• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات چیت : عالیہ کاشف عظیمی

پاکستان میں تھیٹرنے کئی ایسے فن کار متعارف کروائے، جنہوں نے بعد ازاںٹی وی اور فلم اسکرین پر کام کیا اور اپنی صلاحیتوں کا بَھرپور لوہا منوایا۔ ایسے ہی فن کاروں میں مرزا گوہر رشید بھی شامل ہیں۔ گوہر نے تھیٹر، ٹیلی ویژن اور فلم کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرکے کیرئیر کا آغاز تھیٹر سے کیا۔ ان کے مشہور تھیٹر پلیز میں بمبئی ڈریمز، ٹام ڈِک اور ہیری، مولن روج، سوا 14 اگست اور ہاف پلیٹ ، جب کہ ڈراموں میں ڈائجسٹ رائٹر، مَن مائل، رمزِ عشق، عشقیہ، رازِ اُلفت، پردیس اور لاپتا شامل ہیں۔ 

فلمزکی بات کریں تو سِیڈلنگز، مَیں ہوں شاہد آفریدی، جوانی پھر نہیں آنی، او ٹو وَن، یلغار اور رنگ ریزہ ان کے کریڈٹ پر ہیں، جب کہ ریڈیو شو ’’پاکستان والا‘‘ کی میزبانی کا فریضہ بھی انجام دیا۔ ان دِنوں ڈراما سیریل’’دِلِ مومن‘‘ اور ’’امانت ‘‘ میں دو مختلف نوعیت کے کردار نبھاتے نظر آرہے ہیں۔ ڈراما سیریل’’مَن مائل‘‘ میں بہترین پرفارمینس پر ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ نیز، ان کی شخصیت کا ایک اہم حوالہ یہ بھی ہے کہ وہ معروف عالمِ دین علّامہ غلام احمد پرویز کے نواسے ہیں۔

گزشتہ دِنوں ہم نے مرزا گوہر رشید سے’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ کے معروف سلسلے ’’کہی اَن کہی‘‘ کے لیے بطورِ خاص بات چیت کی، جس کی تفصیل نذرِ قارئین ہے۔

س: اپنے آبائی گھر، خاندان اور بہن بھائیوں کے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: آبائی گھر لاہور میں واقع ہے اور الحمد للہ، میرا ایک اچھی، پڑھی لکھی اور سلجھی ہوئی فیملی سے تعلق ہے۔ ہم تین بہن، بھائی ہیں۔ سب سے بڑے بھائی صاحب، پھر بہن اور اس کے بعد میرا نمبر ہے۔ یعنی میں گھر میں سب سے چھوٹا اور لاڈلا ہوں۔ بھائی اور بہن کی شادی ہوچُکی ہے، تو مَیں چاچو بھی ہوں اور ماموں بھی۔

س: اہلِ خانہ، دوست احباب عموماً کس نام سے مخاطب کرتے ہیں؟

ج: بچپن سے آج تک سب مجھےگوہر کہہ کرہی مخاطب کرتےہیں۔ ویسے میرا پورا نام مرزا گوہر رشید ہے۔

س: کس شہر میں جنم لیا،کہاں تک تعلیم حاصل کی،پڑھائی میں کیسے تھے؟

ج: مَیں نے لاہور میں جنم لیا اور اسی شہر سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، البتہ گریجویشن کے بعد کراچی منتقل ہوگیا۔ یوں کہہ لیں کہ اب تک کی زندگی کا زیادہ تر حصّہ لاہور ہی میں گزرا ہے ۔ میری تعلیمی قابلیت گریجویشن ہے،جس کے میجر سبجیکٹس تھیٹر، ٹیلی ویژن اور فلم تھے ،جب کہ مائنر میں میرے پاس جرنلزم تھا۔

س: مشہور عالمِ دین علّامہ غلام احمد پرویز آپ کے نانا تھے، تو جب آپ نے ہوش سنبھالا تو گھر کا ماحول کیسا پایا؟

ج: جب مَیں نے ہوش سنبھالا، تو اس وقت تک نانا کا انتقال ہوچُکا تھا۔ ہمارے گھر کا ماحول بہت سپورٹڈ ہے۔ ہم بہت زیادہ آزاد خیال ہیں، نہ ہی دقیانوسی۔بچپن ہی سے اپنے بڑوں کو زندگی کے ہر معاملے میں میانہ روی اور اعتدال اختیار کرتے اوراپنی اقدار و ثقافت کے ساتھ چلتے دیکھا۔ ہمیں سختی سے بڑوں، چھوٹوںسے عزّت سے پیش آنے کا درس دیا جاتا۔

خاندان میں پُرانی قدریں اب بھی زندہ ہیں۔ مَیں جب بھی لاہور جاتا ہوں، تو چاہے صُبح کا ناشتا ہو، دوپہر یا رات کا کھانا، سب کے ساتھ کھاتا ہوں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو شام کی چائےتو ہم سب لازماً ساتھ ہی پیتے ہیں۔ میرے نانا غلام احمد صاحب کی جو تعلیمات، نظریہ تھا،وہی میرا بھی نظریہ ہے۔ ہم نے دین کو جس قدر مشکل بنادیا ہے، ہمارا دین ایسا نہیں۔ یہ تو بہت خُوب صُورت، آسانیوں والامذہب ہے۔

س: بچپن میں کیا بننے کا خواب دیکھا کرتے تھے؟

ج: بے فکری کے اس دَور میں کبھی ڈاکٹر بننے کی خواہش کی، تو کبھی پائلٹ بننے کے خواب دیکھے، مگر پھر جوں جوں شعور آتا گیا، خواب بھی بدلتے چلےگئے۔

س: تعلیم مکمل کرنے کے بعد کہیں کوئی ملازمت وغیرہ بھی کی؟

ج: مَیں جب کراچی آیا، تو یہاں میری پہلی ملازمت ایک نجی چینل میں بطور لائن پروڈیوسر تھی۔ سو، میرے کیریئر کی شروعات لائن پروڈیوسر کے شعبے ہی سے ہوئی اوربس، اُس کے بعد راہیں کُھلتی چلی گئیں۔

س: آپ نے شوبز کیرئیر کا آغاز تھیٹر سے کیا، پھر ڈراموں، فلمز کی طرف آئے، تو اس پورے سفر کی کچھ روداد سُنائیں کہ فیلڈ میں آمد کیسے ہوئی، جب کہ والدین نے اداکاری کی سخت مخالفت بھی کی ؟

ج: مجھے والد صاحب کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، مگر والدہ نے بہت زیادہ سپورٹ کیا اور وہ آج تک میرے لیے سپورٹڈ ہیں۔ والد کی مخالفت کی وجہ بھی معقول ہی تھی،کیوں کہ ہمارا خاندان اسٹاک ایکسچینج کے کاروبار سے منسلک ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ جب بڑا بیٹا بزنس کررہا ہے، تو چھوٹے کو بھی یہی کرنا چاہیے، مگر میری تقدیر میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔ہوا یوں کہ جب کراچی آیا، تو یہاں ایک نجی چینل میں ملازمت شروع کی ،جس کے بعد قسمت نے تھیٹر کی دُنیا سےمتعارف کروادیا۔

ابتدا میں کئی تھیٹر پلیزکیے، لیکن’’مولن روج‘‘ کیریئر کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ اصل میں یہ ڈراما جب وجاہت رؤف نے دیکھا، تو انہوں نے ہمایوں سعید سے کہا کہ اس میں کئی باصلاحیت لڑکے کام کررہے ہیں، جو ٹی وی اسکرین کے لیے بڑےفائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں، لہٰذا اسے ضرور دیکھنا۔ یوں ہمایوں سعید نے مجھے میری صلاحیتوں کے بل بُوتے پر ٹی وی اسکرین کے لیے منتخب کیا۔ ٹی وی کے بعد فلم میں کام کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس طرح بے بی اسٹیپ لیتے لیتے شوبز انڈسٹری سے وابستہ ہوئے تقریباً دس برس کا عرصہ بیت چُکا ہے۔

س:2007:ء میں ایک ریڈیو چینل سے بطور آر جے وابستہ ہوئے اور ایک شو’’پاکستان والا‘‘ کی میزبانی کی، جسے خاصی پذیرائی بھی ملی، تو وہ تجربہ کیسا رہا اور اگر اب کسی ٹی وی شو کی میزبانی کی آفر ہوئی، تو کیا قبول کرلیں گے؟

ج: گرچہ ریڈیو سے وابستگی کا دورانیہ مختصر تھا، مگر میرے لیے یہ ایک بہترین تجربہ ثابت ہوا، کیوں کہ ریڈیو کی فیلڈ میں آپ کی صلاحیتوں کا اظہار صرف آواز ہی ہوتا ہے۔ چوں کہ مَیں تھیٹر، ٹی وی اور فلم میں کام کرچُکا تھا، تو بس ایک میڈیم ریڈیو ہی رہ گیا تھا، سو وہاں بھی قسمت آزما دیکھی۔  

اکثر سینئرفن کاروں سے سُنتا تھا کہ پاکستان کے جتنے بھی نام وَر فن کار ہیں، خصوصاً پی ٹی وی دَور کے، اُن سب کی فنی تربیت ریڈیو ہی سے ہوئی ، تو مَیں نے سوچا کہ مجھے بھی ریڈیو میں کام کرنا چاہیے۔ ہاں، اگر مجھے کسی شو کی میزبانی کی آفر ہوتی ہے، تو ضرور قبول کرلوں گا۔

کبریٰ خان کے ساتھ خوش گوار موڈ میں
کبریٰ خان کے ساتھ خوش گوار موڈ میں

س: پاکستان فلم انڈسٹری سے متعلق کیا کہیں گے؟

ج: کووِڈ-19سے قبل اچھی فلمیں بن رہیں تھیں، مگر کورونا نے سب تلپٹ کر کے رکھ دیا۔ اُمید ہے، وقت کے ساتھ حالات میں بہتری آئے گی۔ میرا خیال ہے کہ کوئی بھی مُلک اپنی معیشت، آبادی اور رقبے سے کہیں زیادہ اپنی ثقافت کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے، تو میری حکاّمِ بالا سے یہی درخواست ہے کہ شوبز انڈسٹری جو سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتی ہے، اس کے پَھلنے پُھولنے کے لیے بھی مؤثر اقدامات کیے جائیں۔

س: ٹی وی کا کون سا ڈراما وجہ ٔشہرت بنا؟

ج: ڈراما’’ ڈائجسٹ رائٹر‘‘، جس میں مَیں نےشوکت کا کردار نبھایا اور وہ بہت ہٹ بھی ہوا۔ اس کے بعد مَن مائل، عشقیہ، رازِ الفت، لاپتا سب ہی پسندکیے گئے۔ فلموں میں رنگ ریزہ اور سِیڈلنگز نمایاں رہیں۔

س: کس طرح کے کردار ادا کرنا اچھا لگتا ہے، سنجیدہ، رومانی یا نیگیٹو؟

ج: مَیں زیادہ تر منفی کردار ادا کرتا ہوں، لیکن جب یکسانیت سے اُکتا جاؤں، تو پازیٹیو کردار کے لیے حامی بَھر لیتا ہوں۔ ویسے مجھے ہر طرح ہی کے کردار ادا کرنا اچھا لگتا ہے۔

س: ان دِنوں کیا مصروفیات ہیں، کس نئے پراجیکٹ پر کام کررہے ہیں؟

ج: اس وقت فلم اور ڈرامے دونوں ہی کی شوٹنگز چل رہی ہیں۔ ایک پنجابی کامیڈی فلم ’’شارٹ کٹ‘‘کررہا ہوں، جس کی کاسٹ میں نسیم وکی، آغا ماجد، جگن کاظم اور ثناء فخر شامل ہیں، جب کہ ایک ڈراما سیریل جسے انجم شہزاد ڈائریکٹ کررہے ہیں، اس پر بھی کام جاری ہے۔ اس ڈرامے میں میرے ساتھ عمیمہ ملک، ہاجرہ یامین، نظر حسین، سلیم معراج اور راشد فاروقی وغیرہ ہیں۔

س: بطور ہدایت کار آپ اپنی پہلی مختصر فلم’’خواب‘‘ سے متعلق بھی کچھ بتائیں؟

ج: یہ ایک شارٹ فلم ہے، جو تجرباتی طور پر بنائی گئی، مگر فی الحال پروڈکشن ہاؤس کے پاس موجود ہے، تو کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے۔

س: کبھی کسی اداکار یا اداکارہ سے کوئی چپقلش ہوئی؟

ج: ہماری چھوٹی سی انڈسٹری ہے، جس میں ہم سب فیملی کی طرح رہتے ہیں اور ہر فیملی میں چھوٹی موٹی باتیں تو ہوہی جاتی ہیں، مگر الحمدللہ، آج تک کسی بھی اداکار سے کوئی چپقلش یا یاد رہ جانے والا جھگڑا نہیں ہوا۔

س: سُنا ہے، ڈراما’’مَن مائل‘‘ میں آپ نے منّو کو تھپڑ مارنے سے انکار کردیا تھا، جب کہ پھر ڈراما ’’لاپتا‘‘ میں فلک سے خود تھپڑ کھا لیا،تو ایسا کیوں ہے؟

ج: ’’مَن مائل‘‘ میں اس لیے انکار کیا تھا کہ مَیں عورت پر تشدّد کے سخت خلاف ہوں، جب کہ ڈراما ’’لاپتا‘‘ میں تھپڑ کھانے کی وجہ یہ تھی کہ میل ایگو کو ہینڈل کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی مَرد کسی خاتون پر ہاتھ اُٹھائے، تو اُسے پتا ہونا چاہیے کہ جواباً عورت بھی ہاتھ اُٹھا سکتی ہیں۔ معاشرے میں ایک عورت بھی اُتنی ہی طاقت وَر ہے، جتنا مَرد، تو یہ سین کرنے کا مقصدہر سطح تک ویمن ایمپاورنمنٹ کا شعور اُجاگر کرنا تھا۔

س: کن فن کاروں، ہدایت کاروں کے ساتھ کام کرنے کی خواہش ہے؟

ج: ایسے فن کاروں اور ہدایت کاروں کے ساتھ، جن کی نیّت اچھی ہو، جو صبر و تحمّل سے کام لیتے ہوں،اپنے کام میں ماہر، بہت انرجیٹک ہوں یا پھر کم از کم سیکھنے کا جذبہ رکھتے ہوں۔

س: کیا واقعی اب ڈراموں میں ٹیلنٹ کی بجائے تعلقات پر کام ملتا ہے؟

ج: اگر تو یہ سوال اقربا پروری کے حوالے سے ہے، تو میرے خیال میں شوبز انڈسٹری ایک ایسی فیلڈ ہے، جہاں سفارش آپ کے لیے اینٹری پاس تو ثابت ہوسکتی ہے، تعلقات کی بنیاد پر پراجیکٹس بھی مل سکتے ہیں، لیکن آپ اس فیلڈ کے لیے موزوں ہیں یا نہیں، یہ فیصلہ عوام ہمیشہ آپ کی صلاحیتوں کی بنیاد ہی پر کرتے ہیں۔ یہ ایک میرٹ بیسڈ فیلڈ ہے۔ اگر آپ اپنے کام کی پذیرائی عوام سے حاصل کررہے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ آپ میرٹ پر کام یاب ہوئے ہیں، تعلقات کی بنیاد پر نہیں۔

س: گزشتہ برس ایک انٹرویو میں آپ نے کہا کہ’’ ٹی وی انڈسٹری کے زیادہ تر اداکار ایک دوسرے کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں‘‘ تو اس بیان کی کوئی خاص وجہ؟

ج: دیکھیں، حسد ایک جذبے کا نام ہے، جو کسی بھی فرد میں پایا جاسکتا ہے،اس کے لیے اداکار ہونا ضروری نہیں۔ جب کوئی اچھا کام کرتا ہے، تو مَیں اُسے بہت سراہتا ہوں، لیکن ساتھ ساتھ تھوڑی سی جیلسی بھی ہوتی ہے کہ مَیں شاید اس سے بھی بہتر کام کرسکتا ہوں، تو بے شک حسد منفی جذبہ ہے، لیکن اس سے کام میں بہتری کی تحریک بھی ملتی ہے۔

س: ڈراما’’مَن مائل‘‘میں بہترین اداکاری پر ایوارڈ حاصل کیا، تو کیا واقعی وہ آپ کی اب تک کی بہترین پرفارمینس تھی؟

ج: سچ کہوں تو وہ میری بہترین پرفارمینس نہیں تھی اور مجھے آج تک یہ پتا بھی نہیں کہ میری اب تک کی بہترین پرفارمینس کون سی ہے۔ دوسرا یہ کہ پاکستان میں ایوارڈ مل جانے سے اس بات کا تعیّن نہیں ہوتا کہ جس پرفارمینس پر ایوارڈ ملا ہے، وہ واقعی بیسٹ تھی، کیوں کہ ایوارڈ شوز کی بھی کیا کریڈ یبلیٹی ہے، ہم سب ہی واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مَیں ایوارڈ ز کو اتنا سیریس نہیں لیتا۔ میرے خیال میں جو میرا ماضی تھا، وہ سیکھنے کا مرحلہ تھا اور مَیں اس وقت جو پرفارم کررہا ہوں، وہ سیکھے گئے پر عمل ہے اور جو مستقبل میں کروں گا، درحقیقت وہی میرا بیسٹ ہوگا۔

س: اچھا یہ تو بتائیں کہ یہ ’’برفی‘‘ کون ہے اور اس سے پہلی ملاقات کہاں ہوئی؟

ج: ویسے تو برفی ہمارا پالتو کتا ہے، مگر میرے لیے گھر کے فرد کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے مَیں اکثر برفی کے لیے کہتا ہوں کہ یہ میرا لاڈلا بیٹا ہے۔

س: زیادہ تر ڈراموں میں منفی یا ایگریسیو کردار ہی ادا کیے، تو عام زندگی میں مزاج کیسا ہے؟

ج: جہاں تک مزاج کی بات ہے، تو مَیں نےجس طرح کے کردار کیے ،میرامزاج قطعاً ویسا نہیں۔ اصل زندگی میں مَیں اپنے کرداروں سے بالکل مختلف ہوں۔ مَیں بہت دھیمے مزاج کا شرمیلا انسان ہوں۔ میرا چھوٹا سا حلقۂ احباب ہے، جس میں بہت خوش رہتا ہوں۔ مجھے فیملی کے ساتھ وقت گزارنا اور گھر میں رہنا اچھا لگتا ہے۔

س: آپ اپنی والدہ کے بےحد قریب ہیں اور اکثر کہتے ہیں کہ’’میرے لیے والدہ کی بات حرفِ آخر ہے‘‘تو کیا ماں، بیٹے کی اتنی شان دار بانڈنگ ہمیشہ ہی سے ہے؟

ج: جی، مَیں اپنی والدہ کے بےحد قریب ہوں اور اُن کی ہر بات میرے لیے حرفِ آخر ہی ہے۔ مَیں اُن کی ہر بات زبردستی یا ڈر، خوف سے نہیں، بلکہ عزّت و پیار کی وجہ سے مانتا ہوں یا یوں کہہ لیں کہ میری ان سے اتنی اچھی دوستی ہے کہ وہ جو کہتی ہیں، مَیں چُپ چاپ مان لیتا ہوں۔ دراصل میرا اپنی والدہ سے بہت خُوب صُورت، اَن مول اور دِل کا رشتہ ہے۔

س: ایک عام ناظر کی حیثیت سے ڈراما انڈسٹری کے بارے میں آپ کی کیا رائےہے؟

ج: اگر یہ سوال کچھ عرصہ قبل پوچھا جاتا، تو میری رائے میں نااُمیدی کا عُنصر شامل ہوتا، لیکن اب جو ٹیلنٹ سامنے آرہا ہے، وہ بہت حوصلہ افزا ہے۔ ڈراموں کا ٹرینڈ بدل رہا ہے۔ رفتار سُست ہی سہی، مگر قدم آگے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ بلاشبہ ڈراما انڈسٹری آہستہ آہستہ بہتر پروڈکشنز کی جانب گام زن ہے۔ سو، اب مَیں بہت پُرامید ہوں۔

سنڈے میگزین سے مزید