• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان مایوسی اور غصے میں نہ صرف شہباز شریف اور اسکے اتحادیوں کی حکومت بلکہ بعض بیرونی طاقتوں کو اپنے خلاف سازش کاذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں تاہم اب انکے بیانیے میں تھوڑی تبدیلی آئی ہے اور وہ امریکہ کی بجائے موجودہ بائیڈن انتظامیہ کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ حال ہی میں ری پبلیکن اور قدامت پسندوں کے حامی فاکس ٹی وی پر ایک آزاد دفاعی تجزیہ نگار ربیکا گرانٹ کی پاکستان اور اسکی پالیسیوں سے متعلق ذاتی رائے کو پی ٹی آئی کی لیڈر شپ نے اپنے خلاف امریکی سازش کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جو غیر جانبدار مبصرین کیلئے اچھنبے کا باعث تھا۔ اسکے علاوہ سابق وزیراعظم کا حالیہ بیان کہ انہیں جولائی میں پتہ چل گیا تھا اپوزیشن انکی حکومت گرانے جارہی ہے، انکے امریکہ مخالف بیانیے کو مزید کمزورکررہاہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عمران خان کی غیر متوازن خارجہ پالیسی مغربی ممالک خصوصا امریکہ کیلئے تشویش کا باعث تھی جو دونوں ملکوں کے تعلقات میں بگاڑ کاسبب بھی بنی مگر پاکستان کے حکمرانوں اور سفارتکاروں کوچاہئے تھا کہ معا ملات بہتر بنانے کیلئے خود پہل کرتے اور اپنے مفادات کا خیال رکھتے ہوئے دنیا کی ایک بڑی طاقت سے خوشگوار تعلقات استوار کرتے کہ ہماری تجارت، ترسیلاتِ زر،ڈویلپمنٹ، عالمی اداروں سے امداد اور قرضے سبھی امریکہ اور اسکے زیراثر ممالک کی رضا مندی اور تعاون سے مشروط ہیں۔عمران خان کا دعویٰ ہے انکے دور میں ایکسپورٹ اور ترسیلاتِ زر میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ انکو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ یہ اضافہ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کی وجہ سے ممکن ہوا ہے، گزشتہ برسوں میں کورونا کی وجہ سے متعدد ملک پابندیوں کی زد میں آئے جبکہ یورپین یونین کی طرف سے جی ایس پی کی سہولت سمیت پاکستان کو ترجیحی درجے پر رکھا گیا جس سے ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ میں کافی اضافہ ہوا۔ اسکے علاوہ امریکہ اور یورپ کو آئی ٹی مصنوعات اور سروسز کی ایکسپورٹ میں بہتری آئی۔

پاکستان تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں مشرق وسطیٰ کے ممالک کیساتھ بھی ہمارے تعلقات سرد مہری کا شکار رہے۔ مڈ ل ایسٹ کے تین امیر ترین ملکوں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر نے پاکستان کو نظرانداز کئے رکھا جبکہ ایران عالمی پابندیوں کی وجہ سے تجارتی پارٹنر نہ بن سکا البتہ ترکی کیساتھ تعلقات بڑھانے کیلئے عمران خان نے خصوصی کاوشیں کیں جس کے باعث سعودی عرب کی ناراضی بھی مول لینا پڑی۔ بھارت اور دوسرے ہمسایہ ممالک کیساتھ تعلقات کی نوعیت ہماری نیشنل سیکورٹی پالیسی اور بعض دوسرے عوامل سے جڑی ہے اور یہ پالیسی کوئی بھی حکومت آئے ،تقریباً یکساں رہتی ہے۔

مسلم لیگ ’’ن ‘‘کی حکومت کے ماضی میں مشرق وسطیٰ ممالک کے ساتھ انتہائی خوشگوار تعلقات تھے خصوصا سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر نے پاکستانیوں کی کثیر تعداد کوملازمتیں فراہم کیں اور پاکستان کی ہر کڑے وقت میںبھرپور مدد کی۔ نئی حکومت آنے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے سعودی عرب اور یو اے ای کا دورہ کیا اورمعاشی پیکیج کیلئے بات چیت کی جبکہ انکے صاحب زادے وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے قطر کا مختصر دورہ کیا۔ ترکی کے صدر طیب اردوان کیساتھ میاں برادران کے قریبی تعلقات ہیں۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں طیب اردوان خصوصی طور پر رائے ونڈ تشریف لے گئے تھے۔ امریکہ کی رضامندی سے عالمی مالیاتی ادارے بھی موجودہ حکومت کو اضافی پیکیج دینے پر رضا مند ہوگئے ہیں جس سے پاکستان کی معیشت کو وقتی سہارا مل جائے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی کوشش ہوگی کہ مہنگے چینی قرضوں کی واپسی میں مہلت حاصل کرسکیں جسکے لیے مستقبل قریب میں انکے چین کے دورے پر جانے کا امکان ہے۔

بیرونی ممالک اور مالیاتی اداروں سے قرض اور امداد کی بھیک مانگنا ایک آزاد اور خود مختار ریاست کیلئے کسی طور قابل قبول نہیں اور نہ ہی کسی بیرونی ملک کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالنا چاہئے مگر ہماری بد قسمتی کہ وسائل اور تعلیم سے محروم بے ہنگم ہجوم پر مشتمل ہمار ی قوم ضد، خوش فہمی اور انا کے خول میں بند محنت اور دیانت سے کام بھی نہیں کرنا چاہتی اور تہذیب یافتہ، ترقی یافتہ ممالک کیساتھ برابری بھی چاہتی ہے یہ سب کیسے ممکن ہے؟

(صاحب مضمون سابق وزیراطلاعات پنجاب ہیں)

تازہ ترین