• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

مہمانانِ گرامی : فبہا علی، ملائکہ، عون کاظمی، حنا، نایاب

آرائش: دیوا بیوٹی سیلون

ملبوسات/ اہتمام: شیخ عمران

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

الحمدُللہ، آج پاکستان 75برس کا ہوگیا۔ مانا کہ اس مدّت میں ایک بچّہ جوان ہی نہیں، بوڑھا بھی ہو جاتا ہے۔ دو نسلیں پروان چڑھ سکتی ہیں، مگر یہ بھی سچ ہے کہ قوموں کی زندگی میں نصف، پون صدی کوئی بہت بڑا عرصہ نہیں، خصوصاً اگر حصولِ آزادئ وطن کی بہت بھاری قیمت چُکائی ہو۔ آغازِسفر، صِفر سے کیا ہو۔ تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کا ایسا زہر پیا، زخم کھایا ہو کہ پون صدی تو کیا، کئی صدیاں بھی تِریاق بن سکیں، نہ مرہم۔ یوں بھی روزِ اوّل ہی سے جس دھرتی کا وجود ہر ایک کی نظر میں کھٹکتا ہو، خاص طور پر دشمن تو ہر گھڑی گھات لگائے بیٹھا ہو، تو اُس کی تعمیر و ترقی کے لیے 75برس کا عرصہ بھی کوئی عرصہ ہوا۔ فیض نے ’’صُبحِ آزادی‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی ؎ یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر..... وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں..... یہ وہ سحر تو نہیں، جس کی آرزو لے کر....چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں..... فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل.....کہیں تو ہوگا، شبِ سُستِ موج کا ساحل.....کہیں تو جا کے رُکے گا سفینۂ غم دل.....سُنا ہے ہو بھی چُکا ہے، فراق ظلمت و نُور.....سُنا ہے ہو بھی چُکا ہے، وصالِ منزل و گام.....بدل چُکا ہے بہت اہلِ درد کا دستور.....نشاطِ وصل حلال و عذابِ ہجر حرام.....جگر کی آگ، نظر کی اُمنگ، دل کی جلن.....کسی پہ چارۂ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں.....کہاں سے آئی نگارِ صبا، کدھر کو گئی .....ابھی چراغِ سررہ کو کچھ خبر ہی نہیں .....ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی .....نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی.....چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی۔

تو سچ تو یہ ہے کہ آج مُلکِ عزیز کی 75ویں سال گرہ، گولڈن جوبلی کے موقعے پر بھی حال یہی ہے کہ ؎ نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی.....چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی۔ ہنوز اَن گنت مسافتیں، منزل تک کے سفر میں حائل ہیں اور اِن مسافرتوں کے طے نہ ہونے کے پیچھے صرف غیروں کی چال بازیاں نہیں، خود اپنوں کی کارستانیوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ وہ کیا ہے کہ جب اپنا ہی سکّہ کھوٹا ہو، تو پھر کسی دوسرے سے کیا گلہ شکوہ۔ یہ ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کا جھانسا، ’’نئے پاکستان‘‘ کا منجن، ’’تبدیلی‘‘ کا چورن تو سب سے Latest واردات ہے، لیکن ہمارا پورا ماضی، پوری مُلکی تاریخ ایسی کئی شعبدے بازیوں، کاری گریوں، لطیفوں، کھیل تماشوں سے بَھری پڑی ہے۔ 

وہ تو بس قدرت کا کچھ خاص کرم و انعام ہے کہ اُس نے وطن کی صُورت یہ نعمتِ غیر مترقبہ ہمیں رمضان المبارک کی عین ستائیسویں شب عنایت فرمائی تو اِک یقینِ محکم ہے کہ یہ پاک دھرتی قائم و دائم رہنے ہی کے لیے وجود میں آئی ہے۔ وہ محسن نقوی نے کہا تھا ناں کہ ؎ اپنی مٹّی سے محبّت کی گواہی کے لیے.....ہم نے زرداب نظر کو بھی شفق لکھا ہے.....اپنی تاریخ کے سینے پہ سجا ہے اب تک.....ہم نے خونِ رگِ جاں سے جو وَرق لکھاہے.....دوستو، آؤ کہ تجدیدِ وفا کا دن ہے.....ساعتِ عہدِ محبّت کو حِنا رنگ کریں.....خُونِ دِل، غازئہ رُخسارِ وطن ہو جائے.....اپنے اشکوں کو ستاروں سے ہم آہنگ کریں.....آئو سرنامۂ رُودادِ سفر لکھ ڈالیں.....اشک پیوندِ کفِ خاکِ جگر ہونے تک.....ہم کیا کیا نہ خلائوں میں کمندیں ڈالیں.....شوق تسخیرِ مہہ و مہرِ ہُنر ہونے تک.....آؤ، لکھیں کہ ہمیں اپنی اَماں میں رکھنا.....احتسابِ عملِ دیدئہ تر ہونے تک.....ہم تو مر جائیں گے اے ارضِ وطن پھر بھی تجھے.....زندہ رہنا ہے، قیامت کی سحر ہونے تک۔

ان 75برسوں میں ہم نے اَن گنت آلام و مصائب، مشکلات و مسائل،ہزاربیرونی و اندرونی سازشوں، گٹھ جوڑوں، ناحق مسلّط کردہ جنگوں، بیرونی حملوں، دہشت گردی کی کارروائیوں، دھونس دھمکیوں، سرحد پہ شر انگیزیوں حتیٰ کہ مُلک دو لخت کردینے تک کے ناقابلِ تلافی جرم تک کیا کیا نہ جھیلا، لیکن صدشُکر کہ آج بھی چاروں صوبوں، بشمول آزاد جمّوں و کشمیر کے عوام کے، دل ایک لے پر دھڑکتے ہیں۔ اس پرچم (سبز ہلالی پرچم) کے سائے تلے ہم ایک ہیں.....سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں.....ایک چمن کے پھول ہیں سارے، ایک گگن کے تارے.....ایک سمندر میں گرتے ہیں سب دریائوں کے دھارے.....جُدا جُدا ہیں لہریں، سرگم ایک ہیں.....ایک ہی کشتی کے ہیں مسافر، اِک منزل کے راہی.....اپنی آن پہ مٹنے والے ہم جانباز سپاہی..... بند مُٹھی کی صُورت باہم ایک ہیں.....پاک وطن کی عزت ہم کو اپنی جان سے پیاری.....اپنی شان ہے اس کے دَم سے، یہ ہے آن ہماری.....اپنے وطن میں پھول اور شبنم ایک ہیں.....اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں۔ 

65ء کی جنگ ہو یا 71ء کی، سقوطِ مشرقی پاکستان ہو یا 8 اکتوبر کا زلزلہ، لیاقت علی خان کا قتل ہو یا بے نظیر بھٹو کا، سانحہ اے پی ایس ہو یا دہشت گردی کا کوئی اور واقعہ، کوئی عالم گیر وبَا ہو یا زمینی آفت… مُلک، مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت بن جائے، ہماری فوج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہو، کم ترین وسائل کے باوجود ہم دنیا بھر میں فلاحی و رفاہی سرگرمیوں میں سرِفہرست ٹھہریں، ہمارے سائنس دان، اساتذہ، معالج، انجینئر، بینکر، وکلاء، معیشت دان، فیشن ڈیزائنر، بزنس مین، آرٹسٹ، فن کار، لکھاری، صحافی، شاعر، مزدور، طلبہ، نوجوان، دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں، ہماری ’’بےنظیر‘‘ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون حُکم ران قرار پائیں، ہماری ’’ملالہ‘‘ کو دنیا کی کم عُمر ترین نوبل پیس پرائز ونر کا ایوارڈ حاصل ہو۔ 

ہم کرکٹ، ہاکی، اسکواش، اسنوکر، شطرنج، باکسنگ، کبڈی، کوہ پیمائی، ریسلنگ، ویٹ لفٹنگ کے عالمی اعزازات اپنے نام کریں یا قومی یا بین الاقوامی سطح پر کسی بھی چھوٹی، بڑی کام یابی سے ہم کنار ہوں، پورے مُلک کا بچّہ بچّہ ہر دُکھ، غم پر ایک ساتھ رنجیدہ، اشک بار ہوتا ہے، تو ہر خوشی و مسّرت پر یک بارگی کِھل اٹھتا ہے، یک دل و یک جان نظر آتا ہے۔ اور یہی یک جہتی و ہم آہنگی اس پاک دھرتی کا اصل حُسن، وصف و امتیاز، ندرت و انفرادیت ہے۔ اِسی کے سبب ہمیں ہر حال میں جینے، ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ صد شُکر کہ ہم ایک ہیں اور دُعا ہے کہ اللہ ہمیں اگلے 75سال بلکہ رہتی دنیا تک ’’ایک‘‘ ہی رکھے۔ یوں بھی ؎ دین، زمین، سمندر، دریا، صحرا، کوہستان …سب کے لیے سب کچھ ہے اِس میں، یہ ہے پاکستان۔

اتحاد و اتفاق، یگانگت و یک جہتی، ہم رنگی و ہم آہنگی ہی کی علامت، یہ ایک چھوٹی سی بزم 75ویں جشنِ آزادی کے تحفے کی صُورت آپ کی نذر ہے۔ شاہدہ حسن کی اِس دلی تمنّا ؎ دُعاہے میری.....تمہارے روشن نفس کی لَوسے.....یقین کی شمعیں، جل اُٹھیں پھر.....جہاں پہ مسدود راستے ہیں.....وہیں سے،راہیں نکل پڑیں پھر.....دُعا ہے میری …ہمارے پرچم، ہمارےطبل و عَلم کا جاہ و جلال… زندہ رہے ابد تک…دُعا ہے میری کہ....صاحبانِ یقین کا صبر و ثبات .....عزم و کمال زندہ رہے ابد تک.....ستارہ زندہ رہے ابد تک.....ہلال زندہ رہے ابد تک۔ رحمان فارس کے اس ایمان و ایقان ؎ پاکستانی ہوں، تَن مَن میں ایک ہی رنگ بَھرا نکلے گا.....میرے دِل کو چیر کے دیکھو، میرا خون ہَرا نکلے گا.....یہ جوشیلے جذبوں والے جو کہتے ہیں، سچ کہتے ہیں.....سب نعروں کو چھان پھٹک لو، اِک اِک لفظ کھرا نکلے گا۔ اور شبانہ زیدی شبین کی اس دل سے نکلی دُعا کے ساتھ کہ ؎ یارب!مِرے وطن کے ہر اِک گھر کی خیر ہو.....رہنا ہے تاحیات ہمیں یاں وفا کے ساتھ۔ آپ سب کو پاک وطن، پاک زمیں، مادرِ گیتی، ماں مٹّی کی 75ویں سال گرہ بہت بہت مبارک ہو۔