• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکتوبر 1958ءمیں ملک میں پہلے مارشل لا کا نفاذ ہوا، تو حکومتِ وقت اس غور و خوض میں مصروف ہوگئی کہ کراچی شہر کا دارالحکومت رہنا موزوں ہے یا نہیں۔ اُس وقت کے آرمی چیف اور صدر پاکستان، جنرل ایوب خان اس معاملے پر جلد از جلد حتمی فیصلے کے متمنّی تھے، لہٰذا اس حوالے سے حکومت نے31جنوری 1959ء کو ایک نورکنی اعلیٰ کمیشن قائم کرکے چیف آف اسٹاف، میجر جنرل آغا محمد یحییٰ خان کو چیئرمین مقرر کردیا۔ کمیشن کے دیگر ارکان میں سیکریٹری اخترمحمود، ڈائریکڑ جنرل ہیلتھ ایس این نقوی، ڈائریکٹر محکمہ موسمیات ایم اے باری، ریٹائرڈ جنرل ایس آئی محبوب، چیف انجینئر آب پاشی وبجلی محمد افضل، زرعی ترقیات و کمشنر وزارتِ خوراک ایم کے محی الدین، چیف آپریٹنگ سپرنٹنڈنٹ این ڈبلیو ریلوے اے حمید، چیف انجینئر پوسٹ اینڈ ٹیلی گراف وائی ایس احمد شامل تھے۔

کمیشن کو یہ غور کرنا تھا کہ آیا جغرافیائی طور پردفاع، آب و ہوا، مواصلات اور پیداوار کے قابل خالی زمین کی فراہمی کے اعتبار سے کراچی دارالخلافہ کے لیے موزوں جگہ ہے یا نہیں۔ اس ضمن میں دوسرے ممالک کی مثال سامنے رکھتے ہوئے اس امَر کو بھی پیشِ نظر رکھا جارہا تھا کہ ملک کا دارالحکومت کاروباری و صنعتی مرکز سے دُور ہوناچاہیے۔ 

اس وقت شہر 24نواحی اور 30گنجان آباد محلّوں پر مشتمل تھا، جن میں زیادہ معروف ناظم آباد، لالوکھیت (لیاقت آباد) گولی مار، بہار کالونی، تاج کالونی، پیرالٰہی بخش کالونی، نفیس آباد، منگھو پیر روڈ، حیدرآباد کالونی، اسلام آباد، خداداد کالونی، سکندرآباد، چنیسر گوٹھ، ہزارہ کالونی، لیاقت اشرف کالونی، محمودآباد، ڈرگ کالونی، ملیرکالونی، ملیرتوسیع کالونی، سعودآباد، معین آباد، لانڈھی اور کورنگی کا شمار کراچی کی نواحی بستیوں میں ہوتا تھا، جب کہ شہر کے مشہور محلّوں میں کھارادر، میٹھادر، رتن تلائو، برنس روڈ، پلازہ کوارٹر، آرٹلری میدان، سولجر بازار، ٹھٹھائی کمپائونڈ، عیدگاہ، رام سوامی، رنچھوڑ لائن، پاکستان کوارٹرز، جیکب لائنز، اے بی سینیا لائن، جٹ لائنز، ٹیونیشیا لائنز، پی ای سی ایچ ایس، اسلام گنج، عثمان آباد، بھٹہ ولیج، ریلوے کالونی، کلاکوٹ، چاکیواڑہ، بکراپیڑی، کمہار واڑہ، بزرٹا لائن، لیاری کوارٹرز، بھیم پورہ، صدر، لی مارکیٹ اور جونا مارکیٹ کے علاقے شامل تھے۔

17فروری 1959ء کوکمیشن کا پہلا اجلاس ہوا، جس میں اعزازی مشیر کے طور پر یونانی فرم کے سربراہ، آئی اے کیاڈس کا تقرر کیا گیا۔ کمیشن کے متعدد اجلاسوں کے بعد آخرکار12جون 1959ء کو ملکی تاریخ کا ایک انتہائی اہم فیصلہ سامنے آیا اور نتھیا گلی میں صدرِ پاکستان، آرمی چیف جنرل ایوب خان کے زیرصدارت گورنرز، مرکزی کابینہ اور دیگر اعلیٰ حکّام کی اہم کانفرنس میں کراچی سے دارالحکومت منتقل کرنے کے بڑے فیصلے کا اعلان کردیا گیا۔ کانفرنس میں بتایا گیا کہ کمیشن نے کراچی کو ناموزوں قرار دیتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ نیا دارالحکومت راول پنڈی، سید پور قصبے کے نزدیک منتقل کیا جائےگا۔ یہ 22مربع میل پر محیط ہوگا اور اس کی آبادی تین لاکھ تک محدود ہوگی۔

اس موقعے پر مزید سفارش کی گئی کہ مشرقی پاکستان میں بھی ایک ضمنی دارالحکومت قائم کیا جائے۔ جگہ کے انتخاب کےلیے گورنر کی زیرِ صدارت ایک کمیٹی بنادی گئی تھی۔ نئے دارالحکومت کی تعمیر وترقی کے لیے بڑی رقم درکار تھی، لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ کراچی میں مرکزی حکومت کی عمارتیں فروخت کردی جائیں، جن سے لگ بھگ 50کروڑ روپے حاصل ہونے کی توقع ظاہر کرکے اندازہ لگایا گیا کہ مذکورہ رقم نئے دارالحکومت کی تعمیر کے لیے کافی ہوگی، جس کے بعد اکتوبر 1959ء تک بارہ سو ملازمین کے لیے رہائشی عمارتیں تعمیر کی گئیں اور 20اکتوبر سے صدر مملکت کے کیبنٹ ڈویژن کے زیرِ اہتمام سرکاری ملازمین کی منتقلی کا عمل شروع ہوگیا۔

کراچی سے ملازمین کی منتقلی کے لیے کُل سات اسپیشل ٹرینیں راول پنڈی تک چلائی گئیں۔ راول پنڈی پہنچنے پر پہلے روز تمام ملازمین کو صبح کے ناشتے سمیت دوپہر اور رات کا کھانا مفت فراہم کیا گیا۔ جن ملازمین کے خاندان نہیں آسکے، انہیں کراچی میں اپنے کوارٹرز میں چھے ماہ تک مزید قیام کی اجازت دی گئی۔ راول پنڈی پہنچنے والے تمام عملے کو دوماہ کی پیشگی تن خواہ کے ساتھ دو سوسے لے کر ایک ہزارروپے تک خاص الائونس بھی دیا گیا۔ 20اکتوبر سہ پہر ساڑھے تین بجے کراچی کینٹ اسٹیشن سے پہلی ٹرین نئے دارالحکومت کے لیے روانہ ہوئی۔ اس موقعے پر ملازمین کو الوداع کہنے کے لیے کابینہ کے سیکریٹری، این اے فاروقی سمیت صدرِ مملکت سیکریٹریٹ، کیبنٹ ڈویژن کا عملہ اور عوام کی ایک بڑی تعداد کینٹ اسٹیشن پر موجود تھی۔

پہلی اسپیشل ٹرین 22اکتوبر کو جب راول پنڈی پہنچی تو مسافروں کا اسٹیشن پر شان دار استقبال کیا گیا۔ فوجی بینڈ نے خوشی کے ترانے بجاکر خیرمقدم کیا، ٹرین کے دونوں انجن پھولوں سے لاد دیئے گئے۔ اس موقعے پر پورا شہر خصوصی طور پر سجایا گیا تھا۔24 اکتوبر1959ء کو اس وقت کے صدرِ مملکت، آرمی چیف جنرل ایوب خان نے راول پنڈی روانگی سے ایک روز قبل کراچی کے باسیوں کے نام اپنے مختصر الوداعی پیغام میں کہا کہ ’’باشندگان کراچی کی محبت اور شفقت کا شکریہ۔ آپ لوگوں کو کراچی سے دارالحکومت منتقل ہوجانے پر کسی قسم کے اندیشے اپنے دل میں نہیں لانے چاہئیں۔ اس سے کراچی کی ترقی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کراچی ملک میں تجارت اور صنعت کا سب سے بڑا مرکز ہی رہے گا۔‘‘

سنڈے میگزین سے مزید