• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے ہاتھوں مسلم لیگ ن کی بری طرح شکست کے فوراً بعد سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا ۔ فاضل عدالت نے ڈپٹی ا سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کو’’غیر قانونی اور کالعدم‘‘ قراردے دیا کیوں کہ اس کا کوئی ’’قانونی اور آئینی جواز ‘‘ موجود نہیں ۔یوں حمزہ شہباز اور ان کی غیر قانونی اورناقابل قبول کابینہ کو ہٹا کر پرویز الٰہی کو ’’قانونی طورپر منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب‘‘ قرار دے دیا ۔ یہ صورت حال ن لیگ کیلئےکسی ڈرائونے خواب سے کم نہیں ۔ اس کے ساتھ ہی ملک کا تمام سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوگیا۔ اب موجودہ وفاقی حکومت کا اختیار سمٹ کر اپنی انا اور اسلام آباد کے چند ایک سیکٹروں تک محدود ہوچکا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں چیف سیکرٹری پنجاب کو ’’ پرویز الٰہی کو صوبے کامنتخب وزیر اعلیٰ‘‘ قرار دینے کا نوٹی فیکیشن فوری طور پر جاری کرنے کا حکم دیا۔عدالت عالیہ کا حکم کہتا ہے کہ حمزہ شہباز ’’منتخب وزیر اعلیٰ نہیں ، ان کی وزارت اعلیٰ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ۔‘‘ اسی طرح ’’تمام افعال، کام اور دیگر امور بشمول ان کی تقرری،ان کی تجویز پر کابینہ کی تشکیل اور حلف برداری بھی کالعدم قرار دی جاتی ہے ۔ ‘‘تاخیر یا تذبذب کے امکانات ختم کرتے ہوئے عدالت گورنر پنجاب کو ہدایت کرتی ہے کہ ’’ آئین اور قانون کے تحت وزیر اعلیٰ پنجاب کی حلف برداری کا اہتمام کیا جائے جس میں آج رات ساڑھے گیارہ بجے (چھبیس جولائی2022) سے زیادہ تاخیر نہ ہو۔‘‘

اس کیس کے پیچھے کھڑی مسلم لیگ ن اور اس کی قیادت مع تمام اتحادی پارٹیوں کیلئے سپریم کورٹ بنچ کا جاری کردہ مختصر حکم نامہ باعثِ حیرت تھا ۔ کھوکھلی دلیری کا دکھاوا ،عدلیہ پر چڑھائی،معزز جج صاحب کی دیانت پر سوال ،توہین آمیز زبان ،فل کورٹ کا مطالبہ اورچھبیس جولائی کو عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کرنے سے لے کرفیصلہ تسلیم نہ کرنے کی دھمکی دینے تک اُنھوں نے ہردائوآزمالیا تاکہ معزز بینچ کو دبائو میں لاکر اپنی بات منوائی جاسکے۔جج حضرات، گرچہ جانبدار ی اور ایک طرف جھکائو رکھنے کا الزام سنتے سنتے تنگ آچکے تھے ، نے زمینی حقائق اور آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ سنایا ۔ اس نے ان مبینہ کوتاہیوں کی تلافی کردی جو ماضی میں ادارے سے دانستہ یا نادانستہ طور سرزد ہوئی تھیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ یہ فیصلہ اس وقت ایک سنگ میل ثابت ہوگا جب ذاتی مفاد پر آئین اور قانون کی بالادستی کا دور آئے گا۔

مذکورہ فیصلہ ایک اور حوالے سے بھی قابل تعریف ہے۔ یہ ایک طاقتور فیصلہ ہے جو اس اہم کردار پر روشنی ڈالتا ہے جو ادارہ ادا کرسکتا ہے جب حکمراں اشرافیہ ایسی آئینی اور قانونی سرتابی دکھائے جس کا ارتکاب موجود حکومت نے کیا ۔ کچھ سیاسی رہنمائوں نے رائے دہندگان سے حاصل ہونے والی طاقت کو ایسا بیانیہ گھڑنے کے آلہ میں تبدیل کر دیا ہے جو صریحاً غلط ہوتے ہیں، لیکن معاشرے کی متعدد کمزوریوں کی وجہ سے انھیں جبری قبولیت حاصل ہوجاتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی حالیہ قلابازی پرایک نظر ڈالتے ہوئے آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ مقبول لیکن جھوٹے نعروں کا سہارا لیتی ہے ۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے پیغام سے لے کرجرائم کی پاداش پر تنگ ہوتے ہوئے قانونی شکنجے سے نجات، اور ایک مرتبہ پھر اقتدارکیلئےطاقتور حلقوںکے سامنے گھٹنے ٹیکنے تک اس نے ایسا پلٹا کھایا جسے دھوکا دہی بلکہ منافقانہ سیاست کا شاہکار قرار دیا جاسکتا ہے۔

لیکن ان کی حکمت عملی میں بہت زیادہ خامیاں تھیں جو جلد ہی کھل کر سامنے آگئیں۔ سب سے پہلے تووہ ایک ایسے رہنما کے خلاف کھڑے تھے جس کا کوئی مشکوک ماضی نہیں ، اور نہ ہی اس نے ہار ماننا سیکھا ہے۔ جس نے ریاست کو کمزور کرنے کی ذمہ دار ان خرابیوں، جرائم اور غلط کاریوں پر اُنھیں کھل کر، میدان میں آکر للکارا، اور اپنا پیغام ان تک پہنچایا جو ملک کی تقدید کے اصل مالک ہیں، یعنی عوام، اور جنھوں نے بے مثال جوش، جذبے اور والہانہ انداز کے ساتھ اس کی پکار پر لبیک کہاہے۔ لیکن پاکستان کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہ ایک جزیرے کی مانند ہے جو ہر طرف سے تباہی سے دوچار ہے۔ یہ مختلف حملوں کی زد میں ہے جو اسے کمزور کررہے ہیں ۔ لیکن کیا یہ مفاد پرستی کے جال سے نکل پاتا ہے یا نہیں، اس کا دارومدار آنے والے ہفتوں میں کیےجانے والے اقدامات پر ہے ۔ زبوں حالی کی شکار وفاقی حکومت کے پاس معاملات کو سنبھالنے کیلئے درکار مشکل اقدامات کی ساکھ اور طاقت کا فقدان ہے۔ بڑھتے ہوئے بحران کا خطرہ وقت کے ساتھ شدت اختیار کرسکتا ہے۔

ہمیں اس خوفناک دلدل سے خود کو نکالنے کی ضرورت ہے جو مفادپرستوں کا پیدا کردہ ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے نقصان سے بچنے کیلئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ پی ڈی ایم کی قیادت طاقتور حلقوں کی ظاہری تابعداری کی پالیسی کے بیانیے کو تبدیل کرلے اور مزاحمت کا تاثر دینے کیلئے ریاستی اداروں اور افراد کو نشانہ بنائے۔ ایسا کرنے سے تفریق کی لکیریں مزید نمایاں ہوں گی۔

پنجاب میں ہونے والی تبدیلی ملک کے سیاسی نقشے میں تبدیلی کا پتا دیتی ہے۔ یہ ایک مضبوط، مستحکم، خودمختار اور پائیدار پاکستان کی بنیاد رکھنے کا ایک مثالی موقع فراہم کرتی ہے جو عوام کی فلاح و بہبود کیلئے پرعزم ہے، خاص طورپر غریب افراد کیلئے جو ضرورت مند،اور فوری توجہ کے مستحق ہیں۔ قبل از وقت انتخابات کا انعقاد ہی وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے عوام اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے ایسے لیدڑ چن سکتے ہیں جنھیں وہ ملک کا اقتدار سونپناچاہیں گے۔ اس وقت ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔

تازہ ترین