• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم عمران خان نے چند روز قبلعوام سے خطاب کرتے ہوئے ایک خط لہرایا اور دعویٰ کیا کہ ایک طاقتور ملک انکی حکومت کیخلاف سازش کر رہا ہے اور اس سازش میں اپوزیشن کے چند سیاست دان بھی شریک ہیں جو بیرونی سفارتکاروں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں ۔ ملک کے اہم ترین عہدے پر فائز شخص کے اس الزام سے ملک میں تہلکہ مچ گیا اور لوگ حقیقت جاننے کیلئے بیتاب ہو گئے پھر چند روز بعد بتایا گیا کہ وہ خط درحقیقت امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر کی الوداعی دعوت میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک آفیشل کی گفتگو کو بنیاد بنا کر وزارت خارجہ کو بھیجا جانے و الا مراسلہ تھا جس میں امریکی انڈر سیکرٹری آف اسٹیٹ نے پاکستانی وزیراعظم کے دورہ روس کی ٹائمنگ پر اعتراض کرتے ہوئے وزیر اعظم کیخلاف آنے والی تحریک عدم اعتماد کا ذکر کیا اور اپنی رائے پیش کی کہ آئندہ آنے والے وزیر اعظم کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کیے جا سکتے ہیں ۔

قیام پاکستان کے بعد کئی دہائیوں تک امریکہ کا جھکائو پاکستان کی طرف رہا جبکہ بھارت سوویت یونین کے کیمپ میں تھا اور کمیونسٹ چین بھی علاقائی سیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے ہندوستان کی مخالفت میں پاکستان کے قریب رہا ۔آنے والے برسوں میں معاشی اور دفاعی ضروریات کیلئے پاکستان کا انحصار امریکہ پر رہا جبکہ بھارت نے غیر جانبداری کا ڈھونگ رچا کر دنیا کی دو بڑی سپر طاقتوں امریکہ اور روس سے قریبی تعلقات استوار کرلئے ۔سوویت یونین کے ٹوٹنے اور سرد جنگ کے خاتمے کےبعد بھارت نے انتہائی چالاکی سے امریکہ کی قربت حاصل کر لی اور پاکستان تمام تر قربانیوں کے باوجود امریکہ سے بتدریج دور ہوتا چلا گیا ہم سمجھتے رہے امریکہ ہمارا احسان مند ہوگا جبکہ امریکہ کا خیال تھا کہ وہ ہمیں ہماری خدمات کا معاوضہ دے چکا ہے۔ پاکستان کا ہنی مون پیریڈ ختم ہوا تو ہمارے اوپر معاشی اور فوجی پابندیاں لگ گئیں اور بیرونی امداد پر پلنے والی قوم اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے بجائے اپنے سابقہ دوستوں کو مورد الزام ٹھہرانے لگی۔پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات اور افغانستان میں طویل جنگ کے بعد امریکی افواج کی پسپائی میں مبینہ پاکستانی مدد کے باوجود امریکہ اور یورپ نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کورونا سے تباہ شدہ معیشت کو سہارا دیا نتیجے کے طور پر ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑی ہو گئی اور ہماری مغربی ممالک کو ایکسپورٹ ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی، ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی سالانہ ایکسپورٹ چوبیس بلین ڈالر ہے جو تقریباً ساری امریکہ اور یورپ کے ساتھ ہے ۔

اوورسیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور یورپ میں مستقل رہائش پذیر ہے جبکہ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات میں لاکھوں پاکستانی محنت مزدوری اور کاروبار کر رہے ہیں وہ ممالک بھی امریکہ کے ساتھ بہترین تعلقات استوار کئے ہوئے ہیں اور اب اسرائیل کےساتھ رابطے بڑھا رہے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان نے بالکل ٹھیک کہا اگر نوے لاکھ اوورسیز پاکستانی زرمبادلہ نہ بھیجیں تو ملک کا دیوالیہ نکل جائے اور عمران خان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اگر دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ اور اس کے زیر اثر ممالک پاکستان سے امپورٹ اور زرمبادلہ بھیجنے پر پابندیاں عائد کر دیں تو ہمارا دیوالیہ نکلنے میں کتنی دیر لگے گی ۔ چین ہمارا اچھے برے تمام وقتوں کا ساتھی ہے جو سی پیک اور ڈیفنس سمیت تقریباً تمام شعبوں میں ہماری مدد کر رہا ہے اسی طرح روس میں موجود تیل و گیس کے وسیع ذخائر ہماری توانائی کی ضروریات کے تناظر میں اہمیت رکھتے ہیں مگر عالمی سفارتکاری میں جذبات نہیں سوجھ بوجھ اور تدبر سے کام لینا چاہئے، سب کو ساتھ لیکر چلنا چاہئے اور کسی بھی ملک پر الزامات عائد کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔وقتی مفادات یا مقبولیت حاصل کرنے کیلئے کسی بھی ملک کیخلاف گفتگو کرنا کسی طور بھی ملکی مفاد میں نہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی معیشت کو مضبوط کریں، وسائل میں اضافہ کریں اور غیر جانبدارانہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے دنیا کے ممالک پر اپنا احسان جتانے کے ساتھ ان کے احسان بھی یاد رکھیں ۔

(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین