• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر:عالیہ کاشف عظیمی

عکّاسی و اہتمام: عرفان نجمی

لے آؤٹ : نوید رشید

والدین…چھے حروف کا مجموعہ ہے اور تعداد کے اعتبار سے دیکھا جائے، تو تین تین حروف مل کر’’ماں‘‘ اور ’’باپ‘‘کے الفاظ مکمل کرتے ہیں۔ جب ان دونوں معتبر رشتوں کے الفاظ کی تعداد یک ساں ہے، تو پھر بھلا کیسے ممکن ہے کہ محبّت و چاہت، ایثار و قربانی جیسے اَن مول جذبوں کا پلڑا متوازن نہ ہو۔ اگر ماں کی محبّت دُعائوں کے سانچے میں ڈھل کر سدا ساتھ رہتی ہے، تو باپ بھی اولاد کو زمانے کے نشیب و فراز سے محفوظ رکھنے میں اپنا پورا جیون تیاگ دیتا ہے۔ 

ایک جگہ پڑھا تھا،’’یہ کیسے ممکن ہے کہ چند الفاظ میں کُل کائنات کو سمیٹ لیا جائے۔باپ کو احساس کے جذبے میں سمیٹیں ،تو محبّت کہاں جائے؟محبّت میں سموئیں، تو احسان کہاں جائے؟احسان کا نام لیں، تو شفقت روٹھ جاتی ہے۔ ہے کوئی ایسا لفظ، جس سے بیان کیا جائے، اُس ہستی کو جو سراپا محبّت ہے،تو رحمت بھی اور محافظ بھی ۔زندگی بھی اور زندگی کی حرارت بھی۔‘‘؎ باپ کی شفقت کا دھارا ،نُور کی صُورت بہا…اُس کی چاہت سے ملی ہے ،زندگانی مجھ کو۔ 

یوں تو اولاد کے لیے ماں ، باپ دونوں ہی کا ہونا بہت ضروری ہے، لیکن دُنیا میں ایسے باپ بھی موجود ہیں، جنہوں نے ناگزیر حالات میں تنِ تنہا بھی اپنے بچّوں کی پرورش کی۔ لوک گلوکار، عارف لوہار کی زندگی کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ وہ اہلیہ کے انتقال کے بعداپنے تینوں بیٹوں کے لیے باپ ہی نہیں،ماں کی بھی ذمّے داریاں نبھا رہے ہیں ۔اور آج وہی ہماری اس ’’فادرز ڈےاسپیشل بزم‘‘کے مہمانِ خصوصی ہیں۔

1970ءمیں پنجاب کے شہر،لالہ موسیٰ میں جنم لینے والے لوک گلوکار،عارف لوہار آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے اور لاڈلے ہیں۔ انہوں نے کم عُمری ہی سے اپنے والد کے مخصوص انداز میں گانا شروع کردیا تھا۔ سات برس کے تھے، تو ایک معروف میوزیکل کمپنی نے ’’عالم لوہار دا پُتّر‘‘ کے نام سے ایک کیسٹ ریلیز کی، جسے خُوب پذیرائی حاصل ہوئی۔ عارف لوہار کاکہنا ہے کہ’’ زندگی کے کسی بھی شعبے میں کام یابی کے لیے والدین کی دُعاؤں کا ساتھ ہونا بہت ضروری ہے۔ جو اولاد، والدین کی خدمت کرکے ان سے دُعائیں لیتی ہے،پھر دُنیا کی کوئی طاقت ان کی کام یابی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ 

سو، میری کام یابی کا راز بھی میرے سوہنے والدین کی دُعائیں ہی ہیں۔‘‘ ’’والد سے متعلق کچھ باتیں، یادیں، ذہن کی اسکرین پر محفوظ ہیں؟‘‘ہم نے پوچھا، تو وہ آب دیدہ ہوگئے،’’ دس برس کی عُمر میں دِل بڑا معصوم سا ہوتا ہے۔ بچّے پر باپ کا پیار برکھا بن کر برستا رہتا ہے اور مَیں نے اس عُمر میں اپنے باپ کو سفید لباس میں دیکھا ،تو بس پھر وہی ایک لمحہ میری زندگی میں رُک سا گیا۔ مَیں جہاں جاؤں، کچھ بھی کروں، اپنے والد کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔ وہ بہت زندہ دِل، ہم درد، محبّت کرنے والے، بڑے شفیق، مہربان انسان تھے۔ ہم سب ایک بڑی سی حویلی میں رہتے تھے۔ گھر کاماحول دیسی تھا ،جہاں روایات کی پاس داری کی جاتی۔ 

چوں کہ ابّو وقت کے پابند تھے، تو ہم سب بہن بھائیوں کا مزاج بھی ایسا ہی ہے۔ مجھے یاد ہے، ہم سب کیسے روز صُبح لائن میں کھڑے ہو کر ٹوتھ برش کے لیے اپنی اپنی باری کا انتظار کرتے تھے۔ اگر کسی بہن، بھائی کی فجر کی نماز قضا ہوجاتی ،تو اُسے بطور سزا پورا دِن گھر کا کام کرنا پڑتا۔ مَیں ابّو کا نالائق، مگر بہت چہیتا بیٹا تھا، تو جب مجھے سزا ملتی، پورا دِن بہن بھائی خُوب مذاق اُڑاتے، جب کہ خود ابّو کے بھی چہرے پر ایک مُسکراہٹ سجی رہتی۔‘‘ ’’باپ، بیٹے کے خُوب صُورت رشتے سے متعلق کیا کہیں گے؟‘‘اس سوال کے جواب میں گہری سانس لیتے ہوئے کہا،’’اس دُنیا میں اگر کوئی آپ کابہترین دوست ہے، تو وہ آپ کا باپ ہی ہے۔ 

میرا ماننا ہے، جو اولاد، باپ کو اپنا دوست بنالیتی ہے، وہ ایک صدی کو دوست بنالیتی ہے۔ کیوں کہ والد کی صُورت میں ایک مخلص دوست ہی نہیں، صدی بَھر کا تجربہ بھی مل جاتا ہے۔‘‘ ’’اس فیلڈ سے خود وابستہ ہوئے یا والد کی خواہش تھی ؟‘‘ اس سوال پرعارف لوہار نے بتایا ’’ابّونے ہمیں کبھی بھی موسیقی کی طرف راغب نہیں کیا۔ وہ اکثر کہتے تھے کہ یہ خدادا صلاحیت ہے، جو خودحاصل نہیں کی جاسکتی، لہٰذا جب مَیں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا، تو انہوں نے یہ کہہ کرسختی سے منع کردیا،’’عارفی! تم وَرثے میں فقیری مانگ رہے ہو۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے، جس میں مزاج کے برعکس کام کرنا پڑتا ہے۔‘‘ بہرحال، کچھ عرصے بعد میری لگن ،تڑپ دیکھ کر ابّو مان گئے اور پھر مَیں بھی اپنے رول ماڈل کے رنگ میں ڈھلتا چلا گیا۔ میرے والد میرا اوڑھنا بچھونا تھے۔ مَیں نے ہمیشہ یہی کوشش کی کہ مَیں کچھ ایسا نہ کروں، جس سے میرے باپ کی عزّت پر کوئی آنچ آئے۔ اور اب مجھے لگتا ہے کہ میرے بیٹے، میرے بازو بھی اسی میراث کو آگے لے کر جائیں گے۔‘‘

’’خود باپ بننے کا تجربہ کیسا رہا؟‘‘ ہمارا اگلا سوال تھا۔ ’’علی کو گود میں لیتے ہی مجھے ایسا لگا، جیسے میری دُنیا ہی بدل گئی ہو(عارف لوہار نے ایک جذب کے عالم میں کہنا شروع کیا)تب مجھے اپنے والد کی محبّت کا اور بھی شدّت سے احساس ہوا۔ پھر مَیں نے اُن ہی کی طرح اپنی انگلی پر شہد لگا کر بچّے کو چٹایا، تاکہ جو محبّت میرے والد نے مجھ میں انڈیلی، وہ مَیں اپنے بچّے میں منتقل کرسکوں۔ میرے بڑے بیٹے کا نام علی لوہار، منجھلے کا عامر لوہار اور چھوٹے کا عالم لوہار( جونیئر) ہے۔ یہ تینوں میرے زندگی کے تین پہر ہیں۔وہ اس طرح کہ بڑا بیٹا میری ذہانت، منجھلا معصومیت اور تیسرا میری شوخی و چلبلے پَن کا پہر ہے۔

مَیں اپنے باپ کا عکس ہوں اور یہ اپنے دادا اور باپ دونوں ہی کا پَرتو ہیں۔میرے والد اکثر جذباتی ہوکر رو پڑتے تھے، تو ان کی یہ عادت تیسری نسل میں بھی موجود ہے۔‘‘’’بحیثیت باپ، اہلیہ کے انتقال سے قبل اور اب ،آپ کی اپنے بچّوں سے بانڈنگ کیسی ہے‘‘؟ ہم نے پوچھا تو عارف لوہار بولے،’’اہلیہ کے انتقال سے پہلے بھی مَیں اپنے بچّوں کا بہترین دوست تھا اور اب تو مَیں ہی مَیں ہوں۔ اہلیہ کے انتقال کے بعد سے مَیں نے آج تک کبھی بچّوں کو اکیلا نہیں چھوڑا، حتیٰ کہ کہیں پرفارمینس کے لیے بھی جانا ہو تو تینوں کو ساتھ لے کے جاتا ہوں۔‘‘ ’’آپ کے تین بیٹے ہیں، تو کبھی بیٹی کی کمی محسوس ہوئی؟‘‘

اس سوال پر اِک سرد آہ بَھر کے بولے،’’ہاں جی، بیٹی کی کمی تو بہت شدّت سے محسوس ہوتی ہے کہ بیٹیوں ہی کے دَم سے تو گھر میں رونق میلا ہوتا ہے، مگر مَیں ربّ کی رضا میں راضی ہوں۔ ویسے میرے بیٹے، میرے شہزادے ہیں۔ مجھ سے بڑا لاڈ کرتے ہیں۔ اپنی کوئی بات منوانی ہو، تو بڑی جپھیاں ڈالتے ہیں۔ آکر لپٹ جاتے ہیں۔ تینوں اپنی جگہ کمال ہیں۔ فنِ گائیکی میں تینوں طاق ہیں، تو بڑے کو ڈاکٹر، درمیانے کو آئی ٹی انجنیئر اور چھوٹے کو بزنس مین بننے کا شوق ہے۔ یہ چھوٹا تو اکثر مجھ سے کہتا ہے،’’پا جی! اَسی دوویں مِل کے مٹّی دے کھڈونے بنان دا بزنس کراں گے۔‘‘’’کبھی کبھی ماں کی کمی پوری کرتے کرتے، باپ کی جگہ خالی رہ جاتی ہے،تو آپ بیک وقت دونوں رشتے کیسے نبھا رہے ہیں؟‘‘

ہمارے اس سوال پرعارف نے گلوگیر آواز میں کہا، ’’میرا اور اہلیہ کا ساتھ 16 برس رہا۔ اس دوران وہ بہت غیر محسوس طریقے سے مجھے بچّوں کی تربیت اوران کی دیکھ بھال سمیت کئی معاملات کے لیے ٹرینڈ کررہی تھیں۔ بخدا! اب مجھے اپنے اندر ایک ماں جیسی تڑپ محسوس ہوتی ہے۔ شاید اس لیے بچّے بھی کہتے ہیں، ’’پاجی! اب آپ ہماری ممّا بھی بن گئے ہیں۔‘‘ ہم چاروں ساتھ ہوتے ہیں، توسب ایک دوسرے کا مرہم بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ‘‘’’کیا اولاد کی تعلیم و تربیت کے معاملے میں سختی کرنے، کڑی نگاہ رکھنے کے حامی ہیں؟‘‘ہم نے سوال کیا، تو بولے’’نہیں، مَیں بس اپنے بچّوں کو مثبت ، منفی دونوںراستے بتا دیتا ہوں، فیصلہ وہ خود کرتے ہیں۔

حالاں کہ میرا ماننا ہے کہ والدین کی طرف سے ملنے والا اصلاح کا سبق، زمانے کے سبق سے کہیں بہتر ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے، مَیں جب پہلی بار اسکول گیا، تو میرے استاد نے مجھے کھڑا کرکے پوچھا، ’’کس کے بیٹے ہو؟‘علم ہونے پر وہ ابّو سے ملنے گھرآئے اور کہا، ’’آپ کا بیٹا بہت تابع دار، فرماں بردار ہے۔‘‘ سو، میری بَھرپور کوشش ہے کہ میرے باپ نے جو میری تربیت کی، اُسی کی جھلک میری اولاد میں بھی نظر آئے۔ مَیں اپنے بیٹوں کے ساتھ فٹ بال ،کرکٹ کھیلتا ہوں۔ دوڑیں لگاتا ہوں اور کئی بار جان بوجھ کر ہار بھی جاتا ہوں۔میرے بچّے رات نو بجے کے بعد موبائل فون استعمال نہیں کرتے، ہم ساتھ بیٹھ کر خُوب باتیں کرتے ہیں،لاڈ، موج مستیاں کرتے ہیں۔ بعض اوقات کوئی فلم بھی دیکھ لیتے ہیں۔ ‘‘

’’گزشتہ دِنوں آپ کی اپنے بیٹے کے ساتھ ایک ویڈیو وائرل ہوئی، اس حوالے سے بھی کچھ بتائیں؟‘‘ اس سوال پر قہقہہ لگاتے ہوئے کہا،’’اصل میں مَیں ریاض کررہا تھا کہ اچانک ہی چھوٹا بیٹا میرے مخصوص انداز میں فن کا مظاہرہ کرنے لگا۔ وہ چند لمحات اس قدر خُوب صُورت تھے کہ اِدھر ویڈیو اَپ لوڈ کی، اُدھر وائرل ہوگئی۔ پھر بچّوں نے یوٹیوب پر ’’لوہار بوائز آفیشل‘‘ کے نام سے ایک چینل بھی بنایا ہوا ہے۔ میرے بچّوں کو ویورز یا فالورز کا لالچ نہیں، بس وہ چاہتے ہیں کہ اس پلیٹ فارم سے معاشرے میں والدین کی عزّت و احترام کے جذبات فروغ پائیں اور اس مقصد کے لیے وہ اپنی ہر ویڈیو کے آخر میں والدین سے متعلق ایک پیغام بھی لازماً دیتے ہیں۔‘‘

شُوٹ کے موقعے پر تینوں بیٹے بھی والد سے متعلق اپنے احساسات و جذبات کے اظہار کے لیے بار بار پہلو بدل رہے تھے۔ہم نے اُن سے والد سے اُن کے تعلق کے متعلق پوچھا، تو سب سے چھوٹے بیٹےعالم لوہار(جونئیر) نے چہکتے ہوئے کہا،’’میرے پاپا میرے رول ماڈل ہیں۔ مَیں چاہتا ہوں کہ مَیں بالکل اپنے پاپا جیسا بن جاؤں۔اس لیے مَیں ہروقت اُن کے ساتھ رہتا ہوں،حتیٰ کہ ممّا کے جانے بعد سے تو سوتا بھی اُن ہی کے ساتھ ہوں۔وہ مجھے میری پسند کی شاپنگ کرواتے ہیں۔

مَیں جب پاپا کو جپھی ڈالتا ہوں، تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں اور اُنہیں یوں ہنستا دیکھ کر مَیں دِل ہی دِل میں اُن کی لمبی عُمر کی دُعا کرتا ہوں۔‘‘ابھی عالم ایک لمحہ سانس لینے کو رُکے ہی تھے کہ جھٹ عامر نے لقمہ دیا،’’ہم جب پاپا کو اُداس دیکھتے ہیں ناں، تو اُن کا دِل بہلانے کےلیے خُوب مستیاں کرتے ہیں اور پاپا کی تو آنکھوں میں ہمارے لیے اتنا پیار ہوتا ہے کہ ہمارا توہر دِن فادرز ڈے ہی کی طرح گزرتا ہے۔‘‘ بڑے بیٹے علی نے پاپا سے متعلق اپنے خیالات شیئر کرتے ہوئے کہا،’’پاپا ہم تینوں کے بیسٹ فرینڈ ہیں۔

ممّا کے انتقال پر انہوں نے ہمیں ایک نصیحت کی تھی کہ ممّا کے چلے جانے کو اپنی کم زوری نہیں بنانا۔ تو اب ہم اپنے پاپا کا مضبوط کاندھا بن گئے ہیں۔ وہ بھی ہمارا بہت خیال رکھتے ہیں اور زندگی کے ہر ہر معاملے میں باپ ہی نہیں، ماں بن کر بھی ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ جیسے مجھے ’’لوہار بوائز آفیشل‘‘ بنانے کا خیال آیا، تو پاپا نے ماں کی طرح بلائیں لیتے ہوئے سراہا اور باپ بن کر سپورٹ بھی کیا۔ اور تو اور، پاپا نے مجھے اپنا اے ٹی ایم کارڈ بھی دیا ہوا ہے، جسے مَیں اپنے یا بھائیوں کے لیے نہیں، بلکہ گھر کے سامان کی خریداری کے لیے استعمال کرتا ہوں۔ تو پاپا کا یہ اعتماد ہی دراصل ہم تینوں کی زندگی کا حاصل ہے ۔‘‘

سنڈے میگزین سے مزید