادانت نکلوانے کے بعد خون کا رساؤ، ناک سے مسلسل خون بہنا، پیشاب میں خون کا اخراج، مسوڑھوں سے خون رِسنا، جسم پر نیلے دھبّے پڑنا، جوڑوں میں درد اور سوجن وغیرہ شامل ہیں۔

٭تشخیص: عمومی طور پر ابتدائی تشخیص اُسی وقت ہوجاتی ہے، جب پیدایش کے وقت نومولود کی ناف کاٹنے یا ختنے کے بعد خون کافی دیر تک بہتا رہتا ہے۔ تاہم، مرض کی تشخیص کے لیے خون کے نمونے میں کلاٹنگ فیکٹر 8 اور 9 کی مقدار معلوم کی جاتی ہے،جس کے بعد ہی ہیموفیلیا کی قسم اور شدّت کا تعیّن کیا جاتا ہے، جو صرف ایک ماہرہیمو ٹولوجسٹ ہی کرسکتا ہے۔ 

مشاہدے میں ہے کہ زیادہ تر شدید ہیموفیلیا سے متاثرہ مریض ہی ہیموٹولوجسٹس سے رجوع کرتے ہیں،کیوں کہ موڈریٹ اور مائلڈ ہیموفیلیک افراد کو علاج کی ضرورت تب پیش آتی ہے، جب ان کی کوئی سرجری ہو، کوئی حادثہ پیش آجائے یا پھر چوٹ وغیرہ لگ جائے۔ مائلڈ اور موڈریٹ ہیموفیلیا سے متاثرہ مریضوں کی زندگی قدرے بہتر ہوتی ہے۔

٭مرض کی منتقلی کے ذرایع: ہیمو فیلیا اے فیکٹر8 اور ہیمو فیلیابی فیکٹر9 کی کمی کے باعث اورماں کے ذریعے بیٹوں/لڑکوں میں منتقل ہوتا ہے۔دراصل اس مرض کی جین، ایکس کروموسوم میں پائی جاتی ہے اور بیٹا /لڑکاماں سے ایکس کروموسومز لیتا ہے،جب کہ دیگر فیکٹرز یعنی فیکٹر 1سے 13اور Von Willebrand ماں اور باپ دونوں میں موجود ڈی فیکٹڈجینز کے ذریعے بچّے میں منتقل ہوجاتا ہے ۔ اگر والدین میں سے کسی ایک میں یہ ڈی فیکٹڈ جینز موجود نہ ہو ،تو بچّہ محفوظ رہتا ہے اور یہ بیماری ظاہرنہیں ہوتی۔

٭ہیمو فیلیا کا علاج ممکن ہے؟ بدقسمتی سے اس مرض کا تاحال ایسا کوئی مستقل علاج دریافت نہیں ہوسکا، جس کے ذریعے ہیموفیلک افراد مرض سے مکمل طور پر نجات حاصل کرسکیں یا پھر مرض میں مبتلا والدین کا علاج کرنے سے شکمِ مادر میں پلنے والے بچّے کو مرض کی منتقلی سے محفوظ رکھا جاسکے۔ تاہم، دُنیا بھَر میں ہیمو فیلیا کے مریضوں کو اڑتالیس گھنٹے کے وقفےسے تین بار فیکٹر8یا9 بذریعہ انجیکشن لگایا جاتا ہے۔ یہ وہ فیکٹرز ہیں، جو مریض کے خون میں قدرتی طور پر نہیں پائےجاتے۔ 

چوں کہ یہ انجیکشنزبہت منہگے ہیں اور پاکستان میں بھی دستیاب نہیں ،تو مریضوں کوفریش فروزن پلازما یا منجمد پلازما دیا جاتا ہے۔ اگرچہ ایف ایف پی کا طریقۂ علاج مؤثر ہے ،لیکن اس بات کا اندیشہ ہی رہتا ہےکہ خون اور پلازما محفوظ بھی ہیں یانہیں ،کیوں کہ محفوظ نہ ہونے کی صورت میں ہیمو فیلیا کے مریض ہیپاٹائٹس بی ،سی اور ایچ آئی وی سے متاثر ہو سکتے ہیں۔اس کے علاوہ پاکستان میں ہیمو فیلیا جیسی ایک اور موروثی بیماری Von Willebrand Disease بھی عام ہے ،اُس میں بھی خون جمنے کا عمل متاثر ہوجاتا ہے،مگرافسوس کہ ہمارے یہاںاس مرض کے تشخیصی ٹیسٹ کی سہولت دستیاب نہ ہونے کے سبب اس بیماری کے شکارمریضوں کا علاج ہیموفیلک افراد ہی کی طرح کیا جاتا ہے۔

٭ہیمو فیلیا کے اثرات: دیگر امراض کی طرح یہ مرض بھی کچھ پرنفسیاتی اثرات مرتّب کرتا ہے، نتیجتاً مریض ڈیپریشن یا پھر او سی ڈی (Obsessive-Compulsive Disorder) میں، جس میں کوئی بھی کام بار بار دہرایا جاتا ہے، مبتلا ہوجاتا ہے۔

نیز، احساس کم تری بھی جنم لے سکتی ہے،جس کے نتیجے میں ادویہ پر انحصار بڑھ جاتا ہے۔ دُنیا بَھر کے دیگر مُمالک کی نسبت پاکستان میں ہیموفیلیک مریضوں کو متعدّد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ قومی سطح پر علاج کے ضمن میں مریضوں کو کسی قسم کی سہولت فراہم نہیں کی گئی، لہٰذا مرض کی روک تھام کے لیے حکومت کی جانب سے ترجیحی بنیادوں پر مریضوں کو مطلوبہ فیکٹر زمہیا کرنے کے ٹھوس قدامات ناگزیر ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مرض سے متعلق زیادہ سے زیادہ آگاہی فراہم کی جائے، تاکہ والدین اپنے بچّوں کا بہترسے بہتر علاج کروا سکیں۔ 

پھر مُلک بَھر میں یک ساں طور پر محفوظ خون کی فراہمی(جو ہیپاٹائٹس بی،ایچ آئی وی ، ایڈز، Syphilis اور ملیریا جیسی مُہلک بیماریوں سے پاک ہو)یقینی بنائی جائے، چھوٹے چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہات وغیرہ میں بھی ہیموٹولوجی سینٹرز کا قیام عمل میں لایا جائے۔ نیز، ہیمو فیلک افراد کا خاص خیال رکھیں۔ انہیں چوٹ لگنے سے بچائیں اور خون نہ رُکنے کی صُورت میں فوری طور پر معالج سے رجوع کریں۔ (مضمون نگار، معروف ہیموٹولوجسٹ ہیں اور چلڈرن اسپتال، کراچی میں بطور چیف ایگزیکیٹو خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے سینئر ممبر بھی ہیں)

سنڈے میگزین سے مزید