• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ورلڈ بلڈ کینسر ڈے‘‘…معروف ماہرِ امراضِ خون ،ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری سے بات چیت

ہر سال 28 مئی کو دُنیا بَھر میں سرطان کی مختلف تنظیموں کے اشتراک سے (جرمن تنظیم، کے ڈی کے ایم ایس ، ایم ڈی ایس فاؤنڈیشن، دی لیوکیمیا فاؤنڈیشن اور نیشنل فاؤنڈیشن فار کینسر ریسرچ) ’’ورلڈبلڈ کینسر ڈے‘‘ منایا جاتا ہے، تاکہ ہر سطح تک اس مرض سے متعلق چیدہ چیدہ معلومات عام کی جاسکیں۔ سرطان کی متعدّد اقسام میں سےایک قسم خون کا سرطان ہے، جو براہِ راست خون کے نظام پر اثر انداز ہوتا ہے۔

یہ مرض جس قدر جلد تشخیص ہو، علاج کی کام یابی کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر افراد ابتدائی علامات نظر انداز کردیتے ہیں اور معالج سے تب رجوع کیا جاتا ہے، جب مرض پیچیدہ ہوچُکا ہو۔ سو، خون کے سرطان کے عالمی یوم کی مناسبت سے ہم نےاس مرض سے متعلق تفصیلاًجاننےکے لیے معروف ماہرِ امراضِ خون، ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری سے بات چیت کی۔

ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری نے1994ء میں سندھ میڈیکل کالج، کراچی سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں،2000ء میں رائل کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز،ڈبلن، آئرلینڈ سے ڈپلوما ان چائلڈ ہیلتھ،2001ء میں یونی ورسٹی کالج لندن، رائل فِری اسپتال لندن، برطانیہ سے پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما اِن پیڈیا ٹرکس گیسٹروانٹرولوجی اینڈ نیوٹریشن،2006ء میں ممبر، رائل کالج آف پیتھالوجسٹس (یونی ورسٹی کالج لندن، رائل فری اسپتال لندن، برطانیہ)، 2007ء میں کلینکل فیلو شپ(بسم اللہ تقی انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز اینڈ بلڈ ڈیزیز سینٹر ،کراچی)،2012ء میں پی ایچ ڈی (ہیموٹولوجی/بائیو کیمسٹری) اورکلینکل فیلو شپ (نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز اینڈ بون میرو ٹرانس پلانٹیشن،کراچی)، 2014ء میں پوسٹ فیلو شپ ٹریننگ، بون میرو ٹرانس پلانٹیشن اور 2018ء میں ڈپلوما آف رائل کالج آف پیتھالوجسٹس (رائل کالج آف پیتھالوجسٹس، لندن) کی اسناد حاصل کیں۔نیز، پاکستان سوسائٹی فار ہیماٹولوجی، پاکستان سوسائٹی فار کلینکل آنکولوجی، پاکستان پیڈیاٹرکٹس ایسوسی ایشن اور پاکستان ایسو سی ایشن آف پیتھالوجسٹس کے ممبر بھی ہیں۔ ان کے 60سے زائد تحقیقی مقالے اور 4کتب شایع ہوچُکی ہیں۔ نیز، متحدہ عرب امارات سمیت کئی مُمالک میں تدریس کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔

عمیر ،ثنا فاؤنڈیشن کے بانی اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز، کراچی کے بانی رکن ہیں۔ اس کے علاوہ 2017ء میں، چلڈرن اسپتال، کراچی اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ برائے خون، جینیات اور بون میرو کی بنیاد رکھی۔ ڈاکٹر صاحب نے صحت سے متعلقہ کئی سرکاری اور نجی اداروں میں خدمات انجام دیں۔ فی الوقت، چلڈرن اسپتال، کراچی اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فار بلڈ،جنیٹکس، اینڈ بون میرو ٹرانس پلانٹ، کراچی سے بطور چیف ایگزیکیٹو منسلک ہیں۔نیز،کنسلٹنٹ، پیڈیا ٹرکس ہیماٹولوجی کے فرائض بھی نبھا رہے ہیں، جب کہ عمیر ثنا فاؤنڈیشن، تھیلیسیمیا فِری پاکستان، کراچی سے بھی بطور کنسلٹنٹ، پیڈیاٹرکس ہیماٹولوجی وابستہ ہیں ۔

ڈاکٹر صاحب سے ہونے والی گفتگو کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے (عکّاسی: اسرائیل انصاری)
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے (عکّاسی: اسرائیل انصاری)

س: سرطان کی مختلف تنظیموں کے اشتراک سے ہر سال دُنیا بَھر میں 28 مئی کو’ ’بلڈ کینسر ڈے ‘‘منایا جاتا ہے،تو آپ کے خیال میں اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

ج: بلڈ کینسر ڈے منانے کا بنیادی مقصد مرض سے متعلق آگہی پھیلانا، سرطان کو بڑھنے سے روکنا ، مریضوں میں جینے کی اُمنگ پیدا کرنا اور یہ اُمید دلانا بھی ہے کہ وہ علاج، خصوصاً کیمو تھراپی کے بعد ایک بہتر زندگی گزار سکتے ہیں، کیوں کہ ہمارے معاشرے میں رائج غلط تصوّرات کے سبب زیادہ تر مریض یا ان کے اہلِ خانہ سرطان، بائیو آپسی اور کیمو تھراپی وغیرہ کا نام سُن کر ہی خوف زدہ ہوجاتے ہیں،حالاں کہ آج کی جدید میڈیکل سائنس نے کینسر کی متعدّد اقسام کو شکست سے دوچار کردیا ہے۔

س: خون کاسرطان کیا ہے اور اس کے کیا محرّکات ہوسکتے ہیں؟

ج: سرطان کا مرض جسم کے کسی بھی حصّے میں خلیات کی غیر معمولی تقسیم کی وجہ سے لاحق ہوتاہے۔ اگر جگر، منہ یا پھیپھڑوں کے خلیات کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہورہا ہو اور پُرانے خلیات بھی اپنی جگہ برقرار رہیں، تو وہ اُس عضو کا سرطان کہلائے گا۔ ایک صحت مند فرد کے جسم میںسفید خلیات(وائٹ بلڈ سیلز) کی تعداد 4 ہزار سے 12ہزار تک ہوتی ہے،لیکن جب ان کی مخصوص تعداد لاکھوں تک پہنچ جائے یاپھربون میرو/ہڈیوں کے گُودےمیں نارمل سیلز کی جگہ سرطان زدہ خلیات پائے جائیں، تویہ بلڈ کینسر کی نشانی ہے۔خون کئی اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے، جن میں سُرخ خلیات(ریڈ بلڈ سیلز) ، سفید خلیات، پلیٹلیٹس اور پلازما وغیرہ شامل ہیں۔ 

خون کے سفید خلیات ہڈی کے گُودے میں افزایش پاتے ہیں اور ان کا کام بیماریوں کے خلاف لڑنا (یعنی انفیکشن روکنا )ہے۔ سُرخ خلیات کے ذمّے جسم کو توانائی فراہم کرنا ہے،جب کہ پلیٹلیٹس کا بنیادی کام خون بہنے سے روکنا ہے۔ مثال کے طور پر آپریشن، حادثے یا چوٹ کی صُورت میں جس شریان سے خون بہہ رہا ہو، تو پلیٹلیٹس وہاں اکٹھے ہوکر عارضی طور پر زخم بَھر دیتے ہیں اور خون بہنا بند ہوجاتا ہے۔ اگر کسی سبب سُرخ خلیات، سفید خلیات اور پلیٹلیٹس کے افعال میں خرابی واقع ہوجائے، تو جہاں خون کے سرطان کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، وہیں سفید خلیات ختم ہونے اور بار بار انفیکشن کی وجہ سے مریضموت کے منہ میں بھی جاسکتا ہے۔

اصل میں بون میرو ایک فیکٹری کی مانند ہے، جس میں وائٹ بلڈ سیلز ،ریڈبلڈ سیلز اور پلیٹلیٹس افزایش پاتے ہیں۔ اگر ہڈیوں کے گُودے کے اندر سرطان کے خلیات کی افزایش کا عمل شروع ہوجائے، تو بلڈ کینسر کا مرض لاحق ہوجاتا ہے، مگر ضروری نہیں کہ وہ تمام مریض جو ان تین اجزاءکی(سُرخ خلیات، سفید خلیات اور پلیٹلیٹس) کمی کا شکار ہیں، انہیں خون کا سرطان لاحق ہوجائے۔ رہی بات محرکات کی توبچّوں اور بڑوں میں خون کا سرطان لاحق ہونے کی زیادہ تر وجوہ جینیٹک ہی ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ تاب کاری کے اثرات بھی سبب بن سکتے ہیں۔

س: لیوکیمیا ریسرچ فاؤنڈیشن کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق دُنیا بَھر میں ہر تین منٹ بعد ایک فرد میں بلڈ کینسر تشخیص ہورہاہے،توپاکستان میں اس سرطان کی کیا شرح ہے، نیز، مَرد و خواتین اور بچّوں میں سے کس میں شرح بُلند ہے؟

ج: ترقّی یافتہ مُمالک میں ہر مرض باقاعدہ طور پر رجسٹر ہوتا ہے۔ رجسٹریشن سے مُراد یہ ہے کہ کسی بھی مرض کا جو بھی نیا کیس رپورٹ ہو، اُسے سرکاری سطح پر رجسٹر کیا جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے پاس کئی امراض، بشمول بلڈ کینسر کا کوئی اندراج نہیں۔ تاہم، مختلف اداروں کی جانب سے کیے جانے والے والے ایک سروے کے مطابق بچّوں میں بلڈ کینسر کی شرح بُلند ہے،جب کہ خواتین اور مَردوں میں معمولی سے فرق کے ساتھ یک ساں شرح کہی جاسکتی ہے۔ البتہ مجموعی طور پر خواتین میں بریسٹ کینسر اور مَردوں میں پھیپھڑوں، پروسٹیٹ اور آنتوں کے سرطان کی شرح بُلند ہے۔

س: خون کے سرطان کی کتنی اقسام ہیں اور کیا یہ موروثی ہوتا ہے؟

ج: خون کے سرطان کی دوبنیادی اقسام ہیں۔ ایک قسم ایکیوٹ لیوکیمیا (Acute Leukemia)اور دوسری کرونک لیوکیمیا(Chronic Leukemia) کہلاتی ہے۔ یہ دونوں بھی مزیددو دو اقسام میں منقسم کی گئی ہیں۔ جیسا کہ اگر ایکیوٹ لیو کیمیا، لِمفوماسائٹک کاہوگا ،تواسے طبّی اصطلاح میں اے ایل ایل :یعنی ایکیوٹ لِمفو بلاسٹک لیو کیمیا(Acute lymphoblastic leukemia) سے موسوم کیاجاتاہے۔ اگر میلائڈ سیلز کا ہو، تو اسےاے ایم ایل: ایکیوٹ میلائڈ لیوکیمیا(Acute Myeloid Leukemia) کہا جاتا ہے۔ اس طرح اگر کرونک لیو کیمیا ، لِمفوماسائٹک کا ہو، تو وہ سی ایل ایل:کرونک لِمفوسائٹک لیوکیمیا(CLL:Chronic Lymphocytic Leukemia)، جب کہ میلائڈ سیلز کا سرطان سی ایم ایل:کرونک میلائڈ لیو کیمیا (CML:Chronic Myeloid Leukemia)کہلائے گا۔ عموماًخون کا سرطان موروثی مرض نہیں ہوتا ،البتہ بریسٹ کینسر ضرورموروثی ثابت ہوتاہے۔ 

بلڈ کینسر کی ان تمام اقسام میں ایکیوٹ لیوکیمیا (چاہے وہ لِمفو بلاسٹک ہویا میلائڈ )خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ البتہ کرونک لیو کیمیا کی مؤثر ادویہ دستیاب ہیں، جن کے استعمال سے مریض کم ازکم دس سال یا اس سے زائس عرصے تک زندگی گزارسکتا ہے۔ 60 سے 70فی صد مریضوں میں علاج کے بعد زندگی گزارنے کا دورانیہ 10 سے 15سال تک بڑھ جاتا ہے۔ ترقّی یافتہ مُمالک میں ایکیوٹ لیو کیمیا، خاص طور پر ایکیوٹ لِمفو بلاسٹک کیمیا سے متاثرہ 90فی صد بچّے علاج کے بعد صحت یاب ہوجاتے ہیں، جب کہ اے ایم ایل سے60 سے 70 فی صد بچے صحت یاب ہوتے ہیں۔

اگر پاکستان کا ذکر کریں، تو ہمارے یہاں ایکیوٹ لِمفو بلاسٹک کیمیا کے علاج کی کام یابی کا تناسب بعض شہروں میں60 سے70فی صداور بعض میں 80 فی صد تک ہے۔پاکستان میں سالانہ ایکیوٹ لِمفو بلاسٹک کے شکار80فی صد بچّے شفایاب ہو رہے ہیں، جو بین الاقوامی شرح سے10فی صد کم ہے۔ اسی طرح ترقّی یافتہ مُمالک میں16سال سے زائد عُمر کے افراد میں اے ایل ایل اور اے ایم ایل کے علاج کی کام یابی کی شرح 50سے60 فی صد اور پاکستان میں 30سے40فی صد ہے۔

س: بلڈ کینسر کی مختلف اقسام کی علامات بھی الگ الگ ہیں؟

ج: جی بالکل علامات الگ الگ ہیں۔ ایکیوٹ لیو کیمیا کی بنیادی علامات میں تیز بخار،جسم کے کسی حصّے سے خون کا اخراج، خون کی کمی اور سانس پُھولنا شامل ہیں، جب کہ کرونک لیو کیمیا میں خون سے متعلق تمام تر علامات کی شدّت زیادہ نہیں ہوتی، لیکن تلّی یا جگر کا حجم بڑھ جاتا ہے۔لِمفوما میں غدودوں کی سوزش عام علامت ہے۔

س: تشخیص کے لیے کون سے ٹیسٹس تجویز کیے جاتے ہیں؟

ج: مختلف ٹیسٹ مستعمل ہیں، جو علامات کی مناسبت سے تجویز کیے جاتے ہیں۔ زیادہ تر کیسز میں خون اور بون میرو کے ٹیسٹس کیے جاتے ہیں۔ ان دونوں ٹیسٹس میں سب سے اہم امیونو فونو ٹائپنگ ٹیسٹ(Immuno Phenotyping Test) ہے، جو مخصوص مشینوں کے ذریعے کیا جاتا ہے اورخون کے سرطان کی جو بھی قسم ہو، 24گھنٹوں میں تشخیص کرلی جاتی ہے۔ اس ٹیسٹ کی سہولت بڑے شہروں میں دستیاب ہے۔اس کے علاوہ جین کا بھی ایک مخصوص ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔

س: بلڈ کینسرکے علاج کے لیے اس وقت سب سے مؤثر طریقۂ علاج کیا ہے اور کیا ہمارے یہاں علاج کی تمام ترجدید سہولتیں دستیاب ہیں؟

ج: مرض کی نوعیت اور شدّت کے مطابق طریقۂ علاج منتخب کیا جاتا ہے۔ ایک طریقۂ علاج تھراپی کاہے،جو سب سے مؤثر ہے۔تھراپی کی بھی کئی اقسام ہیں۔ مثلاً بائیولوجیکل ، کیمو اور ریڈی ایشن تھراپیز وغیرہ۔ خون کے سرطان کا ایک اور مؤثر علاج اسٹیم سیل ٹرانس پلانٹیشن ہے۔ ہڈیوں کے گُودے کی تبدیلی کے اس خاص طریقۂ کار کو طبّی اصطلاح میں بون میرو ٹرانس پلانٹ بھی کہتے ہیں۔ 

اس طریقۂ علاج میں خون کے خلیے بنانے والے، خاص خلیے کو عطیہ کرنے والے کے جسم سے نکال کرسرطان کے مریض میں داخل کیا جاتا ہے، جس کے بعد یہ صحت مند اسٹیم سیل، خون کے صحت مند خلیوں کی افزایش میں کارآمد ثابت ہوتا ہے۔بلڈ کینسر کےعلاج کی جدید سہولتیں کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں دستیاب ہیں، کوئٹہ، پشاور میں بھی سہولتیں موجود تو ہیں، مگر وہ معیار نہیں، جو ان تینوں شہروں کا ہے۔ واضح رہے، بلڈ کینسر کے وہ مریض، جن میں فرسٹ یا سیکنڈ کیمو تھراپی کے بعد مثبت نتائج برآمد نہیں ہوتے، ان کا بون میرو ٹرانس پلانٹ کیا جاتا ہے۔

س: کیا سرطان کی دیگر اقسام کی طرح بلڈ کینسرکی بھی مختلف اسٹیجیز ہیں؟

ج: بلڈ کینسر میں صرف لِمفوما سرطان ہی وہ قسم ہے، جس کے چار مراحل ہوتے ہیں۔ اگر یہ سرطان گردن سے اوپر یا گردن کے کسی ایک حصّے تک محدود ہو، تو اسے اسٹیج وَن کہا جائے گا۔ اگر گردن کے زائد حصّوں تک پھیل چُکا ہو، تو یہ اسٹیج ٹو کہلائے گی۔ اگر سرطان کے خلیات پیٹ یا پھیپھڑوں تک پھیل جائیں، تو اس کا مطلب ہے کہ مرض تیسرے مرحلے میں داخل ہوچُکاہے۔چوتھے مرحلے میں سرطان ہڈیوں کے گُودے تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔ چوتھے مرحلے میں علاج کی کام یابی کی شرح 60فی صد، جب کہ اسٹیج وَن میں 90فی ہے۔

س: بلڈ کینسر کی تشخیص وعلاج میں تاخیرسے کس قسم کی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں؟

ج: دیکھیں، بلڈ کینسر کی تشخیص جس قدر جلد ہو، علاج کی کام یابی کے امکانات بھی اُسی قدر بڑھ جاتے ہیں، بصورتِ دیگر نوبت End Organ Damage تک آجاتی ہے۔ یعنی جسم کے مختلف اعضاءDamageہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات انفیکشن پورے جسم میں بھی پھیل جاتا ہے، جس کا کوئی علاج نہیں۔ بعض مریض خون کے زائد اخراج سے کومے میں چلے جاتے ہیں۔ بعض اوقات مریض کومے سے باہر بھی آجاتا ہے، وگرنہ اسی حالت میں انتقال کرجاتا ہے۔

س: خون کے سرطان سےبچاؤ کے لیے طرزِ زندگی میں کس طرح کی تبدیلیاں لائی جائیں؟

ج: خون کے سرطان سے بچاؤ کے لیےصحت مندانہ طرزِ زندگی اختیار کیا جائے، جس میں باقاعدگی سے ورزش، وزن پر کنٹرول اور متوازن غذا کا استعمال شامل ہے۔ اس سے قوّت مدافعت مضبوط رہتی ہے اور وہ وائرسز، جنہیں بلڈ کینسر کے ساتھ ایسوسی ایٹ کیا گیا ہے، ان سے تحفّظ حاصل ہوجاتا ہے۔ اگرچہ صحت مندانہ طرز ِزندگی بلڈ کینسر سے بچائو میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے، مگر کہا یہ بھی جاتا ہے کہ مخصوص جینیٹک نقائص اور مخصوص ماحولیاتی اثرات کے باعث کینسرکے امکانات تیزی سے بڑھتے ہیں۔ 

ماحولیاتی اثرات سےمُراد ہےکہ اگر ایک شخص میں جینیاتی طور پر سرطان سے متاثر ہونے کا امکان پایا جاتا ہے اور وہ ہائی ریڈی ایشن کی جگہ یا پلانٹ میں کام کرتا ہے، تو عام افراد کی نسبت وہ سرطان سے جلد متاثر ہوگا ، کیوں کہ اس کی جین میں پہلے ہی سے حسّاسیت (Sensitivits) موجود ہے۔

دیکھیں، اگر 100 افراد تمباکو نوشی کرتے ہیں، تو ان میں سے 10پھیپھڑوں کے سرطان کا شکار ہوتے ہیں، 90 نہیں۔ کیوں کہ جن افراد میں اسموکنگ یا نکوٹین سے Exposureہو گا، وہی سرطان کا جلدشکار ہوں گے۔ پاکستان کے جن علاقوں میں بہت زیادہ بم باری ہوتی ہے، وہیں ہی سے زیادہ تعداد ر میں سرطان کے مریض رپورٹ ہوتے ہیں۔

س: بچّوں میں لیو کیمیا کی علامات، تشخیص و علاج سے متعلق بھی کچھ بتائیں؟

ج: لیو کیمیا کے شکار بچّے بار بار بخار میں مبتلا ہوتے ہیں اور جب ان کا معائنہ کیا جاتا ہے، تو غدود کا حجم بڑھا ہوتا ہے یا پھر تلّی یا جگر کا سائز۔ اس کے علاوہ سانس لینے میں بھی دشواری محسوس ہوتی ہے۔ ان علامات پر خاص توجّہ دینی چاہیے۔ اگر سی بی سی ٹیسٹ میں بلاسٹ سیلز (جو سرطان کے مخصوص سیلز ہیں) ظاہر ہوں، تو یہ سرطان کی نشانی ہے۔ رہی بات علاج کی تو بچّوں کا علاج بڑوں سے قدرے مختلف ہے،کیوں کہ زیادہ تر بچّوں کیموتھراپی سے ٹھیک ہو جاتے ہیں اور بون میرو ٹرانس پلانٹ کی نوبت ہی نہیں آتی۔

س: کیا بچّوں میں سرطان لاحق ہونے کی وجوہ بڑوں سے کچھ مختلف ہوتی ہیں؟

ج: بچّوں میں سرطان لاحق ہونے کی وجوہ بڑوں سے کس حد تک مختلف ہو سکتی ہیں، مگر اس حوالے سے زیادہ اسٹڈی نہیں ہوئی۔ بلڈ کینسر کے زیادہ تر کیسز 5سے 15سال اور 50سال سے 60سال کی عُمر میں دیکھے گئے ہیں، البتہ بچّوں میں بعض بیماریاں بھی خون کے سرطان کا باعث بن سکتی ہیں۔

س: بلڈ کینسرکے علاج کےضمنی اثرات کیا ہوسکتے ہیں؟

ج: عمومی طور پر بلڈ کینسر کے علاج کے بعد بانجھ پَن اور10، 15سال بعد جسم کے کسی اور حصّے کے سرطان کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

س: کووڈ-19 کے پھیلاؤ کے باعث کیا خون کےسرطان کےمریضوں کے علاج معالجے میں بھی کچھ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا؟

ج: جی بالکل کرنا پڑا، کیوں کہ گاؤں، دیہات ہی سے نہیں، شہروں سے بھی مقامی مریض علاج کے لیے بروقت نہیں پہنچ پا رہے تھے اور جب ان کی اسپتال یا سینٹر تک رسائی ہوئی، تو کئی مریضوں کا مرض شدّت اختیار کر چُکا تھا۔ پھر وبائی ایّام میں خون کی شدید کمی بھی دیکھنے میں آئی۔بہرحال، یہ کڑا وقت گز رہی گیااور اس دوران ہماری تو پوری کوشش یہی رہی کہ سرطان کے علاج معالجے میں کوئی کسرنہ رہے۔

س: ہمارے یہاں خون کے کون کون سے امراض عام ہیں؟

ج: پاکستان میں خون کے زیادہ تر جینیاتی عوارض عام ہیں، جیسا کہ تھیلیسیمیا،ہیمو فیلیا وغیرہ۔ یہ وہ امراض ہیں،جو کزن میرجز کی وجہ سے نومولود کو متاثر کر تے ہیں۔ اے پلاسٹک اینیمیا (Aplastic Anemia)بھی خاصا عام مرض ہے، جس میں ہڈی کا گُودا کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر امریکا میں اے پلاسٹک اینیمیا کا ایک مریض ہے، تو یہاں دس ہیں۔اس کے علاوہ آئی ٹی پی (Immune Thrombocytopenic Purpura)اورSickle Cell Disease کی شرح بھی بُلند ہے ۔

س: خون میں مختلف وٹامنز کی کمی بھی مختلف امراض کا باعث بنتی ہے، تو اس حوالے سے بھی کچھ بتائیں؟

ج: روزمرّہ کی خوراک میں وٹامنز کا متوازن رہنا ازحد ضروری ہے، کیوں کہ ان کی کمی سے صرف خون کی مقدار ہی کم نہیں ہوتی، بلکہ بال بھی تیزی سےجَھڑنے لگتے ہیں، پیٹ مسلسل خراب رہتا ہے، کم زوری اور نقاہت بڑھ جاتی ہے، یہاں تک کہ جان کے لالے تک پڑ جاتے ہیں۔ بعض کیسز میں وٹامن سی کی شدید کمی سے جسم سے خون خارج ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ وٹا من بی 12-کی کمی جسم سے خون بہنے کا عمل متاثر کردیتی ہے۔ اسی طرح آئرن/فولاد کی کمی سےخون کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔

س: زیادہ تر ہیماٹالوجسٹس مختلف ٹیسٹس کے لیے نجی لیبارٹریز کا مشورہ کیوں دیتے ہیں، سرکاری لیبارٹریز کے نتائج کیوں قابلِ بھروسا نہیں؟

ج: سرکاری سیٹ اَپ میں نجی اداروں سے کہیں زیادہ اچھی مشینریز موجود ہیں، تجربہ کار معالجین اور پیرا میڈیکل اسٹاف بھی ہے، مگر کوالٹی کنٹرول پروگرام پر عمل در آمد نہیں ہوتا۔ ایک مشین جو بہت اچھی چل رہی ہوتی ہے، اچانک ہی غائب ہو جاتی ہے یا خراب۔ ایک ڈاکٹر اپنے فرائض کی شفّاف رپورٹنگ کررہا ہوتا ہے، مگر اس کا تبادلہ کردیاجاتا ہے۔ تو ہمارے یہاں سرکاری سطح پر نظام کی درستی کے لیے تھوس اقدامات کی اشد ضرورت ہے، جب کہ فنڈنگ، ہیومن ریسورسز اور مہارت کی کوئی کمی نہیں۔

س: چلڈرن اسپتال میں خون کے امراض سے متعلق موجود سہولتوں سے متعلق بھی بتائیں؟

ج: چلڈرن اسپتال کے قیام کا مقصد مریضوں کو ایک چھت تلے ہر طرح کی سہولتیں فراہم کرنا ہے، کیوں کہ سرطان کے مریض کو کسی بھی وقت ماہرِ امراضِ قلب کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے اور گیسٹرو انٹرولوجسٹ کی بھی۔ تو ہمارے یہاں تمام ہی اسپیشلسٹس موجود ہیں۔ لیبارٹری بھی جدید سہولتوں سےلیس ہے،جب کہ بون میرو ٹرانس پلانٹ کے طریقۂ علاج کو خاص اہمیت حاصل ہے، کیوں کہ پاکستان میں چند ہی شہروں میں یہ سہولت دستیاب ہے۔ 

یہاں پر اے پلاسٹک اینیمیا اور دیگر خون کے امراض میں مبتلا بچّوں کے بون میرو ٹرانس پلانٹ کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ نجی اسپتال ہے، لیکن اگر کوئی علاج معالجے کے اخراجات کا متحمّل نہیں، تو بہرحال کسی نہ کسی ذریعے سے علاج کروانے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔