احمد ندیم قاسمی اور قتیل شفائی ساتھ ساتھ رہتے تھے اور اسے حسنِ اتفاق کہئے کہ سڑک کا نام رکھنے والے حکام کی دوستی قتیل شفائی سے تھی۔سو انہوں نے وہ سڑک اپنے دوست کے نام سے منسوب کردی اور منو بھائی سر پیٹ کر رہ گئے۔ اب وہاں سے احمد ندیم قاسمی مکان تو کہیں اورمنتقل نہیں کر سکتے تھے۔سو انہوں نے کالم لکھ کر قلم توڑ دیا۔ ’’قتیل شفائی روڈ جس پر احمد ندیم قاسمی بھی رہتے ہیں ‘‘۔جس روز یہ کالم شائع ہوا۔ اتفاق سے اُس روز منوبھائی سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ پھر 1983میں میانوالی میں میں نے ایک ادبی تقریب رکھی تھی جس میں منوبھائی، عطاالحق قاسمی، پروین ملک اور قائم نقوی آئے تھے۔ 1984 میں شائع ہونے والے میرے نعتیہ مجموئے ’’آفاق نما ‘‘ کے متعلق منو بھائی نے لکھا ’’منصور آفاق مرمر کی سلوں سے بیزار ہیں، انہیں مٹی کے حرم سے عشق ہے، مرمر کی سلوں سے قیصرو کسریٰ اور لات و منات کی بو آتی ہےاور مٹی کے حرم، ظلم کی چکی میں پسنے والے ان لوگوں کے دل ہیں جن میں پسینہ بہانے والے غربیوں کے پیغمبر کے پیغام نے گھر کیامن و تُو کی تفریق مٹائی مظلوموں کو استبداد سے نجات دلائی اور غلاموں کی زنجیریں توڑیں منصور آفاق کی نعتیہ شاعری میں مجھے حضرت بلال کی اذان سنائی دیتی ہےجو نمازیوں کے جسموں کو نہیں ان کی روحوں کو بلاتی ہے‘‘۔منو بھائی، پنجابی زبان کے بڑے شاعر، باکمال کالم نگار اوربہت اعلیٰ پائے کے ڈرامہ نگار تھے۔ انہوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے بہت سے ڈرامے لکھے۔ ان کا سب سے مشہور ڈرامہ سونا چاندی ہے۔ 2007ء میں انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔انہوں نے ’’اجے قیامت نئیں آئی (پنجابی شاعری کا مجموعہ)۔جنگل اداس ہے (منتخب کالم)۔فلسطین فلسطین۔ محبت کی ایک سو ایک نظمیں اورانسانی منظر نامہ (تراجم )جیسی لازوال کتابیں تاریخ کے سپرد کیں۔ مگرمنوبھائی کا سب سے اہم کام ’’سند س فائونڈیشن ‘‘ ہے۔ سُندس پچھلے 25 سال سے تھیلیسیمیا، ہیموفیلیا اور خون کی دیگر بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے علاج معالجہ میں مصروفِ عمل ہے۔منو بھائی نے اس ادار ے کا آغاز22رمضان المبارک کو کیا تھا یعنی آج سندس کی پچیسویں سالگرہ ہے۔ منوبھائی نے یہ عظیم کام یاسین خان کیساتھ مل کر شروع کیا۔یاسین خان کا تعلق بھی انسانوں کے اسی عالمی خاندان سے ہے جن کے دل دھڑکتے ہیں۔ عبدالستار ایدھی کے نقشِ کف ِ پا پر چلتے ہوئے وہ سندس فائونڈیشن کو نئی بلندیوں سے سرفراز کر رہے ہیں۔ آئیے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ سندس فائونڈیشن کرتی کیا ہے؟ تھیلیسیمیاخون کی ایک موروثی بیماری ہے جس میں متاثرہ مریض کی زندگی کا دارومدار دوسروں کے خون پر رہتا ہے۔ ایسے مریض کو خون کے انتقال کے ساتھ ساتھ جسم سے اضافی فولاد کے اخراج کی ادویات کی ضرورت بھی رہتی ہے۔ اسی طرح ہیموفیلیا کے مریضوں کو بھی خون کے انجماد کے خلیوں میں کمی کے باعث انجماد ِ خون میں مشکل کا سامنا رہتا ہے۔ ایسے مریض کسی بھی وزنی کام کو سرانجام نہیں دے سکتے۔ سندس فائونڈیشن ان تمام مریضوں کےلیے بلا معاوضہ صرف خون ہی مہیا نہیں کرتی بلکہ ادویات اور علاج معالجے کی دوسری سہولیات بھی فراہم کرتی ہے۔ سندس فائونڈیشن کے پاس اس وقت تقریباً7000سے زائد رجسٹرڈ مریض ہیں۔اکثریت بچوں کی ہے۔ سُندس کی شاخیں لاہور، گوجرنوالہ، گجرات، سیالکوٹ، وزیر آباد، فیصل آباد، اسلام آباد اور حافظ آباد میں قائم ہیں اورمستقبل میں کراچی، پشاوراور ملتان میں بھی مراکز قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ سندس ریکارڈ کے مطابق گزشتہ 25سال میں 30لاکھ سے زائد مریضوں کوخون اور اجزائے خون فراہم کر چکی ہے۔ فائونڈیشن اپنے رجسٹرڈ تھیلیسیمیا ا ور ہیموفیلیا کے مریضوں کے ساتھ ساتھ دیگر سرکاری اور نجی اسپتالوں میں بھی خون اور اجزائے خون فراہم کر تی ہے۔اس سال مریضوں کے علاج معالجے کا کل تخمینہ 50کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔
کورونا وباکے دوران سُندس کو مریضوں کے لیے خون کے عطیات کی کمی کاسامنا تھا۔ مشکل کی اس گھڑی میں امیر دعوتِس اسلامی مولانا الیاس قادری نے تھیلیسیمیا کےمریضوں کی مشکل حل کرنے کا بیڑا اٹھایا اور دعوت اسلامی کے ہزاروں کارکنوں نے خون کے عطیات سندس فائونڈیشن کو دیے اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔دعوتِ اسلامی دنیا بھر میں دکھی انسانیت کی خدمت میں پیش پیش ہے۔خاص طور پر ناگہانی آفات میں دعوت اسلامی کا کردار بہت زیادہ قابلِ تعریف ہے۔ ان کے کارکنوں کی بے لوث خدمت اورجذبہِ ایثار کامیں دل کی گہرائیوں سے قائل ہوں۔
سُندس فائونڈیشن مستقبل ِقریب میں ایک اسپتا ل بھی بنا رہی ہے جس میں مریضوں کو خون کی فراہمی کے ساتھ ساتھ جملہ امراض کے علاج معالجہ کی سہولیات مہیاہوں گی۔ اسپتال میں بون میرو ٹرانسپلانٹ کا یونٹ بھی قائم کیا جائے گا جس کی بدولت تھیلیسیمیا کا مستقل علاج بھی ممکن ہو سکےگا۔ اسپتال کی تعمیر کا کل تخمینہ تقریباً 2 ارب روپےلگایا گیا ہے، جبکہ مشینری اور دیگر آلات کے لیے 1 ارب روپےدرکار ہیں۔ اس مقصد کے لیے اراضی بھی حاصل کر لی گئی ہے اس مقصد کے لیے عوام سے بھرپور تعاون کی اپیل ہے۔
میرے خیال میں منو بھائی کا یہ کام انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام ملنے کی مسلسل بشارت دے رہا ہے۔ فائونڈیشن کا نام سندس رکھتے ہوئے یقیناً یہ بات بھی منو بھائی کے ذہن میں ہو گی کہ سندس بہشتیوں کے لباس کو کہتے ہیں۔ یہ مسلسل کارِ خیر کسی کسی خوش نصیب کے نصیب میں آتا ہے۔سندس کی صورت میں منو بھائی برگد کاوہ چھتنار درخت لگاگئے جوصدیوں زندگی کی ستمگر دھوپ میں سوختہ آدمیت کو چھائوں فراہم کرتا رہے گااور منو بھائی کا انسانیت کو دیا ہوا یاسین خان۔یقیناًآنے والے وقت میں ایدھی کی مثال ہوگا۔ میری طرف سے ماہ ِ رمضان میں یاسین خان اور سندس فائونڈیشن دونوں کےلیے دعائے خاص۔