• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے 75 سال نشیب و فراز، سودوزیاں کی اِک عجیب داستاں

آج پاکستان کے قیام کو 75برس ہوچُکے ہیں۔اِمسال ہم مُلکِ عزیز کی’’ گولڈن جوبلی‘‘ منا رہے ہیں۔ اِس حقیقت سے کون ناواقف ہے کہ بانیانِ پاکستان نے پون صدی قبل مسلمانانِ ہند کے لیے ایک ایسی مملکت کا خواب دیکھا تھا، جہاں وہ ایک آزاد قوم کی حیثیت سے اپنی زندگی گزار سکیں اور اِس آزاد وطن کے حصول کے لیے ہم نے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیں، لیکن آج 75سال بعد جب ہم اپنا محاسبہ کرتے ہیں، تو صورتِ حال کچھ اچھی دکھائی نہیں دیتی، زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، خیر کی خبریں کم ہی سُننے کو ملتی ہیں۔ پون صدی کے اِس سفر کو مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سرکردہ افراد کس نظر سے دیکھتے ہیں، یہ جاننے کے لیے اُن سے خصوصی بات چیت کی گئی، جس کی تفصیل’’ سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔

سراج الحق، امیر جماعتِ اسلامی، پاکستان 

پاکستان کے قیام کے مقاصد بہت واضح اور روزِ روشن کی طرح عیاں تھے، جن کی بنیاد پر تحریکِ پاکستان کا آغاز ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ اس جدوجہد میں لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، جس میں ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کا حصّہ سب سے زیادہ تھا۔ لاکھوں بہنوں اور بیٹیوں کی عزّتیں پامال ہوئیں، معصوم، شیر خوار بچّوں کو ان کی ماؤں سے چھین کر نیزوں پر اُچھالا اور برچھیوں میں پرویا گیا۔ یعنی اپنا سب کچھ قربان کرکے لاکھوں کی تعداد میں پاکستان پہنچنے والوں کو آگ اور خون کا ایک دریا عبور کرنا پڑا۔

ہمیں اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کی27ویں شب ایک ایسی عظیم الشّان ریاست عطا فرمائی، جو کرّۂ ارض پر مدینے کی ریاست کے بعد مسلمانوں کا سب سے بڑا مُلک ہونے کے ساتھ، دنیا بھر کے مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز بھی تھی،لیکن قیامِ پاکستان کے بعد مُلک کے اقتدار پر قابض ہونے والوں نے سارے خواب چکنا چُور کر دیے۔ اُنہوں نے اپنے آقاؤں کا دیا ہوا وہی نظام پاکستان پر مسلّط کردیا، جس سے آزادی کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش کیا تھا۔ انہی حکم رانوں کی وجہ سے آج ہر پاکستانی لاکھوں کا مقروض ہے، جب کہ غریب قوم کا خون چُوسنے والوں کے نہ صرف پاکستان،بلکہ امریکا، برطانیہ، فرانس، کینیڈا اوردبئی میں عالی شان محلّات ہیں۔ ان کی اولاد، جائیدادیں اور کاروبار پاکستان سے باہر ہیں۔

یہ صرف حکم رانی کا لُطف اٹھانے اور اقتدار کا نشہ پورا کرنے پاکستان آتے ہیں۔ وکی لیکس، پاناما لیکس، پینڈورا پیپرز سب ان کے کارناموں سے بَھرے پڑے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق، پاکستان سے 500ارب ڈالرز کی خطیر رقم لُوٹ کر بیرونی بینکس میں منتقل کی گئی، جس میں سے 200ارب ڈالرز کا اعتراف تو سابق وزیرِ خزانہ، اسحاق ڈار نے بھی پارلیمنٹ کے سامنے کیا تھا۔اگر پاکستان سے لوٹی گئی یہ رقم قومی خزانے میں آجائے، تو ہماری ساری پریشانیاں، مشکلات ختم اور تمام دلدّر دُور ہوسکتے ہیں۔ 

اگر 75 سال بعد بھی پاکستان کی حالت نہیں بدلی اور عالمی برادری میں ہماری کوئی عزّت و وقار اور وزن نہیں، تو اس کا مجرم وہ طبقہ ہے، جس نے قوم سے غدّاری اور انگریز سے وفاداری کے صلے میں بڑی بڑی جاگیریں حاصل کیں۔ اُنہوں نے قیامِ پاکستان کے بعد قومی بینکس لُوٹ کر سرمایہ اپنے کھاتوں میں منتقل کیا، قومی ادارے یرغمال بنائے، فوج، عدلیہ اور بیورو کریسی میں اپنے رشتے داروں کو بڑے بڑے عُہدوں پر بٹھایا اور اقتدار کے ایوانوں پر قابض ہوگئے۔

آج بھی اسی اشرافیہ کے چشم و چراغ اسمبلیوں میں نظر آتے ہیں۔ ان کا رہن سہن، تہذیب و تمدّن عوام النّاس سے بالکل مختلف ہے اور یہ اپنے اِس خاص دائرے میں کسی غریب کو داخل نہیں ہونے دیتے،اِسی لیے غریب پر اقتدار کے دروازے بند ہیں۔حالات تبدیل کرنے کے لیے قوم کو ایک بار پھر تحریکِ پاکستان کے جذبے سے اُٹھنا ہوگا اور اقتدار کے پجاری حکم رانوں سے اختیارات چھین کر اپنے جیسے لوگوں کے حوالے کرنا ہوں گے۔

ایس ایم ظفر، قانون دان، سابق وفاقی وزیر

قمری لحاظ سے تو پاکستان کی سال گرہ 27رمضان المبارک کو بنتی ہے اور حکیم محمّد سعید زندگی بھر یہی کہتے رہے کہ جشنِ آزادی 14اگست کی بجائے27 رمضان المبارک کو منانا چاہیے۔ بہرطور، اِس موقعے پر ماضی اورحال کا تجزیہ کریں، تو مَیں یہی کہوں گا کہ ان75 سالوں میں کچھ اچھے کام بھی ہوئے اور کچھ بُرے بھی۔ ماضی میں جھانکیں، تو پاکستان میں آئین کا کام التوا میں ڈال دیا گیا اوراپنے قیام کے پہلے 9 سال تک آئین تشکیل نہ دیا جاسکا، جس کے نتیجے میں آئینی کلچر آج تک پروان نہیں چڑھ سکا، پھر یکے بعد دیگرے کئی مارشل لاء نافذ ہوئے اور اِس وقت بھی جو نام نہاد جمہوریت ہے، عوام النّاس کی زبان میں’’ لولی لنگڑی‘‘ ہے۔

مُلک میں ازل سے جو وڈیرہ شاہی نظام قائم ہے، اس کا مزاج غیر جمہوری ہی نہیں یہ انسانی حقوق کی بھی نفی کرتا ہے۔ اسے ختم کرنا ضروری تھا، لیکن وہ آج تک قائم ہے بلکہ سیاست پر چھایا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے سیاسی جماعتیں بھی مضبوط نہیں ہوسکیں۔ مارشل لاز کے دَور میں عدلیہ کے کئی فیصلے نظریۂ ضرورت کے فلسفے سے بوجھل دِکھائی دیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں بتدریج عدلیہ کے احترام میں کمی آتی گئی۔ پاکستان کی بیورو کریسی عرصہ ہوا اپنے فرائض کی حدود پھلانگ چُکی ہے اور اب حکومت سازی میں باقاعدہ شریک ہوتی ہے۔ مُلک کا تعلیمی نظام وہ اہمیت اور توجّہ حاصل نہ کرسکا، جو ایک پس ماندہ مُلک کی ضرورت تھی۔ 

پاکستان کے صنعت کاروں نے صنعتیں لگائیں، لیکن صرف خود ہی فائدہ اُٹھایا۔ بین الاقوامی سیاست میں پاکستان بڑی تیزی سے تنہا ہوتا چلا گیا۔ گزشتہ کئی عشروں سے کرپشن مُلک کا کلچر بن چکی ہے، لیکن کچھ مثبت پہلو بھی ہیں۔ مثلاً ایک بات عیاں ہوگئی کہ پاکستان کا مزاج خالصتاً جمہوری ہے، کیوں کہ پاکستانیوں نے تین بار عوامی تحریک چلا کر آمرانہ حکومتیں ختم کیں۔ پاکستانی سائنس دانوں اور ڈاکٹرز نے پوری دنیا سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ہمارے نوجوان کھلاڑیوں نے سہولتوں سے محروم ہونے کے باوجود عالمی اعزازات حاصل کیے۔ 

اِسی طرح پاکستانی مزدور اور ہنرمند بیرونِ ممالک اپنی جفاکشی کے باعث پسند کیے جاتے ہیں۔ پاکستان کا مُزارع دنیا کے کسی بھی مزارعے سے بہتر ہے۔ پاکستان کا فوجی، دنیا کے بڑے بڑے تجربے کار یعنی جرمن، فرانسیسی فوجی سے ٹکر کھاتا ہے۔ پاکستانی وکلاء کا شمار دنیا کے بہترین وکلاء میں ہوتا ہے۔ ایسی افرادی قوّت کی موجودگی میں بڑی اُمید ہے کہ وہ منزل جو ابھی بہت دُور دکھائی دیتی ہے، حقیقت میں زیادہ دُور نہیں۔ قائدِ اعظم نے فرمایا تھا کہ’’ جب پاکستان اپنی برائیوں، خامیوں پر قابو پا لے گا، تو دیگر مسلمان ممالک کے لیے ایک نمونہ بن جائے گا۔‘‘تو پاکستان کی گولڈن جوبلی پر میری دُعا ہے کہ اللہ کرے، ایسا ہی ہو۔

ظفر علی ہلالی، سابق سفیر

پون صدی ایک لمبا عرصہ ہوتا ہے کہ اِس عرصے میں ایک ننّھا پودا بھی دُور دُور تک پھیلی جَڑوں والا تن آور درخت بن جاتا ہے، لیکن افسوس کہ ہمارا مُلک ابھی تک اپنے قدموں پرکھڑا نہیں ہوسکا۔ مَیں نے اپنی زندگی میں اِس سے قبل مُلک کو در پیش اِتنا سنگین سیاسی اور اقتصادی بحران کبھی نہیں دیکھا،جو اِن دنوں درپیش ہے۔ اگر ماضی میں جانکھیں، تو معلوم ہوگا ہے کہ ابتدائی چند برسوں کے بعد ہی مُلک کو سیاسی طور پر ایک ایسی پٹری پر ڈال دیا گیا کہ جس کے بعد ہر آنے والا دن اُسے منزل سے دُور ہی لے جاتا گیا۔ 

ہمارا بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے،مُلک کئی بار ڈیفالٹ ہوتے ہوتے رہ گیا۔۔ اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ’’ BEGGARS ARE NOT CHOOSERS ‘‘۔ اِن 75 سالوں میں ہم نے اپنے مُلک کا ایک حصّہ کھو دیا، دہشت گردی میں لاکھوں جانیں گنوا دیں۔ سماجی سہولتوں کی عدم فراہمی اور کرپشن میں بھی ہم سرِفہرست ہیں۔ مذہبی و لسانی منافرت ختم نہیں کرسکے۔ اپنے عیوب کہاں تک گنوائوں۔ مُلک سری لنکا جیسے حالات کے خدشات سے دوچار ہے۔ بہرحال، اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے مُلک کے لیے صحیح سمت کا تعیّن کریں، جس کے لیے ہمیں ایک مخلص ترین لیڈر کی ضرورت ہے، جو قوم کو اِس گرداب سے نکال سکے، جیسے قائدِ اعظم نے نکالا تھا۔

ہمیں چہروں کی بجائے نظام بدلنے کی ضرورت ہے اور آزمائے ہوئوں کو دوبارہ نہیں آزمانا چاہیے۔ بدقسمتی سے حکم رانوں کی ترجیحات میں عوام کبھی شامل ہی نہیں رہے۔ لیکن اب آنے والے وقت میں عوام ہی کا بیانیہ چلے گا، کیوں کہ 75 سال کے بعد ہم اس مقام پر کھڑے ہیں، جہاں ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ، موبائل اور سوشل میڈیا کی حیرت انگیز ترقّی نے کسی بھی مُلک اور عوام کے جذبات کی پردہ پوشی ناممکن کردی ہے۔ میرے خیال میں اب رائے عامّہ کی طاقت کے آگے بند باندھنا ناممکن ہے۔ چند دہائیاں پہلے عوام کو بے وقوف بنایا جاسکتا تھا، مگر اب ایسا ممکن نہیں۔ عوام کی اکثریت محبِ وطن ہے اور میرا ایمان ہے کہ اچھے دن آنے والے ہیں۔ 

بظاہر ہم نے پون صدی ضائع کردی، لیکن پے در پے ناکامیوں سے اِیسا سبق ضرور سیکھ لیا ہے، جو آنے والے برسوں میں ہمارے کام آئے گا۔ اگر اگلے انتخابات صاف شفّاف ہو جائیں، تو وہ بھی ہمارے روشن مستقبل کی سمت کا تعیّن کردیں گے، لیکن اگر اِس بار بھی ماضی کی غلطیاں دُہرائی گئیں، تو مُلک بدستور گرداب میں پھنسا رہے گا۔ پاکستان کا یہ75 واں سال ہمارے قومی محاسبے کا سال ہونا چاہیے، جس میں ہم دیکھیں کہ ہماری کِن کوتاہیوں اور غلطیوں نے ہمیں اِس حال تک پہنچایا ہے کہ آزادی حاصل کرنے کے باوجود ہم معاشی اور ذہنی طور پر بدستور غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔

مستنصر حسین تارڑ، ڈراما نویس، ناول و سفر نامہ نگار

مجھے جب بھی نئی نسل سے ہم کلام ہونے کا موقع ملتا ہے، اُن سے یہی کہتا ہوں کہ آپ تصوّر نہیں کرسکتے کہ پاکستان کتنا خُوب صورت اور پروگریسیو تھا۔ پی آئی اے ٹاپ پر تھی، مختلف ادارے نئی نئی ریسرچز کررہے تھے۔ ہالینڈ میں پاکستان کی پہلی سفیر، رعنا لیاقت علی خان مقرّر ہوئیں، تو لوگ حیران رہ گئے کہ اِتنا پروگریسیو مُلک ہے۔ پہلے 10,8 برس تو سنہری سال تھے اور اس کے بعد کیا ہوا؟ سب جانتے ہیں، مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ مَیں7 سال برس کا تھا، جب پہلی مرتبہ قائدِ اعظم، محمّد علی جناح کو دیکھا۔ پورے گھر میں ایک ہیجان برپا تھا کہ آج قائدِ اعظم بات کریں گے۔ ہم سب لوگ تیار ہو کر اسلامیہ کالج، ریلوے روڈ گئے۔ 

اندر شامیانے لگے ہوئے تھے۔ قائدِ اعظم تشریف لائے۔ میرے ذہن میں اُن کا ایک ہیولا سا ہے۔مجھے یاد ہے کہ ایک شخص بار بار بازو لہراتا ہے، انگریزی میں تقریر کررہا ہے، لوگوں سمجھ نہیں رہے، لیکن وہ اُس پر نچھاور ہو رہے ہیں۔’’ پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگا لگا کرنڈھال ہو رہے ہیں اور جب ہم جلسہ گاہ سے باہر نکل رہے تھے، تو وہاں مسلم لیگ کے چندے کے لیے ایک صندوقچی پڑی تھی، جس میں میرے والد نے پانچ روپے ڈالے، جو اُس زمانے میں ایک خطیر رقم تھی۔ مَیں نے کہا کہ’’ آپ یہ کیوں دے رہے ہیں‘‘ تو اُنہوں نے کہا کہ’’ بیٹا! یہ پاکستان کے لیے دے رہا ہوں۔‘‘ 

صندوقچی کے نزدیک کھڑے ایک شخص نے کاغذ کا ایک چھوٹا سا پرچم پِن کے ساتھ میرے سینے پر لگا دیا۔ وہ پرچم امتدادِ زمانہ سے بوسیدہ ہو کر ختم نہیں ہوا، بلکہ وہ میرے دل، میرے جسم اور روح میں منتقل ہوگیا اور آج بھی وہاں موجود ہے۔ صرف ایک فرق ہے کہ وہ جو گہرا سبز رنگ تھا، وہ کچھ پھیکا پڑ گیا ہے۔ جیسے کھیت سوکھ جائیں، تو اُن کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے۔ درمیان کا چاند ستارہ بھی ماند پڑ گیا ہے اور اس کے ساتھ اقلیتوں کی سفید پٹّی پر بھی جابجا داغ لگ گئے ہیں۔ مَیں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ ہم نے اپنی سرزمین سے محبّت ہی نہیں کی۔ آپ دیکھیں ناں کہ آج کے خطرناک ترین حالات میں بھی صاحبانِ اقتدار ہنس کھیل رہے ہیں۔ قہقہے لگا رہے ہیں، کیوں کہ اُنہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فرق تو مجھ جیسے لوگوں کو پڑتا ہے، جنہیں یہیں رہنا ہے۔

ہمارے پاس ہیلی کاپٹرز ہیں، نہ بیرونِ ممالک رہائش گاہیں۔ ہم نے تو اِسی سرزمین پر رہنا ہے اور اِن شاء اللہ یہیں دفن ہونا ہے۔ مَیں یہ نہیں کہوں گا کہ مَیں نے اُمید کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا ہے، میں پُراُمید ہوں لیکن امید کا یہ دامن، دوسری جانب سے دوسری قوّتوں نے پکڑ رکھا ہے۔ جنہیں پاکستان سے محبّت نہیں، وہ اسے نوچ نوچ کے کھا رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ کتنے عرصے تک اُمید کا یہ دامن تھامے رکھوں گا اور کب یہ میرے ہاتھ سے چُھوٹ جائے گا،لیکن اور اگر ایسا ہوا تو بخدا مَیں وہ دن دیکھنے کی بجائے دفن ہونا پسند کروں گا۔

عطاء الحق قاسمی، کالم نگار، ڈراما نویس، شاعر

پون صدی کا طویل فاصلہ طے کر کے آج ہم ایک اہم سنگِ میل تک پہنچ گئے ہیں۔سو،آج کا ہر گزرتا لمحہ اِس بات کا متقاضی ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کریں کہ ہم نے اِس سفر میں کیا حاصل کیا اور آگے کیا کرنا ہے۔ اِس موقعے پر یہ پوچھنا کہ’’ ہم نے کیا کھویا، کیا پایا‘‘، تو وہ مسخرے جو بات کرتے ہیں کہ ہم نے ’’کھویا‘‘ بھی حلوائی کی دکان سے اور ’’پایا‘‘ بھی حلوائی کی دکان سے۔ لیکن پھر بھی اِس سوال میں ایک معنویت موجود ہے اور وہ یہی کہ ہم اِس عرصے میں جب بھی کچھ پانے کے لیے آگے بڑھتے ہیں، چھیننے والے بھی پیچھے پیچھے آجاتے ہیں۔ آپ دیکھ لیں، جب پاکستان بنا، تو ہمارے پاس کچھ نہیں تھا، مہاجرین کا ایک سیلِرواں تھا، مگر ہمارے سیاست دانوں نے اُس نازک دَور میں بھی کچھ اچھے کام کیے۔ 

پھر پاکستان کو بھارت سے دو جنگیں لڑنا پڑیں اور ہم اپنا آدھا مُلک گنوا بیٹھے۔ اس کے برعکس، دوسرے دَور میں ڈیم بنائے گئے، سڑکیں بنیں، یونی ورسٹیز وجود میں آئیں اور ہم ایٹمی ممالک کی صف میں بھی شامل ہوگئے۔ ڈی ایچ اے بنتے رہے، عالی شان رہائشی عمارتیں بنیں، معیارِ زندگی بہتر ہوا، لیکن غربت نے بھی ڈیرے ڈالے رکھے۔معاشی بدحالی کے ہاتھوں ہم کئی بار ڈیفالٹ ہونے سے بالبال بچے۔ آج بھی ہر پاکستانی نے، خواہ وہ کوئی غریب چھابڑی فروش ہو یا امیر صنعت کار، دوسرے ممالک کا قرض دینا ہے۔ 

غرض ہمارا 75سال کا یہ سفر ترقّی و تنزّلی کا ایک ایسا عجیب امتزاج ہے، جو آسانی سے سمجھ نہیں آتا۔ جب کوئی قوم اپنی خامیوں، کوتاہیوں اور برائیوں کو خود نہیں سدھارتی ، تو زمانے کی ستم ظرفیاں اُسے بالآخر راہِ راست پر لے آتی ہیں، لیکن اس کے لیے قوموں کو بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ اگر ہم اپنے 75ویں جشنِ آزادی پر سنبھل جائیں، تو شاید اُن قربانیوں کا ثمر مل جائے، جو ہمارے بڑوں نے ایک آزاد مملکت کے حصول کے لیے دی تھیں۔

ڈاکٹر امجد ثاقب ،’’اخوّت‘‘ کے بانی، سابق بیورو کریٹ

پاکستان نے 75 سال میں کیا کھویا، کیا پایا، یہ کوئی عام سوال نہیں، اِس کے جواب کے لیے تاریخی اور معاشی شعور چاہیے۔ پہلی بات تو یہ کہ پاکستان وجود میں کیوں آیا، یعنی وہ کیا وجوہ اور ضروریات تھیں، جن کی وجہ سے ایک الگ مُلک کا مطالبہ کیا گیا؟ دراصل، اِس کی بنیاد تو دو قومی نظریہ ہے، لیکن معاشی وجہ بھی تھی، جس کے تحت مسلمان، ہندو اکثریت کے دستِ نگر تھے۔ مسلمانوں کو احساس تھا کہ اُن کا دین، روایات، تہذیب و ادب ہندوئوں سے یک سر مختلف ہے۔ 

پھر یہ خواب دیکھا گیا کہ ہم ایک ایسا مُلک بنائیں گے، جس میں ہمیں دینی، سیاسی، سماجی اور معاشی آزادی حاصل ہو،تو اِس جستجو اور خواہش کی تکمیل کے لیے ’’ پاکستان کا مطلب کیا، لاالہٰ الا للہ‘‘کا نعرہ بلند ہوا۔ پھر پاکستان تو بن گیا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہر پاکستانی کو وہ سب کچھ مل گیا، جس کی اُسے ضرورت ہے۔ کیا اسے روزگار مل گیا، صحت کی سہولتیں حاصل ہو گئیں، انصاف، روٹی، کپڑا اور مکان ملا۔ اِس اعتبار سے یہ کہانی بہت اداس اور دل بے چین کردینے والی ہے، لیکن اِتنی زیادہ اداس کر دینے والی بھی نہیں۔

مُلک میں درجنوں یونی ورسٹیز بنیں، شرحِ خواندگی بڑھی، سر بہ فلک عمارتیں تعمیر ہوئیں، اسپتال بنے،نئی بندرگاہیں وجود میں آئیں، بڑے بڑے ڈیم بنے، پھر ہم ’’نیو کلیئر پاور‘‘ بن گئے، ایک بہت بڑی فوج ہماری نظریاتی اور زمینی سرحدوں کی محافظ ہے، بہت سی ایجادات ہوئیں، ہم نے اسپیس ٹیکنالوجی پر کام کیا، لڑاکا جہاز بنائے، کھیلوں کے میدانوں میں نام پیدا کیا اور بین الاقوامی سطح پر پاکستانی سائنس دانوں اور ہنر مندوں نے بھی مُلک کا نام خوب روشن کیا۔ 

دنیا بھر میں پھیلے ایک کروڑ کے لگ بھگ پاکستانی کئی ممالک کو اپنی صلاحیتوں سے فیض یاب کر رہے ہیں، لیکن دوسری طرف ہم دیکھیں، تو ہم نے جو بہت کچھ کھویا، اُس میں سرفہرست اخلاقیات، وضع داری ہے۔ تحمّل، برداشت، بردباری، مساوات جیسی خوبیاں، جو ایک مہذّب معاشرے کے لیے ضروری ہیں، ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ خاندانی نظام، جو ہماری پہچان تھا، منتشر ہو گیا اور اس کی جگہ مادیت پرستی، لالچ، کرپشن جیسی منفی اقدار غالب آ گئیں۔ ہم نے پیسے کی دوڑ میں تمام اخلاقی اقدار پامال کر دیں۔ہمارا تاجر، کاروبار کے اُن اصولوں پر پورا نہیں اُترتا، جو ہمارا دین سکھاتا ہے۔ یہی حال دوسرے شعبوں کا ہے۔ 

ہمارے استاتذہ، اطباء، صحافی، دانش وَر، سرکاری ملازم، مسجد و محراب کے وارث اُس مطلوبہ معیار پر پورے نہیں اُترتے، جو بانیانِ پاکستان نے مقرّر کیا تھا۔ آج بھی اگر دو کروڑ سے زاید بچّے اسکول نہیں جا رہے، تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان نے ترقّی کی ہے؟ طبّی، تعلیمی اور سماجی سہولتوں کے اعتبار سے پاکستان کا شمار آج بھی دنیا کے پس ماندہ ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ مَیں یہ کہوں گا کہ پاکستان کا 75واں جشنِ آزادی ہم اِس حال میں منا رہے ہیں کہ کچھ تشنہ آرزوئیں اور کچھ کار ہائے نمایاں ہیں۔ یاد رہے، قوموں کی زندگی میں 75برس کوئی بہت بڑا عرصہ نہیں، امریکا کی آزادی کے 100برس بعد اِتنی بڑی جنگ ہوئی کہ اُس میں 6لاکھ لوگ مر گئے، جسے’’ آزادی کی جنگ‘‘ کہا جاتا ہے،تو قوموں کے لیے چند دہائیاں فیصلہ کُن نہیں ہوتیں۔

سو، اگر آج ہم عہد کریں کہ ہم نے آنے والے 10-15سالوں میں مُلک کی کایا پلٹنی ہے،تحریکِ پاکستان کے بنیادی مقاصد پورے کرنے ہیں۔ قانون کی عمل داری، آئین کی پاس داری ہر صُورت ممکن بنانی ہے، تو ہمارے حالات میں بہت بہتری آسکتی ہے۔ وہ جو کسی شاعر نے کہا ہے کہ ؎نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی…چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی،تو نجات دیدہ و دل تو تب ہو گا، جب ہر بچّے کے ہاتھ میں قلم، کاغذ اور کتاب ہوگی، جب ہر بچّہ اسکول جائے گا، جب ہر شخص کو چھت میّسر ہو گی، ہر بیمار کو دوا ملے گی۔ سیاسی و سماجی انصاف کا عَلم ہر طرف لہراتا نظر آئے گا۔

آج ہم دعا کرتے ہیں کہ دُعا ایک وعدہ بھی ہے، ایک عزم اور ایک ارادہ بھی۔ہم بحیثیت قوم اپنی تمام خامیاں دُور کریں گے۔ لیکن یاد رکھیے، قومی سطح پر خامیاں اُسی وقت دُور ہوں گی، جب ہم انفرادی سطح پر اپنی اصلاح کریں گے۔ ہمیں پہلے خود سے جہاد کرنا ہو گا، پھر ہی اجتماعی تبدیلیاں رونما ہوتی دیکھ سکیں گے۔

ذوالفقار احمد چیمہ، سابق آئی جی پولیس، کالم نگار

اِس سوال کا جواب تو بہت طویل ہے، مَیں چند باتیں عرض کر دیتا ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آزادی کے وقت جتنے مسلمان پاکستان میں بستے تھے، اُتنے ہی بھارت میں رہ گئے تھے۔ آج بھارت اور کشمیر کے مسلمانوں کی حالتِ زار دیکھ کر بانیانِ پاکستان کے لیے دل سے دُعا نکلتی ہے، جنہوں نے ہمیں آزادی کی نعمت سے ہم کنار کیا۔ پاکستان کی وجہ سے ہر شخص کا معیارِ زندگی بہتر ہوا ہے۔ آج سے 50-60سال پہلے 80فی صد مکان کچّے تھے۔ کسی کے پاس موٹر سائیکل نہیں تھی۔ آج سب مکان پختہ ہیں اور 80فی صد گھروں میں موٹر سائیکلز ہیں۔ ہر نوجوان کے ہاتھ میں موبائل فون ہے۔ 

پاکستان میں آئینی ادارے ہیں، پارلیمینٹ، عدلیہ، مضبوط فوج، دنیا کی بہترین فضائیہ، جنوبی ایشیا کے سب سے معیاری موٹرویز ہیں۔ ہماری عدلیہ دنیا کے 96فی صد ممالک سے زیادہ بااختیار ہے۔ میڈیا آزاد ہے اور پھر یہ کہ ہم دنیا کی ساتویں اور مسلم دنیا کی واحد ایٹمی قوّت ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہم نے کھویا بھی بہت کچھ ہے۔ قائد کی وفات کے بعد ہم کئی سالوں تک آئین نہ بنا سکے۔لیاقت علی خان کے قتل کے بعد پہلے ملٹری اور سِول بیوروکریسی نے اتحاد کیا، پھر اس ناپاک الحاق میں جسٹس منیر احمد نے عدلیہ کو بھی شامل کر دیا، جس نے ہر ملٹری ڈکٹیٹر کے شب خون کو جائز قرار دے دیا۔

معاشی میدان میں ہمارا آغاز قابلِ رشک تھا۔ 50ء کی دہائی کے سِول سرونٹس محبِ وطن اور دیانت دار تھے۔ کسی سیکٹر میں حرام خوری کا چلن نہیں تھا، ہم آج کے کئی ترقّی یافتہ ممالک کے رول ماڈل تھے۔ پھر یوں ہوا کہ 65ء اور 71ء کی جنگوں نے ہمارے وسائل نچوڑ لیے۔ بھٹّو صاحب کی نیشنلائزیشن کی پالیسی نے معیشت کا گلا گھونٹ دیا۔جنرل ضیا الحق اور مشرّف کے دور میں ڈالرز کی آمد کی وجہ سے مصنوعی خوش حالی آئی، مگر ان دو دہائیوں میں کوئی انڈسٹری لگی، نہ ڈیم بنا اور نہ ہی کوئی میگا پراجیکٹ۔ہمارے فیصلہ سازوں کی ترجیحات نے مُلک کو کافی نقصان پہنچایا۔ تعلیم اور تحقیق کسی حکومت کی اوّلین ترجیح نہیں رہی۔ ایک وقت تھا کہ اشتیاق حسین قریشی، شیخ امتیاز علی اور عبدالعلی جیسے غیر معمولی منتظم ان درس گاہوں کے سربراہ تھے اور کہاں یہ عالم کہ اب اساتذہ اور طلبہ وائس چانسلرز کو اپنے دفتر میں داخل نہیں ہونے دیتے۔

تعلیم فروشی عروج پر ہے، پبلک سیکٹر کی تعلیمی درس گاہوں میں دھول اُڑ رہی ہے اور پرائیویٹ سیکٹر کے ادارے والدین اور طلبہ کو دونوں ہاتھوں سے لُوٹ رہے ہیں۔ ہماری تعلیمی اسناد دنیا میں تسلیم نہیں کی جاتیں۔ وہ زمانہ نہیں رہا، جب اسکولز میں بچّوں کی کردار سازی ہوتی تھی۔ کمپیوٹر اور موبائل نے ہمارے قابلِ رشک خاندانی نظام اور مضبوط رشتوں پر کاری ضرب لگائی ہے۔ 75سالوں میں سب سے بڑی ٹریجڈی یہ ہوئی کہ ہمارے ہاں ہیومن کوالٹی بھی زوال پذیر ہوئی۔ سِول سروس کو معاشرے کی’’ کریم‘‘ کہا جاتا ہے لیکن نوجوان افسر خود تسلیم کرتے ہیں کہ ایمان دار افسران کی تعداد 20فی صد سے کم رہ گئی ہے۔ 

علماء باکردار ہوتے، تو معاشرے کی صُورت اتنی بھیانک نہ ہوتی۔ تاجروں کی ہوس اِتنی شرم ناک ہے کہ بچّوں کے لیے خالص دودھ ملنا ممکن نہیں۔ نئی نسل مغربی کلچر سے مغلوب اور بدترین احساسِ کم تری کا شکار ہے۔ دین بے زار لوگوں نے اِتنا گند مچایا کہ قوم نظریاتی سمت کھو کر ایک بے سمت ہجوم بن چُکی ہے۔ یہ وہ تلخ حقائق ہیں، جن کا چار و ناچار ادراک کیے بغیر ہم اپنی غلطیوں کا مداوا نہیں کر سکتے۔ اللہ کرے، ہم 75سال بعد ہی سہی، اس گرداب سے نکل کر صحیح سمت میں اپنا سفر شروع کر پائیں۔‘‘

سہیل وڑائچ ، سینئر صحافی ، تجزیہ کار

قوموں کی تاریخ میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے اور ہماری قومی تاریخ بھی اِس بات کی مظہر ہے۔ ہم نے 75برسوں میں کھویا بھی بہت کچھ ہے اور پایا بھی بہت کچھ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان نے مختلف صنعتوں اور بہت سے شعبوں میں خاصی ترقّی کی ہے۔بالخصوص، پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہے، جن کے پاس ایٹمی طاقت ہے اور ہماری یہ بہت بڑی کام یابی ہے۔ پاکستان کی فوج دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے۔

نسلِنو تعلیم کے شعبے میں خاصی بہتر ہے اور ہر سال بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہے۔ مسلمان ممالک میں ہم وہ پہلا مُلک ہیں، جس نے ایک مسلم ڈیموکریٹک آئین بنایا، جب کہ بہت سے مسلمان ممالک ابھی تک جمہوری دستور نہیں بنا سکے۔ ہم نے سائنس، ٹیکنالوجی، زراعت، تعلیم (بالخصوص خواتین کی تعلیم)، الیکٹرانک میڈیا، اسپورٹس، صنعت وغیرہ میں کام یابیاں سمیٹیں، لیکن اس کے ساتھ ہم نے کھویا بھی بہت کچھ ہے، خاص طور پر اپنی اخلاقی اقدار اور اچھے رواج کھو دئیے۔

ہم نے سیاسی، حکومتی اور عدالتی معاملات میں اچھی روایات اور مثالیں قائم نہیں کیں اور اسی وجہ سے پاکستان میں ترقّی کی رفتار جیسی ہونی چاہیے تھی، ویسی نہیں ہے۔ جس طرح کے اصولی فیصلے ہونے چاہیے تھے اور ملک کو قانون اور آئین کے مطابق چلنا چاہیے تھا، وہ سب ممکن نہ ہوسکا اور اس آئین، قانون اور جمہوریت سے رُوگردانی کی وجہ سے ہم دنیا سے کافی پیچھے رہ گئے۔ بہرحال، اگر ہم قانون کی حکم رانی پر یقین رکھیں۔آئین ہمیشہ مدّ ِنظر رہے، تو پاکستان مستقبل میں بہتری کی طرف جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر محمّد سلیم مظہر

ماہرِ تعلیم، سابق پرووائس چانسلر، پنجاب یونی ورسٹی

ماضی کا رونا تو سب روتے ہیں، لیکن جو ہوگیا، سو ہوگیا۔ سوال یہ ہے کہ اب اِس75 ویں جشنِ آزادی پر ہمیں مستقبل کا کیا پلان بنانا ہے۔ حصولِ آزادی کے ابتدائی دَور میں کم وسائل اور غیر ہنر مند افرادی قوّت کے باوجود مُلک نے روز افزوں ترقّی کی۔ سرپلس بجٹ پیش کیے، حتیٰ کے جرمنی جیسے ممالک کو قرض دیا، بھارت کے بر عکس، اپنی کرنسی ڈی ویلیو نہیں کی۔پاکستانی ثقافت اور اس کی سماجی اقدار بہت جان دار اور پُرکشش ہیں، چناں چہ پاکستانی دنیا میں کہیں بھی ہوں، اُن سے دلی طور پر جڑے رہتے ہیں۔ دھرتی سے والہانہ عشق کی وجہ سے وہ پردیس سے بھی مُلک کی دامے، درمے، سخنے اور قدمے مدد کرتے اور اس سے محبّت کا دَم بَھرتے ہیں۔

قدرت نے پاکستان کو وسائل سے مالا مال کیا ہے، بہترین انفرا اسٹرکچر اس پر مستزاد، نیز مُلک کی آبادی کا بیش تر حصّہ نوجوان ہے، پھر بھی اِس عظیم مُلک پر عجب آسیب کا سایہ ہے کہ ترقّی و پیش رفت کا سفر ڈھلوان کی طرف جا ری ہے۔ قدرت تسلسل کے ساتھ اس پر اپنی نوازشوں کی بارش برساتی اور ترقّی کے مواقع مہیّا کرتی آ رہی ہے، مگر ہم انھیں بحرانوں میں بدلنے میں دیر نہیں کرتے۔ دنیا کی چَھٹی ایٹمی قوّت اور برّ اعظم ایشیا کا ایک اہم مُلک ہونے کے باوجود ہم خود کو اِس مقام پر لے آئے ہیں کہ ہمارے وجود کے حوالے سے چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ غیر یقینی کے بادل ہر طرف دھند پھیلاتے،اندیشوں کو ہوا دیتے ہیں۔ سوسائٹی میں برداشت اور اختلافِ رائے کا احترام ختم، روا داری مِٹتی، تقسیم اور نفرت پھیلتی جا رہی ہے۔

معاشروں اور ریاستوں کے لیے ایسی صُورتِ حال زہرِ قاتل ہوتی ہے، جس کا فوری تدارک ضروری ہوتا ہے۔ پس، سب سے اہم ذمّے داری تعلیمی اداروں، اساتذہ، سیاست دانوں، مذہبی اسکالرز، رائے سازی کے مراکز اور میڈیا پرسنز پر عاید ہوتی ہے اور اِس ضمن میں سب سے اہم کام ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ تعلیمی سرکاری درس گاہوں کی تعداد میں اضافہ کرنا اور معیار میں بہتری لانا ہے، جہاں بچّوں کی تعلیم کے ساتھ تربیت، کردار سازی اور اقدار کی ترویج کا بھرپور اہتمام ہو، نیز اُن کی باعزّت ملازمتوں کے ساتھ ذاتی کاروبار کے لیے حوصلہ افزائی کی جائے اور وسائل بھی مہیّا کیے جائیں۔ عوام، خصوصاً نوجوانوں میں مطالعے کی عادت پیدا کرنے کے لیے قصبوں سے شہروں تک کتب خانے قائم کیے جائیں اوران سب امور کے لیے فوری طور پر تعلیمی بجٹ میں اضافے کی ضرورت ہے کہ جہالت ہی سب خرابیوں کی ماں ہے۔

واضح رہے، تعلیمی بجٹ بڑھنے سے کئی دیگر مدات میں اخراجات لازمی طور پر کم ہوجائیں گے۔ دُور رس اور پائے دار اثرات یقینی بنانے کے لیے لانگ ٹرم منصوبوں کی اہمیت ہے، اس کے لیے مُلک میں سائنس، ٹیکنالوجی، فنی اور انجینئرنگ کی تعلیم کے ساتھ سماجی و معاشرتی علوم، فنونِ لطیفہ اور ادب و شعر کی تدریس، تحقیق اور ترویج کو اہمیت دی جانی چاہیے، کیوں کہ دنیا کا کوئی مُلک و معاشرہ ایسا نہیں، جس نے سماج اور معاشرے کو ترقّی دیے بغیر ترقّی کی ہو۔

علاوہ ازیں، دیہات اور چھوٹے شہروں سے نقل مکانی کا رجحان ختم کرنے کی بھرپور کوششیں ہونی چاہئیں، اگر وہاں بنیادی سہولتیں مہیّا کی جائیں، تو عوام کو نقل مکانی کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ ایک اور اہم اقدام روز افزوں بڑھتی آبادی پر دانائی سے کنٹرول ہے، ورنہ ترقّی کا راستہ بے منزل ہی رہے گا اور اس کے لیے بھی تعلیم عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ علم کی روشنی سے صحیح راہ کا تعین کریں اور اپنی انفرادی ترقّی کے ساتھ وطنِ عزیز کی کام یابی اور سُرخ روئی کا سامان بھی کر سکیں۔

نیلم احمد بشیر، ادیبہ، ناول نگار

میرے نزدیک پاکستان کو قدرت نے سب کچھ دیا ہے، ہم ہی ناشُکرے واقع ہوئے ہیں اور90 فی صد مسائل ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ حکم رانوں کی ہوسِ اقتدار اور کرپشن نے اگرچہ مجموعی طور پر ہمارے مُلک کا چہرہ داغ دار کردیا ہے، لیکن پھر بھی انعاماتِ خداوندی کی کمی نہیں۔ اور ان ہی کا کرشمہ ہے کہ آج مشکلات کے باوجود ہمارا مُلک پوری دنیا میں بعض خصوصیات میں سرِفہرست ہے۔ فہرست لمبی ہے، مگر چند عنایات دیکھیے۔ پاکستان اسلامی دنیا میں واحد ایٹمی قوّت ہے۔ 

اس کے پاس دنیا کی چَھٹی بڑی فوج ہے۔یہ دنیا کی دوسری بڑی چوٹی، کے۔ ٹو کا مسکن ہے۔ ہمارا خطّہ دنیا کی قدیم ترین انڈس ویلی تہذیب کا گہوارہ ہے۔ ہمارے پاس دنیا کا سب سے بڑا آب پاشی کا نظام ’’پنج آب‘‘ اور دنیا کا سب سے بڑا زرخیز صحرا، تھرپارکر کی صُورت موجود ہے۔ دنیا کی بلند ترین شاہ راہِ قراقرم آٹھویں عجوبے میں شمار ہوتی ہے۔ دنیا کے ذہین ترین افراد میں پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی نجی ایمبولینس سروس کا نیٹ ورک پاکستان کے پاس ہے۔ دنیا کی دوسری سب سے بڑی نمک کی کان یہاں ہے۔ہماری ملالہ کو نوبیل انعام کا اعزاز حاصل ہے۔

اصل میں ہمیں اپنی آزادی کا صحیح معنوں میں احساس ہی نہیں ہے اور نہ ہی ہم اس کی قدر کرتے ہیں۔ ہمارے پاس افرادی قوّت، معدنی ذخائر اور بے پایاں عوامی صلاحیتوں کی کمی نہیں۔ بس، ہمیں یہ دُعا مانگنی چاہیے کہ اے کاش! کوئی ایسا مخلص حکم ران مل جائے، جو ان تمام قوّتوں اور صلاحیتوں کو اجتماعی طور پر بروئے کار لاکر مُلک کو تعمیر وترقّی کے صحیح راستے پر گام زن کرسکے، جیسا کہ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے دیگر ممالک کے حکم رانوں نے اپنے ممالک کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔

ماہین حسن، سی ایس ایس 2020 ء میں اوّل پوزیشن ہولڈر

مَیں اکنامکس اور پولیٹیکل سائنس کی طالبہ ہوں،تو اِنہی دو پہلوئوں پر بات کرنا چاہوں گی۔ جہاں تک گزرے ہوئے برسوں کا تعلق ہے،تو پاکستان اِن دونوں شعبوں میں اُتار چڑھائو کا شکار رہا ہے۔1947 ء میں تو دشمنوں کی نظر میں یہ لگتا تھا کہ پاکستان شاید اپنا وجود بھی برقرار نہیں رکھ سکے گا۔مُلک نے اقتصادی طور پر صفر سے آغاز کیا۔ اِسی طرح زراعت اور انڈسٹری بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ لیکن بعد ازاں50 ء اور60 ء کی دہائیاں پاکستان کے لیے بہترین ثابت ہوئیں، صنعت کاری کا آغاز ہوا اور 60ء کی دہائی میں پاکستان بہت آگے ٹیک آف اسٹیج کی طرف جا رہا تھا۔ 

یہ وہ دَور تھا، جب کوریا بھی پاکستان کو اپنا ماڈل سمجھتا تھا۔ لیکن اِس دوران قوم سیاسی طور پر بہت تکلیف دہ مراحل سے گزری۔ پاکستان کا پہلا آئین دوسری دستور ساز اسمبلی نے 1956ء میں بنایا، جب کہ بھارت میں1951 ء میں آئین نافذ ہو چُکا تھا۔ جب آئین کے نفاذ کا مرحلہ آیا، تو اقتدار کا کھیل شروع ہوگیا۔ اس دوران لوکل گورنمنٹ، ڈیمز کی تعمیر، کالجز، یونی ورسٹیز کا قیام، پاکستانیوں کی بیرونِ ممالک ملازمتوں جیسے کچھ اچھے کام بھی ہوئے، لیکن ہمیں سقوطِ ڈھاکا کا المیہ بھی برداشت کرنا پڑا۔

میرے نزدیک، پاکستان کے مختلف حکم رانوں نے اپنی اپنی سوچ سمجھ کے مطابق8 تعلیمی پالیسیز، نیشنلائزیشن جیسی درجنوں اقتصادی منصوبہ بندیوں اور پارلیمانی، صدارتی طرزِ حکومت جیسے جو ناکام سیاسی اور اقتصادی تجربات کیے،وہ مجموعی طور پر مُلک کی رواں دواں گاڑی کے لیے’’اسپیڈ بریکرز‘‘ بن گئے، جن سے مُلک سیاسی عدم استحکام کے ایسے بھنور میں پھنسا کہ قوم آج بھی غوطہ زن ہے۔ 

آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے50 ء اور 60ء کی دہائیوں میں جو پایا تھا،80 ء اور 90ء کی دہائیوں میں وہ کھونا شروع کردیا۔ بہرحال، بعض منفی پہلوئوں کے باوجود، کالجز اور یونی ورسٹیز کے قیام، موٹر ویز کی تعمیر، خواتین کی قومی تعمیر و ترقّی میں بھرپور شرکت، بیرونِ مُلک پاکستانیوں کی صلاحیتوں کا اعتراف اور سب سے بڑھ کر میڈیا کی آزادی کی صُورت ہم اپنی75 سالہ قومی تاریخ کا کچھ بھرم رکھنے میں کام یاب رہے ہیں۔ 

ہم ابھی تہی دامن نہیں ہوئے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارا آزاد سوشل اور الیکٹرانک میڈیا جمہوریت کی ترقّی میں بالآخر مؤثر کردار ادا کرے گا۔ ہمارے یہاں اب جو قومی، سیاسی اور سماجی شعور بیدار ہوا ہے، وہ عوامی سطح پر قومی احتساب کا ایک مؤثر وسیلہ ثابت ہوگا۔ اِس لیے مجھے یقین ہے کہ آخر کار میڈیا کی یہی طاقت، عوامی حکم رانی کا ذریعہ بنے گی اور اسی کے ذریعے سماجی، سیاسی اور اقتصادی EVILS کا خاتمہ ہوگا۔ مَیں آنے والے برسوں سے متعلق بہت پُرامید ہوں۔ پاکستان اِس سے پہلے بھی اِس قسم کے اقتصادی اور سیاسی بحرانوں سے نکل چُکا ہے۔ پاکستانی قوم باصلاحیت ہے اور قدرت نے ہمیں بے پناہ وسائل سے نوازا ہے۔ یہ مُلک انشاء اللہ نشیب و فراز کی کٹھنائیوں سے بالآخر کندن بن کر نکلے گا۔

ایک عام آدمی

سوال یہ ہے کہ ایک عام آدمی، جو ریاست کی عمارت میں بنیادی اینٹ کی حیثیت رکھتا ہے، 75ویں جشنِ آزادی پر اُس کے جذبات کیا ہیں؟ سفید پوش، متوسّط طبقے، غربت اور خوش حالی کی دو لکیروں کے درمیان دن رات روزی روٹی کے چکروں میں پھنسے مُلک کی 80فی صد آبادی کا نمائندہ ایک ’’عام آدمی‘‘ 75ویں جشنِ آزادی کو مُلکی تاریخ کا ایک فیصلہ کُن موڑ قرار دیتا ہے۔وہ ماضی کی طرف مُڑ کر دیکھتا ہے، تو ہرطرف تلخ اور عبرت ناک داستانیں بکھری نظر آتی ہیں، مستقبل میں جھانکتا ہے،تو وہ بھی کچھ زیادہ روشن نہیں۔

اسی کی بنیاد پر وہ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ پاکستان جن مقاصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا، بدقسمتی سے وہ پورے نہیں ہوسکے۔ ایک عام آدمی کا کہنا ہے کہ’’پاکستان کی بنیادوں میں کھوکھلاپن اُسی وقت پیدا ہوگیا تھا، جب جعلی اور جھوٹے کلیمز کے تحت کئی لوگ لکھ پتی ہوئے اور مستحق و بے سہارا لوگ کنگال ہوگئے۔ پھر فوجی حکم رانوں، سیاست دانوں، جاگیرداروں کے درمیان اقتدار کا ایک ایسا نہ ختم ہونے والا کھیل شروع ہوا، جس نے جمہوری اقدار پامال کردیں۔ ہمارے حکم ران خواہ وہ فوجی تھے یا سیاست دان، اُنہیں صرف اپنے اقتدار کو دوام بخشنے ہی سے دل چسپی تھی۔

اِسی لیے کسی بھی حکم ران کی ترجیحات میں عوام کی بہبود شامل نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ آج برباد معیشت، عوامی سہولتوں سے محرومی، کرپشن اور اخلاقی اقدار کی پستیوں کے حوالے سے ہمارا مُلک دنیا کے پس ماندہ ترین ممالک میں شامل ہے۔ پاسپورٹ کسی بھی مُلک کی شناخت اور اُس کی عزّت و توقیر کی علامت ہوتا ہے، بدقسمتی سے پاکستانی پاسپورٹ اِس وقت دنیا کے10 بدترین مُمالک میں چوتھے نمبر پر ہے۔ 

اِسی طرح کرپشن میں 180 ممالک میں ہم 140ویں نمبر پر ہیں۔ اِس میں شک نہیں کہ سڑکوں، عمارتوں، رہائشی کالونیوں، کاروں کی ریل پیل، پلازوں اور عالی شان کوٹھیوں کی صُورت ہمارا معیارِ زندگی بلند ہوا ہے، لیکن آج بھی15 فی صد اشرافیہ تمام وسائل پر قابض ہے، جب کہ75 فی صد آبادی تعلیم، صحت، صاف پانی اور انصاف جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم۔ 

مختصراً یہ کہوں گا کہ گزشتہ 75سال میں اقتدار کی رسّہ کشی میں اگر کوئی برباد ہوا ہے، تو وہ عوام اور مُلکی معیشت ہے۔ایک آزاد مملکت کے قیام پر جنم لینے والے جذبات اور جوش وخروش کو اس کی تعمیر و ترقّی کے لیے ’’چینلائز‘‘ نہیں کیا گیا۔ اِس جوش و خروش کو بند باندھ کر ’’ڈیم‘‘ کی صُورت دی جاتی، تو حالات مختلف ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم ایک منظّم قوم کی بجائے ایک ہجوم کی شکل اختیار کر چُکے ہیں۔ لیکن مَیں صُورتِ حال کو ایک اور پہلو سے بھی دیکھتا ہوں۔ وہ یہ کہ ہمارا مُلک27 ویں رمضان کی مبارک ساعتوں میں وجود میں آیا تھا، اِس لیے ہمارا ایمان ہے کہ مشکلات، مسائل، چیلنجز کے کوہِ گراں کے باوجود یہ اِن شاء اللہ قائم و دائم رہے گا۔‘‘