• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذرائع ابلاغ کی ترقی نے معاشرے پر مثبت اور منفی دونوں طرح کے اثرات مرتب کیے۔کسی دانا کا قول ہے کہ بعض اوقات لا علمی بھی نعمت ہوتی ہے۔معلومات کی فوری دستیابی نے جہاں بہت سی آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں بہت سے مسائل کو بھی جنم دیا۔ اخبار خبر کا مستند اور سنجیدہ ترین ذریعہ سمجھے جاتے اور آج تک سمجھے جاتے ہیں،یہ الگ بات کہ اخبار بینوں کی اکثریت اب اخبار ات موبائل یا لیپ ٹاپ پر دیکھ رہی ہوتی ہے۔ نجی نشریاتی اداروں کی آمد نے سرکاری ٹی وی کی بلاشرکتِ غیرے اجارہ داری کو ختم کر کے رکھ دیا ہے اور متوازن رائے عامہ کی تعمیر میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ غیر جانبدار رپورٹنگ کے باعث نجی نشریاتی ادارے سرکاری ٹی وی سے زیادہ قابلِ بھروسہ سمجھے جانے لگے یہاں تک کہ گویا سرکاری ادارے کو ریس سے ہی باہر کر دیا۔ نجی نشریاتی اداروں پر خبروں کے ساتھ ساتھ رائے عامہ کی تشکیل کے لیے ہونے والے مختلف مذاکراتی پروگراموں نے عوامی شعور کی بیداری میں اہم کر دار ادا کیا۔

اسی دوران سوشل میڈیا کا اثر و رسوخ بڑھنا شروع ہوا اور خبر اور تجزیے کی موت کا سامان ہوا۔ سوشل میڈیا کو یہ راہ نشریاتی اداروں کی ’’بریکنگ نیوز ریس ‘‘نے دکھائی۔ خبر خواہشات کے ملبے تلے دبتی چلی گئی۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت ملک کے انتہائی حساس معاملات تک پر ہر شخص خواہ وہ اس قابل ہے یا نہیں، رائے زنی کرنا اپنا بنیادی آئینی حق سمجھتا ہے۔ اظہارِ رائے کی آزادی دیگر ممالک میں بھی ہوتی ہے لیکن پھر بھی ریاست کے مفاد کے خلاف بات کوازخود اخلاقی برائی سمجھا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی جنگ لگی رہتی ہے۔ اب اکثر جنگیں ٹویٹر ٹرینڈز پر لڑی جارہی ہیں۔ جائز کو ناجائز اور ناجائز کو جائز دکھانے کے لیے ایڈیٹنگ اس مہارت سے کی جاتی ہے کہ صائب الرائے اشخاص بھی دھوکہ کھاجائیں۔ مجموعی قومی اخلاقیات کی گراوٹ خبر اور تجزیے میں بھی جھلکنے لگی ہے۔ٹی وی چینلز کے مباحثوں میں تو بات گالم گلوچ سے بڑھتی بڑھتی ہاتھا پائی تک پہنچ چکی ہے۔ اختلافِ رائے دلیل سے عاری ہوتا جا رہا ہے۔ عدم برداشت کے کلچر نے پٹواریوں، جیالوں اور یوتھیوں کی اصطلاحات کو فروغ دیا،سیاسی اختلافات معاشرتی دوریوں میں بدلنے لگے یہاں تک کہ ایک دوسرے کا موقف تک سننے سے بیزاری نے ڈائیلاگ کا گلہ گھونٹ دیا ہے۔ نازک ترین قومی معاملات سوشل میڈیائی چوک چوراہوں پر زیرِ بحث آتے ہیں، اعداد و شمار اور حقیقت سے نا آشنائی کے باوجود اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کے لیے تصاویر اور حقائق کو مسخ کر کے پیش کرنے کی روش نے سچ جھوٹ کی تفریق کرنا مشکل بنا دیا ہے۔ حکومتی ادارے اور ترجمان تک سوشل میڈیا کے اثر کے آگے بے بس نظر آتے ہیں اور اصلاح کی بجائے خود اس قبیح روش کے عادی بنتے جا رہے ہیں۔

کسی بھی رونما ہونے والے واقعے یا حادثے کے متعلق فوٹیجز اور تبصرے اس بے رحمی سے پوسٹ کر دیے جاتے ہیں کہ اس کے مابعد اثرات کا سوچا تک نہیں جاتا۔ غلط معلومات اور بلاتحقیق خبروں کو جنگل میں آگ کی طرح پھیلتے دیر نہیں لگتی، یوں بڑی سطح پر پروپیگنڈہ فیکٹریاں متحرک ہو جاتی ہیں۔ سنجیدہ طبقہ حقیقی خبر کے حصول کے لیے تاحال نشریاتی یا اخباری ذرائع پر انحصار کرنے پر مجبور ہے لیکن بڑی تعداد میں لوگ سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی غلط اور بے بنیاد خبروں کو حقیقی سمجھ کر رائے قائم کر لیتے ہیں۔ اس تمام عمل سے نقصان یہ ہوا ہے کہ سیاستدان، فوج، بیوروکریٹ، پولیس، قانون دان، صحافی، تاجر و کاروباری افراد حتیٰ کہ کوئی ایسا شعبہ نہیں بچا جس پر آج ہمارا نوجوان اعتماد کر پائے۔

قطع نظر اس بحث کے کہ حکومت کی تبدیلی کے لیے اپنایا گیا طرزِ عمل آئینی،قانونی اور اخلاقی جواز رکھتا ہے یا نہیں، اس تبدیلی کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر برپاجنگ میں سازش اور ملک دشمنی کا منجن دھڑا دھڑ بیچا جا رہا ہے جس میں ملکی اداروں خصوصاً عدلیہ اور قومی سلامتی کے اداروں کی کردار کشی کر کے قوم کو تقسیم کرنے کی مذموم سازش رچائی جا رہی ہے یقیناً پاکستان کی کوئی بھی سیاسی پارٹی ایسی کسی قبیح سازش کا حصہ نہیں لیکن اس صورتحال سے دشمنانِ ملت کو ملت کی ایکتا پر حملہ آور ہونے کا موقع ضرور مل رہا ہے۔اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ صحیح کو دانستہ غلط اور غلط کو صریحاً صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نا امیدی، مایوسی اور بے چینی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔سوشل میڈیا پر بڑی عمر کے لوگوں کی نسبت نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے یہی سوشل میڈیا اس ینگ پاور کو ڈی ٹریک کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہو رہا ہے۔ خود کو بُرا اور دوسروں کو اچھا سمجھنے کی یہ روش خود بیزاری کی جانب لے جا رہی ہے۔ہماری نوجوان نسل کی اخلاقی تربیت میں یہ عام اور بے ضرر سمجھی جانے والی خامی یعنی جھوٹ کو سمجھا جا رہا خامی ہی نہیں سو یہ سرایت کرتی جا رہی ہے۔ جھوٹ کو تمام برائیوں کی جڑ کہا جاتا ہے۔ آج دیکھ لیجیے معاشرے میں کون سی برائیہے جو فروغ پذیر نہ ہو لیکن کسی کو اس بات کا احساس ہے نہ ادراک کہ آنے والی نسلوں کو ہم خود کس گڑھے میں گرتا دیکھ رہے ہیں لیکن کچھ کر نہیں پا رہے۔ برداشت، احساس، بھائی چارہ، حب الوطنی، امید اور خوشی کے جذبات دم توڑ رہے ہیں اور ہم عوامل ڈھونڈ رہے ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ قومی اداروں کے متعلق بے دھڑک لگائے جانے والے خود ساختہ اور حقیقت سے عاری الزامات عوام اور اداروں کے مابین خلیج کو گہرا کرنے کی سازش ہے۔ ٹاپ ٹرینڈز چلانے اور ادارے یا حکومتیں چلانے میں بڑا واضح فرق ہوتا ہے۔

(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین