• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی سیاسی کشمکش آخری مرحلے تک پہنچ چکی تھی اور وزیراعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کی جا چکی تھی۔ پی ٹی آئی کی اتحادی (ق)لیگ آدھی وزیراعظم کے ساتھ اور آدھی پی ڈی ایم کے ساتھ مل چکی تھی اور ایم کیو ایم نے بھی حکومت کا ساتھ چھوڑ دیا تھا، ساتھ ہی ساتھ پی ٹی آئی کے 24ایم این ایز نے الگ گروپ بنا لیا تھا۔ ایسے میں وزیراعظم نے اپنی ہار کو دیکھتے ہوئے 27مارچ کے جلسے میں ایک خط لہرایا کہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف سارش کی جا رہی ہے جس کے پس منظر میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اتنا بڑا قدم اٹھایا کہ عدم اعتماد کی تحریک پر گنتی کرانے کی بجائے اُسے سرے سے ہی مسترد کر دیا۔ پھر کیا تھا پی ڈی ایم نے اسمبلی ہال میں دھرنا دیا اور اسی دوران ایاز صادق کواپنا اسپیکر بنا کر قومی اسمبلی میں اپنی عددی برتری ثابت کر دی جس کو دیکھتے ہوئے چند منٹ بعد وزیراعظم نے صدر کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس بھیج دی اور صدر پاکستان عارف علوی صاحب نے بھی دیر نہیں لگائی اور اسمبلی توڑ دی۔ ایسے وقت میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے از خود نوٹس لیا، ساتھ میں پی ڈی ایم نے بھی اس کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ دائر کر دی۔ 4دن کی مسلسل بحث کے بعد سپریم کورٹ نے تاریخی متفقہ فیصلہ دے دیا اور ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دے دیا اور قومی اسمبلی کو بحال کردیا اور وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد پر ہفتے کو ووٹنگ کرانے کا حکم دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اسپیکر 9اپریل کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کریں اور اسمبلی کے قواعد و ضوابط اور آرٹیکل 95کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے۔ اسپیکر 54(3)کے تحت اسمبلی کے اجلاس کو ملتوی نہیں کریں گے اور صرف اسی صورت میں اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر سکتے ہیں اگر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرار داد پاس نہیں ہوتی اور اگر تحریک عدم اعتماد منظور ہو جاتی ہے تو فوری طور پرنئے وزیراعظم کا آرٹیکل 91کے تحت انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔

ایک طرف ملک میں سیاسی بحران جاری ہے تو دوسری طرف غداری کے لفظ نے ہمارے سیاسی منظر نامے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ایک ایسا الزام جسے کسی پر لگاتے ہوئے سو بار سوچنا چاہیے، اتنے سہل انداز سے لگایا جا رہا ہے کہ سیاسی میدان اسی لفظ ’’غداری‘‘ کا اکھاڑہ بن کر رہ گیا ہے۔ سیاست میں چور، لٹیرے، ڈاکو، رسہ گیر اور نجانے کیا کیا کہنے کی روایت تو تھی ہی لیکن اب وہ تمام الفاظ گویا متروک ہو گئے ہیں اور اُن کی جگہ ایک دوسرے کو غدار کہنے کی رسمِ بد چل نکلی ہے۔ اخبارات کے صفحات سیاسی رہنماؤں کے بیانات سے بھرے پڑے ہیں، جن میں وہ غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹتے نظر آتے ہیں۔ یہ صورت حال کسی بھی طرح قابلِ قبول قرار نہیں دی جا سکتی۔ ایسی روایات قائم کر کے ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ کیا کسی دوسرے جمہوری ملک میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک دوسرے پر سب سے سنگین الزام اس طرح لگایا جائے کہ اِس کے حق میںثبوت یا دلیل بھی نہ ہو۔ یہ سیاسی بحران سے بھی بڑا بحران ہے کہ ہم متانت، شائستگی، روا داری اور تحمل و برداشت کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو غیر محب وطن ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس سارے عمل کی ابتدا ایک متنازعہ خط سے ہوئی،جس میں وزیراعظم عمران خان نے ایک غیرملکی سازش کی بُو سونگھی جو اُن کے بقول حکومت کو ختم کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں سے مل کر تیار کی گئی۔ اس خط کو پہلے ایک جلسے میں لہرایا گیا پھر قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں رکھا گیا۔ قومی سلامتی کمیٹی نے اس میں غداری کا عنصر تلاش نہیں کیا، نہ ہی اُس کی کوئی مستند رپورٹ سامنے آئی ہے۔ تاہم تحریک انصاف نے یہ بیانیہ بنا لیا کہ اس میں متحدہ اپوزیشن کا ہاتھ ہے اور یہ ملک سے غداری ہے۔ اس میں شدت اُس وقت آئی جب قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کی بجائے ڈپٹی اسپیکر نے اس خط کا سہارا لے کر قرارداد کو مسترد کر دیا اور اجلاس برخاست کرنے کا اعلان کیا۔ اُس وقت اپوزیشن کے ساتھ 199اراکین موجود تھے، جن پر لیبل لگ گیا کہ وہ اس غیر ملکی سازش کے آلہ کار ہیں۔ اب کل وزیراعظم عمران خان نے گورنر ہاؤس لاہور میں خطاب کرتے ہوئے ببانگ ِ دہل کہا ہے کہ آئندہ انتخابات میں عوام غداروں کو مسترد کر دیں گے۔ اُدھر جواب میں اپوزیشن نے بھی وزیراعظم عمران خان کو غدار کہنا شروع کر دیا ہے، جو آئین شکنی کی وجہ سے غداری کے مرتکب ہوئے۔ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ سیاسی اختلاف رائے یا مخالفت کی بنا پر ایک دوسرے پر غداری کے فتوے لگائے جا رہے ہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ آنے والے انتخابات میں ساری مہم ایک دوسرے کو غدار ثابت کرنے پر مبنی ہو گی۔ بہتر تو یہی ہو گا کہ غدار کہنے کی رسمِ بد کو تمام سیاسی جماعتیں ممنوع قرار دیں۔ سیاست میں نفرتیں اتنی نہ بڑھائیں کہ پورا معاشرہ شدید پولرائزیشن کا شکار ہو جائے۔

سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر ایک ضابطہ اخلاق بنانا چاہیے،جس میں سرفہرست یہ نکتہ ہو کہ کسی کو غدار نہیں کہا جائے گا، کسی کی حب الوطنی پر انگلیاں نہیں اٹھائی جائیں گی، غدار، غدار کہنے کی یہ ناشائستہ اور نامناسب بلکہ غلیظ روایت اب ختم ہونی چاہیے۔ اس کی بنیاد پر عوام کے جذبات کو مشتعل کرنا ایک ایسا عمل ہے جس کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کرنا ضروری ہے۔

تازہ ترین