کراچی (نیوز ڈیسک) عالمی سطح پر اسٹاک مارکیٹوں میں شدید مندی کا رجحان ، امریکا ، یورپ اور بھارت کی اسٹاک مارکیٹس گرگئیں۔
امریکا کی جانب سے ممکنہ شرح سود میں اضافے پر تشویش کے باعث بھارتی روپیہ بھی ڈالر کے مقابلے میں ریکارڈ کم ترین سطح پر آگیا ہے۔
دریں اثناء بٹ کوائن کی قیمت 18 ماہ کی کم ترین سطح پر آگئی ہے اور یہ 10 فیصد کمی کے ساتھ23 ہزار 794 ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق، عالمی سطح پر اسٹاک مارکیٹوں میں مندی کا رجحان ہے، گزشتہ روز امریکی اسٹاک مارکیٹ اپنے ریکارڈ سے 20 فیصد سے زائد نیچے چلی گئی۔جس کی وجہ رواں ہفتے متوقع سخت زری پالیسی اور جاری مہنگائی ہے۔ جب کہ الائنس کے چیف اکنامک ایڈوائزر محمد ال ایرین نے خبردار کیا ہے کہ مہنگائی میں مزید شدت آسکتی ہے۔
ایک ٹی وی پروگرام میں ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر امید تھی کہ یہ عارضی ہوگی۔ تاہم، ان کا کہنا تھاکہ اگر مہنگائی کی موجودہ شرح برقرار رہی تو امریکا میں مہنگائی 9 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔
جمعے کے روز امریکا کے بیورو آف لیبر اسٹیٹسٹکس کے جاری اعدادوشمار میں کہا گیا ہے کہ سالانہ شرح مہنگائی مئی کے وسط میں 8.6 فیصد تک پہنچ چکی تھی۔
جاری رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ کی شرح مہنگائی دسمبر 1981 کے بعد 12 ماہ کی بلند ترین سطح پر تھی۔ اس مہنگائی سے تمام امریکی بالخصوص نچلا طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے۔
دریں اثناء مہنگائی کے سبب یورپ کے اسٹاکس بھی 3 ماہ کی کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ بنیادی طور پر اس کی وجہ امریکی فیڈرل ریزرو کی جانب سے شرح سود میں اضافے سے متعلق بڑھتی تشویش تھی۔ پین یورپی اسٹاکس 600 انڈیکس میں 1.9 فیصد کمی دیکھی گئی جو کہ 8 مارچ کے بعد کم ترین سطح ہے۔
رواں ہفتے امریکا کی جانب سے افراط زر پر قابو پانے کے لیے شرح سود میں متوقع اضافے سے بھارتی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں ریکارڈ کم ترین سطح پر آگیا جبکہ بینچ مارک این ایس سی نفٹی 50 انڈیکس دو فیصد سے زیادہ تک گر گیا ہے۔
بھارتی روپیہ پہلی بار 78.28 فی ڈالر تک پہنچ گیا ہے کیونکہ جمعہ کو امریکی افراط زر سے متعلق پیش گوئیوں کو ناکام بناتی رپورٹ نے فیڈرل ریزرو کی جانب سے مانیٹری پالیسی کو مزید سخت کرنے کے امکانات بڑھا دیے ہیں۔
تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، ایف ای ڈی میں شدت اور ابھرتی ہوئی منڈیوں میں سرمائے کے اخراج کی وجہ سے بھارتی کرنسی میں گراوٹ ہوئی ہے، کیونکہ غیر ملکی سرمایہ کار ایسی صورتحال میں خطرے سے گریز کر رہے ہیں۔ مرکزی بینکوں، بشمول بھارتی بینک نے حالیہ مہینوں میں زیادہ سخت پالیسیاں اپنائی ہیں، ریزرو بینک نے گزشتہ ہفتے قرض لینے کی لاگت میں کئی مہینوں میں دوسری بار 50 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا تھا۔
آر بی آئی نے اس سے قبل مئی میں آؤٹ آف سائیکل 0.4 فیصد شرح میں اضافے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم اپنی کرنسی کو مستحکم کرنے یا قدر میں اضافہ کرنے کے لیے بھارت کا مرکزی بینک بھی غیر ملکی کرنسی فروخت کر رہا ہے۔
بینچ مارک 10 سالہ بانڈ کی پیداوار 7.61 فیصد تک جانے کے بعد 7.59 فیصد پر ٹریڈ کر رہی تھی جو کہ 28 فروری 2019 کے بعد اپنی بلند ترین سطح پر ہے، 10 سالہ بانڈ کی پیداوار جمعہ کو 7.52 فیصد پر بند ہوئی۔
یوکرین میں جاری جنگ کے نتیجے میں بھارت میں بھی افراط زر بڑھی ہے جس نے جنوری سے اپریل تک بھارتی مرکزی بینک کے 2 سے 6 فیصد ہدف کی حد کو بھی پار کرلیا ہے اور اپریل میں 7.79 فیصد کے ساتھ 8 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی جس کی وجہ سے خوراک اور ایندھن کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔
مئی میں حکومت نے قیمتوں پر قابو پانے کے لیے گندم کی برآمدات پر پابندی لگا دی جس کی پیداوار گرمی کی شدید لہر کی وجہ سے پہلے ہی بہت متاثر ہوئی ہے۔نہ صرف یہ بلکہ چینی کی برآمدات کو بھی سپلائی محفوط بنانے کے لیے محدود کردیا گیا تھا جبکہ حکومت نے ایندھن اور خوردنی تیل پر ڈیوٹی ٹیکس کم کردیا تھا۔
پیر کو بھارتی شیئر 2.5 فیصد تک گر گئے کیونکہ امریکی افراط زر کے اعداد و شمار اور بیجنگ کی جانب سے کووڈ 19 کی وارننگ نے عالمی منڈیوں میں گرما گرمی پیدا کردی ہے، ایشیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت کے تاجر مئی کے کنزیومر پرائس ڈیٹا کا انتظار کر رہے ہیں۔
این اسی ای نفٹی 50 انڈیکس 2.5 فیصد گر کر تمام اجزا کم ٹریڈنگ کے ساتھ 0509 ایم جی ٹی تک 15 ہزار 785 پر پہنچ گیا تھا، اس سے پہلے سیشن میں یہ 2.8 فیصد تک گر کر چار ہفتے کی کم ترین سطح پر آگیا تھا اور ایس اینڈ پی بی ایس ای سینسیکس 2.6 فیصد کم ہوکر 52 ہزار 874 پر آگیا۔
ایس ایم سی گلوبل سیکیورٹیز کے اسسٹنٹ نائب صدر سوربھ جین نے کہا کہ مہنگائی میں اضافہ حقیقی ہے اور امریکی کمپنیوں کی حالیہ کمائیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس بلند افراط زر کے دباؤ کو عبور کرنا مشکل ہو گیا ہے، جبکہ سرمایہ کاروں کو خدشہ ہے کہ ہم کساد بازاری کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
تاہم سب کی نظریں اب بھارت کے ریٹیل افراط زر کے اعداد و شمار پر ہیں جو بعد میں ظاہر کیے جائیں گے۔ مئی میں کنزیومر پرائس انڈیکس معمولی طور پر کم ہوا لیکن مسلسل پانچویں مہینے تک ریزرو بینک آف انڈیا کی برداشت کی حد سے اوپر رہا۔
ایشیائی اسٹاک اس خوف سے نیچے آگیا ہے کہ امریکی فیڈرل ریزرو مزید جارحانہ انداز میں اپنی پالیسی کو سخت کرے گا کیوں کہ گزشتہ ہفتے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کنزیومر پرائس انڈیکس گزشتہ ماہ 40 برس کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔
دوسری جانب سرمایہ کاروں کے خدشات میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب بیجنگ کے سب سے زیادہ آبادی والے ضلع چاویانگ نے اتوار کے روز کووڈ 19 کے شدت سے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بڑے پیمانے پر ٹیسٹوں کے تین مراحل کا اعلان کیا۔
انفوسس لمیٹڈ اور ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز دونوں میں 3.3 فیصد کمی کے ساتھ آئی ٹی اسٹاک نے نفٹی 50 کو نیچے کردیا ہے جبکہ نفٹی آئی ٹی انڈیکس میں 3.4 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔
بٹ کوائن کی قیمت 25 ہزار ڈالر سے کم ہو کر 18 ماہ کی کم ترین سطح پر آگئی جب کہ کرپٹو کرنسی کے ریکارڈ بلند ہونے کے مہینوں بعد سرمایہ کاروں نے عالمی منڈیوں میں فروخت کے غیر یقینی اور خطرناک رجحان کے باعث ایسے اثاثوں میں سرمایہ کاری سے گریز کیا جن میں ʼرسک فیکٹرʼ زیادہ ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق، یونٹ کو اس خبر سے بھی زبردست دھچکا لگا کہ کرپٹو کرنسی کو قرض دینے والے پلیٹ فارم سیلسیس نیٹ ورک نے غیر مستحکم معاشی حالات کا حوالہ دیتے ہوئے رقم نکالنے کے عمل کو روک دیا ہے۔
جمعے کے روز سے عالمی اسٹاک مارکیٹوں میں شدید مندی کا رجحان دیکھا گیا جب کہ تازہ اعداد و شمار سے امریکی افراط زر 4 دہائیوں کی بلند ترین سطح پر نظر آئی، جس سے ملک میں شدید معاشی بحران کے خدشات میں اضافہ ہوا جس کے بعد سرمایہ کاروں نے ڈالر جیسے محفوظ اثاثوں میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا۔