• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج ساؤتھ افریقہ میں نیشنل یوتھ ڈے منایا جا رہا ہے۔سائوتھ افریقہ کے باسی ہر سال اس دن کو اس لازوال تحریک کی یاد میں مناتے ہیں جب 1976 میں سیاہ فام نوجوانوں نے اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے ہوئے سفید سامراج کی حکومتی پالیسیوں کے خلاف پر امن احتجاج کا آغاز کیا تھا۔ سائوتھ افریقہ میں یورپی سامراج کی نسل پرستی کی بنیاد پر تشکیل دی گئی پالیسیوں کے خلاف سیاہ فام افریقن باشندے پہلے ہی تحفظات کا شکار تھے، مگر جب اس نسل پرستی کو قانونی حیثیت دے کر تعلیمی پالیسی بناکر نافذ کرنے کی کوشش کی جانے لگی تو سیاہ فام ا سکول کے نوجوانوں نے ایک تاریخی جدوجہد کا آغاز کیا ۔ بلاشبہ اس تحریک اور جدوجہد کی کامیابی کے لئے ان گنت قربانیاں پیش کی گئیں۔آخرکار صدیوں کی جدوجہد کے بعد 1990 میں نسل پرستی کا اختتام ہوا اور 1994میں سائوتھ افریقہ میں پہلی جمہوری حکومت وجود میں آئی۔ہرسال کی طرح جنوبی افریقی حکومت نے 16جون کو منشیات سے پاک سائوتھ افریقہ اور یوتھ کی ڈویلپمنٹ کیلئے مشترکہ کاوشیں کے عنوان کے ساتھ منانے کا فیصلہ کیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ سائوتھ افریقہ کا تذکرہ نیلسن منڈیلا کے بغیر ادھورا ہے۔ افریقہ کے اس عظیم لیڈر کا نام بعد از مرگ بھی دنیا بھر میں بہت ادب اور احترام سے لیا جاتا ہے۔ سائوتھ افریقہ کے مقامی باشندوں نے اقلیتی سفید فام حکمرانوں کے خلاف نیلسن منڈیلا کی قیادت میں جوامن جدوجہد جاری رکھی، اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ نیلسن منڈیلا دانشور ، انقلابی اور وژنری لیڈر تھے۔ ان کو پتہ تھا کہ نوجوان کسی بھی قوم کا وہ سرمایہ ہوتے ہیں، جن پر انویسٹ کیا جائے تو فائد ہ پورے ملک و قوم کو ہی ہوگا، یہ ان کی دور اندیشی کا منہ بولتا ثبوت تھا کہ اقتدار کے منصب پر فائز ہوتے ہی نوجوانوں کی فلاح و بہبود پر بھرپور توجہ دی ۔ نیلسن منڈیلا ساری عمر جن لوگوں کے خلاف جدوجہد کرتے رہے،وہ بھی ان کی قائدانہ صلاحیتوں کے قدر دان تھے اوران کا نام عزت و احترام سےلینے پر مجبور ہوگئے۔ میں سمجھتا ہوں ، دنیا میں شاید ہی کو ئی ایسا انسان ہو گا جو نیلسن منڈیلا کے بارے میں منفی رائے رکھتا ہو۔ میری معلومات کے مطابق ریاست مدینہ میں نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت پر بہت زیادہ توجہ دی گئی۔ تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اتنی سی ایک بات سے لگا لیں کہ غزوہِ بدر کے بعد مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی اورقریشِ مکہ کے لوگ ان کے قیدی بنے تو پیغمبر اسلامﷺ نے ان کو پیشکش کی کہ اگر وہ دس مسلمان بچوں کو تعلیم دیں گے تو ان کو آزاد کر دیا جائے گا۔ آزادی کے حصول کیلئے قیدیوں نے بچوں کوجدید تعلیم سے آراستہ کیا ۔پاکستان کے بعد آزاد ہونے والے ممالک بشمول سائوتھ کوریا، سائوتھ افریقہ، کئی یورپی ممالک جو کسی زمانے میں جنگ و جدل میں مصروف تھے اور وہاں کے نوجوان اپنے مسقبل سے بالکل مایوس تھے، جن کا تشدد، نفرت اور انتقام کے سوا کوئی مقصد حیات نہیں تھا، لیکن آج انہی ممالک کے سربراہان اور وہاں کے رہنماؤں نے اس نکتہ پر اتفاق کیا کہ نوجوانوں کا مستقبل روشن بناناہماری ملکی ترقی و خوشحالی کیلئے ناگزیر ہے ،اس لئے انہوں نے اپنے نوجوانوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹھوس پالیسیاں بنائیں جن کے بعدنوجوان نسل نے آگے بڑھ کر ملک و قوم کی قیادت بھی کی اور ملکی ترقی میں اپنا حصہ بھی ڈالا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی بدنصیبی ہے کہ ہمارےنوجوانوں کو رہنمائی حاصل نہیں ہے،ہر نوجوان مستقبل سے مایوس اور ملک چھوڑ کرباہر نقل مکانی کرنا چاہتا ہے۔افسوس کہ پاکستان میں کوئی بھی یوتھ کو نہ تو اہمیت دیتا ہے اور نہ ہی ان کے مسائل کوحل کرنا چاہتا ہے ، ہر سیاسی جماعت ان طاقت کو صرف اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنا چاہتی ہے اور اپنا مقصد نکل جانے کے بعد ان کو بے آسرا چھوڑ دیتی ہے۔آج ہمارے نوجوانوں کو ہر طرف سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ وقت آگیا ہے کہ ہمارے حکمراں نوجوانوں کے حوالے سے ٹھوس پالیسی بنائیں، اگر وہ ملک و قوم کی بہتری کیلئے سنجیدہ ہیں تو نیلسن مینڈیلا کا وژن مدنظر رکھیں، ریاست مدینہ کے اصل تصور کو سمجھیں اور دنیا کے ان عظیم معاشروں کا مطالعہ کریں جو آج ہر شعبہ زندگی میں رول ماڈل بن چکے ہیں۔ اگر ہمیں پاکستان کو ایشیئن ٹائیگر بنانا ہے تو ہمیں اپنے نوجوانوں کی آواز کو سننا ہوگا، ان کو استحصال سے بچانا ہوگا، انہیں دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق جدید تعلیم فراہم کرنا ہوگی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین