• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری زندگی میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو یک بہ یک سب کچھ بدل کر رکھ دیتے ہیں اور ہم سوچتے رہ جاتے ہیں کہ ایسا کیسے ممکن ہوا؟ ایک دن میں اپنے کالج کی ایڈمشن کمیٹی کے روبرو حاضر ہوا تو وہاں ایک خاتون اپنےبیٹے کے داخلے کے لئے فیس معاف یا نصف کرانے کی درخواست کرتی نظر آئیں۔ میری جیب میں کچھ رقم موجود تھی۔ مہینے کے آخری دن تھے لیکن میں نے جیب سے پیسے نکالے اور اس خاتون کے بیٹے کی آدھی فیس ایڈمشن کمیٹی کے حوالے کردی۔میں وہاں سے اٹھا تو میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف پاکستان رائٹرز گلڈ کے آفس انچارج ظفر صاحب تھے۔ بولے: ’’آپ کی کتاب ’’پہلی پیشی‘‘ کو ہماری جیوری نے اس سال کی بہترین کتاب قرار دیا ہے۔ اپنی سند اور نقد انعام کی رقم آپ جب چاہیں ہمارے دفتر سے آ کر وصول کرسکتے ہیں‘‘۔بے شک اچھی نیت آپ کو پھل دار درخت بنا دیتی ہے۔ آپ ایک چھوٹا سا بیج بوتے ہیں اور ہزاروں شیریں پھل پاتے ہیں۔ ایک بار مہینے کی انتیس تاریخ کو میری جیب میں صرف پندرہ سو روپے تھے۔ سردی کے دن تھے میرے والد گرامی نے کہا کہ آج تلی ہوئی مچھلی کھانے کو جی چاہ رہا ہے۔ میں نے گاڑی نکالی اور والد گرامی کو لے کر ایک مشہور مچھلی فروش کی دکان پر جا پہنچا۔ گرما گرم اور لذیذ مچھلی کھانے کے بعد بل کے ایک ہزار بیس روپے ادا کئے اور گھر کی طرف چل پڑا۔ اچانک میرا فون بجا دوسری طرف میرے ایک دیرینہ مہربان تھے۔ میں نے کسی زمانے میں ان کے ادارے کے لئے ایک کتاب لکھی تھی۔ کہنے لگے ’’آپ ابھی میرے پاس آ جائیں، آپ کی ایک امانت آپ کے حوالے کرنی ہے‘‘۔ میں ان کے پاس جا پہنچا۔ انہوں نے نوٹوں کی ایک گڈی مجھے تھمائی اور بولے یہ ایک لاکھ روپے ہیں۔ میں نے دو ہزار روپے واپس کرنا چاہے تو بولے کہ یہ بھی آپ ہی رکھیے۔ میں قدرت کی فیاضی پر حیران تھا کہ ایک ہزار بیس روپے کے بدلے میں مجھے پورے ایک لاکھ دو ہزار روپے عطا کردیئے ۔

اسی طرح کا ایک واقعہ حج اور عمرے کا کاروبار خدمت سمجھ کر کرنے والے میرے دوست احسان اللہ چوہدری نے سنایا تھا۔ انہی کی زبانی سنیے:’’میں ان دنوں جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر منصورہ میں ایک معمولی سا کیشیئر تھا تنخواہ بہت کم تھی ۔ ان دنوں منصورہ میں ملازمت کرنے والے عملے میں سے چند لوگوں کو ہر سال قرعہ اندازی کے ذریعے حج پربھیجا جاتاتھا۔ جس کا نام نکلتا اسے زاد ِراہ کے ساتھ ساتھ ایک اضافی تنخواہ بھی دی جاتی تھی۔ ایک بار منصورہ کے مرکزی دروازے پر تعینات ایک سکیورٹی گارڈ کا نام حج کے لئے نکل آیا۔ اسے زادِ راہ اور اضافی تنخواہ دی گئی۔ اس نے مجھ سے درخواست کی کہ اسے دو مزید تنخواہیں ایڈوانس کے طور پر دے دی جائیں۔ یہ میرے لئے ممکن نہ تھا لیکن وہ دو تین دن مسلسل میرے پاس آتا رہا۔میں نے اس کی مالی حالت پیش نظر رکھتے ہوئے اسے دو تنخواہیں پیشگی دے دیں۔ وہ رقم لے کر مجھے دعائیں دیتے ہوئے چلاگیا۔ حج سے واپس آیا تو کھجوریں اور آب زم زم لے کر میرے پاس آیا۔ اس نے کہا کہ میں اس سے زیادہ آپ کے لئے کچھ نہیں لا سکا۔ البتہ خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ میں آپ کے لئے ہر روز دعا مانگتا رہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کوبھی حج کے لئے بلائے۔ انہی دنوں میں نے منصورہ کی نوکری چھوڑ دی اور حج عمرے کا کام شروع کردیا۔ اس سکیورٹی گارڈ کی دعا مجھے ایسی لگی کہ میں پچھلے بیس برس سے مسلسل حج کررہا ہوں۔‘‘۔

پچھلے چند روز میں ایک خبر اخبارات میں بار بار چھپی کہ موجودہ حکومت کے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور مفتی عبدالشکور اس سال اپنے ساتھ تقریباً دو سو افراد کو حج پر لے جا رہے ہیں۔ مفتی صاحب کے بارے میں پتا چلا ہے کہ چارسدہ کی ایک مسجد کے امام ہیں۔ اردو انہیں اتنی ہی آتی ہے جتنی اداکارہ میرا کو انگریزی آتی ہے۔ وہ مسلسل وضاحتیں دے رہے ہیں کہ وہ اپنے کسی چہیتے کو اپنے ساتھ نہیں لے جا رہے ہیں۔ پاکستان سے ہر سال ہزاروں حاجی سعودی عرب جاتے ہیں۔ ان کی دیکھ بھال اور رہنمائی کے لئے حج کے دنوں میں مکہ مکرمہ میں ’’پاکستان حج مشن‘‘ کے نام سے ایک ادارہ عارضی طور پر قائم کیا جاتا ہے۔ اسی طرح مدینہ منورہ میں ’’پاکستان ہائوس‘‘ کے نام سے حاجیوں کے لئے ایک ادارہ بنایا جاتا ہے۔ ان دونوں اداروں میں وزارت مذہبی امور کے علاوہ ملک بھر کے فوجی اور سویلین ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ پیرا میڈیکل اسٹاف بھی تعینات ہوتا ہے انہیں خدام الحجاج کہتے ہیں۔ اگر یہ لوگ وہاں نہ ہوں تو ہمارے عازمین حج بے یارو مدد گار رہ جائیں۔ یہ دونوں ادارے حاجیوں کا گم شدہ سامان تلاش کرتے ہیں۔ بھٹک جانے والے حجاج کرام کو ان کے ہوٹلوں تک پہنچاتے ہیں۔ بیمار پڑ جانے والوں کا علاج کرتے ہیں اور مفت دوائیں فراہم کرتے ہیں۔ پرائیویٹ حج کرانے والے ادارے بھی اپنے طور پر بہت سےتجربہ کار لوگوں کو عازمین حج کی خدمت کیلئے لے کر جاتے ہیں۔ خود میں بھی اسی طرح حج کرنے گیا تھا۔ خدمت کی خدمت اور عبادت کی عبادت۔ لیکن یہ بات پوچھے بغیر میں نہیں رہ سکتا کہ اگر حج آپ کی شخصیت، اخلاق اور معاشرتی رویوں کو تبدیل نہیں کرتا توکیا یہ مہنگی نیکی ثمر بار ہوئی؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین