• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شور تو بہت ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے والا ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر کم ہورہے ہیں۔ پیٹرول مہنگا ہورہا ہے۔ بجلی کے نرخ بڑھ رہے ہیں۔گیس کی قیمتیں بھی زیادہ کردی گئی ہیں۔ مگر قوم تو بہت امیر لگتی ہے۔ رات کو سارے ریسٹورنٹوں کے تخت بھرے ہوئے ہیں۔ قمقمے اتنی زیادہ تعداد میں روشن ہیں کہ دن کا سماں ہوتا ہے۔ بازاروں میں کاریں موٹر سائیکلیں لاکھوں کی تعداد میں اسی طرح رینگ رہی ہیں۔ شاپنگ پلازوں میں بیگمات، دوشیزائیں اسی طرح بدیسی برانڈز طلب کررہی ہیں۔

پاکستان میں اوائل سے ہی اپنے بلند معیار زندگی پر فخر کیا جاتا رہا ہے۔ ہم خود کو مملکت خداداد پاکستان کہتے ہیں اس لیے ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر ہی توکل کرتے رہے ہیں۔ کفایت شعاری۔ سادگی۔ قناعت کا درس بھی خدائے بزرگ و برتر نے دیا ہے۔ اس پر ہماری اشرافیہ نے بہت کم اعتبار کیا ہے۔ یہ جسے ہم آج کل اشرافیہ کہتے ہیں۔ اس کے بھی 1947سے مختلف نام رکھتے آئے ہیں۔ لیکن ان کی خصوصیت۔ عادتیں۔ جبلتیں شروع سے وہی ہیں۔

۔۔۔۔۔

آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں سے ملنے ملانے ان کی سننے اپنی سنانے کا دن۔ آج آپ ان سے ضرور پوچھیں کہ گزشتہ ہفتے میں انہوں نے کتنی آن لائن شاپنگ کی۔ کتنی ضروری کتنی غیر ضروری۔ کیا انہوں نے فرق محسوس کیا کہ قیمتوں میں کتنا اضافہ ہوا۔

پاکستان اور بھارت ایک ساتھ آزاد ہوئے تھے۔ بھارت نے پہلے سال ہی بڑی جاگیرداریاں، رجواڑے ریاستیں ختم کردی تھیں۔ بدیسی مصنوعات کی درآمد پر پابندی عائد کی ۔ میرا جانا تو 1974 میں ہوا۔ لیکن جو لوگ جاتے رہے۔ وہ آکر یہ تو کہتے تھے کہ بھارت میں بہت غربت ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمیں یہاں ہر چیز میسر ہے۔ باہر کی گاڑیاں۔ غیر ملکی ریفریجریٹر۔ ایئر کنڈیشنر۔ وہاں تو پردھان منتری بھی وہیں کی بنی ہوئی بد شکل امبیسیڈر گاڑی استعمال کرتا ہے۔ ہمارے ہاں نئی جاپانی گاڑیاں ہیں۔ اس طرز زندگی میں ہمارے حکمراں بھی پیش پیش رہے ہیں۔ جاگیردار بھی۔ سرمایہ دار۔ کارخانہ مالکان بھی۔ بھارت میں 90کی دہائی سے انہوں نے معیشت کو آزاد کیا۔ اپنی اقتصادی بنیادیں مضبوط کرلیں۔ کتنا زر مبادلہ ان چالیس پچاس سال میں بچالیا۔

ہم نے ان چالیس بچاس برس میں امریکہ کی چاپلوسی کی۔ ملک کو بدیسی مال کی منڈی بنایا۔ گاڑیاں اس وقت بھی اپنی نہیں بنائیں۔ آج بھی پرزے یکجا کررہے ہیں۔ گاڑیاں ہر قسم کی مہنگی سے مہنگی شوروموں میںدستیاب ہیں۔ کسی زمانے میں ہم سعودی عرب تھے مگر تیل کے بغیر، ہم امریکہ تھے تعلیم کے بغیر،سوئٹزرلینڈ تھے اثاثوں کے بغیر، یہ ساری آسائشیں۔ تعیشات۔ اعلیٰ معیار زندگی قرضوں پر قرضے لے کر حاصل کیا جارہا تھا۔

قرض کی پیتے تھے مے اور یہ سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

اب فاقہ مستی رنگ لارہی ہے۔ مگر صرف ان کی جو فاقے کرتے آرہے ہیں۔ جو 98فی صد ہیں۔ 2فی صد تو اب بھی ہفتے میں دبئی کے دو دو تین تین چکر لگارہے ہیں۔ لندن، نیو یارک گھوم کر آرہے ہیں۔ استنبول میں راتیں گزار رہے ہیں۔ ہمارے سارے ڈالر تو وہ خرچ کررہے ہیں۔ ڈالر کی ضرورت ریاست کو ہے۔ سارا بحران ڈالر کی قلت کا ہے۔ ڈالر باہر سے آتا ہے۔ ہمارے محنت کش رات دن کام کرکے بھیجتے ہیں۔ برآمدات سے آتا ہے۔ جب بجلی پانی گیس نہیں ہوگی مصنوعات تیار نہیں ہوں گی تو آپ باہر کے آرڈر کیسے پورے کریں گے۔ اگر آپ اپنی زراعت پر توجہ دیں۔ اپنی فصلیں اچھی اگائیں۔ تو ڈالر ہمارے کھیتوں میں بھی اگ سکتا ہے۔

قرض دینے والے کہتے ہیں کہ پاکستان میں تو دولت کی ریل پیل ہے۔ ایک سے ایک قیمتی گاڑی سڑک پر ہے۔ ایک ایک خاندان کے پاس درجنوں گاڑیوں کا قافلہ ہے۔ کوئی اپنی دولت میں دوسرے کو شریک نہیں کرنا چاہتا۔ اپنی گاڑیوں سے آس پاس کے غریبوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچانا چاہتا۔ کروڑوں روپے کی ان گاڑیوں کی جگہ پبلک بسیں آئیں تو کتنے ہزاروں کے کام آئیں۔ یہی ڈالر جو قیمتی کاروں کی خرید پر باہر جارہے ہیں۔ اگر بڑی بسوں اور ویگنوں پر خرچ ہوں تو پیٹرول بھی بچے اور زر مبادلہ بھی۔اس بجٹ میں بہت سے مشکل فیصلے کیے گئے ہیں۔ ڈالر بچانے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ لیکن گزشتہ چالیس پچاس برس میں جو فضول خرچیاں کی گئی ہیں ۔ قرضے چڑھائے گئے ہیں ان کی تلافی تو اس سے نہیں ہوسکتی۔

پاکستان کو ضرورت ہے۔ ڈالر کی۔ اس کیلئے ڈالر کا غیر ضروری استعمال روکنا ہوگا۔ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اگلے سال ہمیں قرض کا سود ادا کرنے کیلئے ہی 20ارب ڈالر درکار ہونگے۔ یہ اولیں ترجیح ہوگی۔ اسکے بعد آپ کی دفاعی ضروریات اور دوسرے امور۔

ڈالر اگر بے مقصد غیر ملکی سفروں پر خرچ ہوتے رہے۔ یہ ٹھیک ہے جو بھی خرچ کررہا ہے یہ اس کی اپنی جیب سے ہیں لیکن ضرورت تو آپ کو من حیث القوم ہے۔ آپ کے اپنے خاندان میں اگر کوئی ضرورت آپڑے تو بڑے، نوجوان ،بچے سب مل کر اس ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔ باہر سے زیادہ سے زیادہ ڈالر لانے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لاکھوں ڈالر آسکتا ہے۔ اس کے لیے لائسنسنگ آسان کی جائے۔ اس میں رشوت بند کی جائے۔

قوم سادگی۔ کفایت شعاری۔ خود کفالت کی طرف نہیں آرہی۔ حکمرانوں نے قوم کو اتنے دھوکے دیے ہیں کہ لوگ حاکموں کی سچ بات کو بھی جھوٹ ہی سمجھ رہے ہیں۔ کوئی بھی طرز زندگی بدلنے کو تیار نہیں ہے۔ ریاست قرض لیتی ہے تو عوام بھی قرض لیکر شادیاں دھوم دھام سے کرنا چاہتے ہیں۔ ہم مجلسی زندگی کے قائل ہیں۔ اسلئے محفلیں برپا رہتی ہیں۔

فاقہ مستی رنگ لارہی ہے۔ بے بہرہ بہرہ وروں کی دولت پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ بڑے شہروں میں شادی کی بڑی دعوتوں میں بن بلائے ٹولے آنے لگے ہیں۔ جو زبردستی مزے سے کھانا کھاتے ہیں۔ ایک طرف زندگی کی آسانیوں سے محروم۔ دوسری طرف زندگی کی فراوانیوں سے مالا مال۔ یہ فرق اب وارداتیں کروارہا ہے۔

اس سے پیشتر کہ محکوم حاکموں کے محروم بہرہ وروں کے محلات میں گھسنا شروع کریں۔ ریاست کو چاہئے کہ راشننگ شروع کردے۔ 98 فیصد کی ضرورت تو بہت کم ہے۔ انہیں پیٹرول، آٹا، دوسری ضروریات ان کی طلب کے مطابق دے دے۔ اور جن 2فیصد کے پاس ضرورت سے زیادہ ہے۔ ا ن کے استعمال کو محدود کرے۔ تب ہی سماج ایک نظم ، ایک کنٹرول میں آئے گا۔ 2فی صد کی طرز زندگی اگر موجودہ ہی رہی تو محروموں کو قابو میں رکھنا مشکل ہوجائے گا۔

تازہ ترین