ڈاکٹر یاسمین شیخ، کراچی
عام طور پر دھوپ کی شدّت سے، جسم سے خارج ہونے والے پسینے کےنمکیات جِلدی جلن یا خارش کا باعث بنتے ہیں، پھر ماحول میں موجود فنگس کے انڈے (Spores) بھی ایسی جِلد میں پیوست ہوکر خوراک حاصل کرتے اور نشوونما پاتے ہیں۔ اس مرض کی ابتدائی علامت ایک سُرخی مائل دائرہ ہے، جس میں پہلے خارش اور پھرجلن محسوس ہوتی ہے اور اگر بروقت درست تشخیص نہ ہو، تو نہ صرف دائرے کا حجم بڑھ جاتا ہے، بلکہ یہ جسم کے دیگر حصّوں مثلاً ران، بغل، گردن، چَڈوں، زیریں سینے، ناف کے گرد، کمر کے نچلے حصّے، گھٹنوں کے پیچھے اورپائوں کی انگلیوں کے درمیان بھی پھیل جاتے ہیں، جن میں اس قدر شدید خارش ہوتی ہے کہ بعض افراد جِلد کُھجا کُھجا کر زخمی کرلیتے ہیں۔
چوں کہ یہ ایک متعدّی مرض ہے، تو بیک وقت گھر کے کئی افراد بھی اس فنگس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ در اصل بیش تر گھرانوں میں عموماً ادرادِ خانہ ایک ہی تولیا استعمال کرتے ہیں، تو جب کوئی تن درست فرد ایسے تولیے سے جِلد صاف کرتا ہے، جسے پہلے متاثرہ فرد استعمال کرچُکا ہو، تو فنگس کےانڈے اس کی جِلد پر بھی چپک کر فنگس کا باعث بن جاتے ہیں۔ اِسی طرح ایک ہی صابن استعمال کرنے کے نتیجے میں بھی اس مرض سے متاثر ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ بہتر تو یہی ہے کہ جسے جِلدی خارش ہو، وہ اپنا تولیا، صابن الگ کرلے، تاکہ دیگر افراد محفوظ رہ سکیں۔
نیز، مریض کے کپڑے بھی الگ دھوئے جائیں۔ عام طور پر گھروں میں ایک دوسرے کے ملبوسات بھی بوقتِ ضرورت استعمال کرلیےجاتے ہیں۔ بظاہر اس میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن اگر کسی کو کوئی متعدّی مرض لاحق ہو، تواحتیاط ضروری ہے،تاکہ مرض ایک ہی فرد تک محدود رہے۔ اس کے علاوہ پائوں، خصوصاً انگلیوں کے درمیان یا ناخنوں کے اندر ہونے والے فنگس کی وجہ جوتے بھی ہوسکتے ہیں کہ کئی گھنٹے جوتے پہنے رہنے سے پسینے اور گرمی کی بنا پر فنگس تیزی سے پرورش پاتا ہے، نتیجتاً پاؤں کے تلووں اور اوپری حصّے پر سُرخی، جلن یا خارش ظاہر ہونے لگتی ہے۔ ناخن کا رنگ بدل جاتا ہے۔
بعض اوقات بُھربُھرا ہو کر ٹوٹ بھی سکتا ہے۔دراصل، متاثرہ فرد کے جوتوں کے اندر فنگس کے انڈے رہ جاتے ہیں اور اگر کوئی دوسرا فرد وہی جوتے پہن لے تو اُس کے بھی پیر متاثر ہو جاتے ہیں۔ وہ افراد،جن کے پاؤںفنگس سے متاثر ہوں، کم از کم جوتوں کے دو جوڑے رکھیں، تاکہ ایک دِن جو جوتا استعمال کیا جائے، اگلے روز تبدیل کرکے اُسے ہوا اور روشنی میں رکھ دیا جائے کہ اس طرح فنگس کے انڈے دھوپ اور گرمی سے خود بخود مَر جاتے ہیں۔ ویسےگرم موسم میں سینڈل یا کُھلی چپل کا استعمال بہت موزوں رہتاہے کہ ان میں جِلد کو ہوا لگتی ہے اور فنگس کے پنپنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ نیز، جوتوں کے ساتھ ہر روز دُھلے ہوئے کاٹن کے موزے بھی استعمال کریں۔
فنگس کی ایک وجہ جانور بھی ہیں، جن میں کتّے اور بلیاں سرِفہرست ہیں۔ یہ جانور جگہ جگہ زمین، نَم مٹّی، پودوں کے درمیان، گوبر، کھاد کے پاس بیٹھتے ہیں، جہاں سے فنگس کے انڈے ان جانوروں کے بالوں سے چپک جاتے ہیں اور پھر جَڑوں میں جاکر خارش کا سبب بنتے ہیں۔ جس کے سبب ان کی جِلد سے کہیں کہیں سے بال غائب ہو جاتے ہیں، تو کہیں مٹر کے دانے کے برابر دانے بن جاتے ہیں۔ عموماًیہ جانور خارش دُور کرنے کے لیے منہ سے کھجاتے ہیں یا دیوار یا درخت وغیرہ سے خود کو رگڑ کر آرام پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
کتّوں سے یہ فنگس انسانوں تک منتقل ہونے کی وجہ دھوبی گھاٹ بھی ہوسکتا ہے، کیوں کہ جب دھوبی کپڑےدھو کر سکھانے کے لیے کسی وسیع زمین پر پھیلاتاہے اور وہاں کتّوں یا بلیوں کے فنگس زدہ بال گرے ہوں، تو اُن بالوں میں موجود فنگس کے انڈے کپڑوں میں چپک کر انسانوں تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔
ضروری نہیں کہ ہر مقام پرفنگس کے انڈے موجود ہوں، لیکن بہرحال ان سے متاثر ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ البتہ دُھلے کپڑے رسیوں پر لٹکانے سے فنگس کے انڈوں سے متاثر ہونے کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں۔عام طور پر پالتو بلیوں سے فنگس کے انڈے منتقل نہیں ہوتے، بشرطیکہ اُن کی نگرانی، دیکھ بھال اور علاج ہوتا رہے۔ البتہ، اگر گھر میں کوئی آوارہ بلّی، بلّا آجائے، تو وہ مرض پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ پالتو بلیاں چوں کہ صاف ستھری ہوتی ہیں، تو اُن کے بالوں میں لگنے والے فنگس کا فوراً پتا نہیں چلتا اور اگر خدانخواستہ ان کے بالوں میں کہیں سے فنگس لگ جائے، تو پھر اُس کے انڈے بستروں، چادروں، قالین، صوفوں یا بچّوں، بڑوں تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں اور نتیجتاً گھر کا ہر فرد خارش میں مبتلا ہوسکتا ہے۔
خصوصاً بچّوں کے سَر کے بال دائرے کی شکل میں جھڑنے لگتے ہیں۔ بعض بچّوں کو ان دائروں میں شدید اور بعض کو معمولی نوعیت کی خارش محسوس ہوتی ہے۔ اگر خدانخواستہ فنگس کے انڈے سانس کی نالی میں چلے جائیں، تو دَمے جیسی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں، حالاں کہ یہ دَمہ نہیں ہوتا، مگر جب تک متاثرہ فرد کے بلغم میں فنگس تشخیص نہ ہو، فیصلہ کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ عموماً دیہات میں نہروں، جوہڑوں وغیرہ میں انسان، جانور ساتھ نہا رہے ہوتے ہیں، تو اکثر ان جانوروں کے جراثیم انسانوں کو بھی متاثر کردیتے ہیں۔ اسی طرح شہروں میں سوئمنگ پولزمیں بچّے، بڑے ساتھ نہاتے ہیں اور تیراکی بھی سیکھتے ہیں، تو ان سوئمنگ پولز میں نہانے والوں میں سے اگر کوئی داد یا کسی چُھوت والی خارش میں مبتلا ہو، تو وہ دیگر افراد کو متاثر کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔
فنگس کی ایک قسم Deep Fungus کہلاتی ہے۔ یہ جسم کے اندرونی اعضاء کو سخت نقصان پہنچاتی ہے۔ تاہم، یہ مرض عام نہیں۔ حال ہی میں جب بھارت میں کورونا وائرس کی وبا پھیلی، تو کم زور قوّتِ مدافعت کے حامل افراد میں بلیک فنگس نامی قسم بھی پھوٹ پڑی، جس سے نہ صرف ان افراد کے اندرونی اعضاء متاثر ہوئے، بلکہ آنکھوں میں بھی اس قدر شدید تکلیف ہوئی کہ جان بچانے کے لیے کسی کی ایک آنکھ اور کسی کی دونوں آنکھیں نکالنی پڑیں۔ جب اس امر پر تحقیق کی گئی کہ یہ فنگس بھارت ہی میں اس قدر شدّت سے کیوں پھیلا، تو پتا چلا کہ وہاں چوں کہ گوبر کو بطور تبّرک استعمال کیا جاتا ہے، تو اس میں موجود بلیک فنگس تباہ کن ثابت ہوا۔
تاہم، حیران کُن بات یہ ہے کہ جب گوبر کے اُپلے بنا کر سُکھالیے جاتے ہیں، تو یہ خطرناک ثابت نہیں ہوتے۔ یاد رہے، صدیوں سے گاؤں، دیہات میںچولھے جلا نے کے لیے گوبربطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے، تو چوں کہ سوکھی چیز میں پانی، نمی نہیں رہتی، تو فنگس یا دیگر جراثیم ناپید ہو جاتے ہیں۔فنگس کی ایک معمولی قسم میں چہرے، گردن، سینے، پیٹھ پر سفیدی مائل بُھربُھرے، چھوٹے چھوٹے دائرے اُبھر آتے ہیں، جن میں معمولی سرسراہٹ سی محسوس ہوتی ہے۔ سیاہ رنگت کے حامل افراد میں یہ دھبّے سفید اور گوری رنگت والوں میں گلابی یا برائون ہوتے ہیں، جو گرمیوں میں پسینہ آنے پر زیادہ واضح ہو جاتے ہیں، جب کہ موسمِ سرما میں مدھم پڑ جاتے ہیں۔تاہم، علاج سے مکمل طور پر غائب ہو جاتے ہیں۔
اس مرض سے تحفّظ کے لیےسب سے اہم امر جسمانی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا ہے۔ اگر گھر میں کوئی فنگس یاداد میں مبتلا ہو تو متاثرہ فرد کے زیرِ استعمال اشیاء خاص طور پر صابن، تولیا کپڑے وغیرہ الگ کر لیے جائیں۔ ماہر معالج سے فوری رابطہ کریں، گھر میں پالتو جانور موجود ہوں، تو اُن کی صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا جائے۔اگر اُن کی جِلد میں کوئی تبدیلی محسوس ہو تو فوری جانوروں کےڈاکٹر سے رجوع کریں۔
گھروں میں میلے کپڑے ایک جگہ ڈھیربنا کر رکھنے سے گریز کریں کہ بلیاں راتوں کو ان پر سو کر بیماری پھیلا سکتی ہیں۔ خارش کی شکایت ہو، تو گھریلو ٹوٹکے آزمائیں، نہ ازخود کوئی کریم، لوشن استعمال کریں کہ اس طرح فنگس بڑھ سکتا ہے اور متاثرہ جلد کالی بھی ہوسکتی ہے، لہٰذا ازخود علاج کی بجائے فوری طور پر کسی ماہر ڈرماٹولوجسٹ سے مکمل علاج کروائیں،تاکہ مرض سے جلد از جلدشفا ملے۔ (مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ جِلد ہیں اور انکل سریا اسپتال میں خدمات انجام دے رہی ہیں)
عام طور پر دھوپ کی شدّت سے، جسم سے خارج ہونے والے پسینے کےنمکیات جِلدی جلن یا خارش کا باعث بنتے ہیں، پھر ماحول میں موجود فنگس کے انڈے (Spores) بھی ایسی جِلد میں پیوست ہوکر خوراک حاصل کرتے اور نشوونما پاتے ہیں۔ اس مرض کی ابتدائی علامت ایک سُرخی مائل دائرہ ہے، جس میں پہلے خارش اور پھرجلن محسوس ہوتی ہے اور اگر بروقت درست تشخیص نہ ہو، تو نہ صرف دائرے کا حجم بڑھ جاتا ہے، بلکہ یہ جسم کے دیگر حصّوں مثلاً ران، بغل، گردن، چَڈوں، زیریں سینے، ناف کے گرد، کمر کے نچلے حصّے، گھٹنوں کے پیچھے اورپائوں کی انگلیوں کے درمیان بھی پھیل جاتے ہیں، جن میں اس قدر شدید خارش ہوتی ہے کہ بعض افراد جِلد کُھجا کُھجا کر زخمی کرلیتے ہیں۔
چوں کہ یہ ایک متعدّی مرض ہے، تو بیک وقت گھر کے کئی افراد بھی اس فنگس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ در اصل بیش تر گھرانوں میں عموماً ادرادِ خانہ ایک ہی تولیا استعمال کرتے ہیں، تو جب کوئی تن درست فرد ایسے تولیے سے جِلد صاف کرتا ہے، جسے پہلے متاثرہ فرد استعمال کرچُکا ہو، تو فنگس کےانڈے اس کی جِلد پر بھی چپک کر فنگس کا باعث بن جاتے ہیں۔ اِسی طرح ایک ہی صابن استعمال کرنے کے نتیجے میں بھی اس مرض سے متاثر ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ بہتر تو یہی ہے کہ جسے جِلدی خارش ہو، وہ اپنا تولیا، صابن الگ کرلے، تاکہ دیگر افراد محفوظ رہ سکیں۔
نیز، مریض کے کپڑے بھی الگ دھوئے جائیں۔ عام طور پر گھروں میں ایک دوسرے کے ملبوسات بھی بوقتِ ضرورت استعمال کرلیےجاتے ہیں۔ بظاہر اس میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن اگر کسی کو کوئی متعدّی مرض لاحق ہو، تواحتیاط ضروری ہے،تاکہ مرض ایک ہی فرد تک محدود رہے۔ اس کے علاوہ پائوں، خصوصاً انگلیوں کے درمیان یا ناخنوں کے اندر ہونے والے فنگس کی وجہ جوتے بھی ہوسکتے ہیں کہ کئی گھنٹے جوتے پہنے رہنے سے پسینے اور گرمی کی بنا پر فنگس تیزی سے پرورش پاتا ہے، نتیجتاً پاؤں کے تلووں اور اوپری حصّے پر سُرخی، جلن یا خارش ظاہر ہونے لگتی ہے۔ ناخن کا رنگ بدل جاتا ہے۔
بعض اوقات بُھربُھرا ہو کر ٹوٹ بھی سکتا ہے۔دراصل، متاثرہ فرد کے جوتوں کے اندر فنگس کے انڈے رہ جاتے ہیں اور اگر کوئی دوسرا فرد وہی جوتے پہن لے تو اُس کے بھی پیر متاثر ہو جاتے ہیں۔ وہ افراد،جن کے پاؤںفنگس سے متاثر ہوں، کم از کم جوتوں کے دو جوڑے رکھیں، تاکہ ایک دِن جو جوتا استعمال کیا جائے، اگلے روز تبدیل کرکے اُسے ہوا اور روشنی میں رکھ دیا جائے کہ اس طرح فنگس کے انڈے دھوپ اور گرمی سے خود بخود مَر جاتے ہیں۔ ویسےگرم موسم میں سینڈل یا کُھلی چپل کا استعمال بہت موزوں رہتاہے کہ ان میں جِلد کو ہوا لگتی ہے اور فنگس کے پنپنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ نیز، جوتوں کے ساتھ ہر روز دُھلے ہوئے کاٹن کے موزے بھی استعمال کریں۔
فنگس کی ایک وجہ جانور بھی ہیں، جن میں کتّے اور بلیاں سرِفہرست ہیں۔ یہ جانور جگہ جگہ زمین، نَم مٹّی، پودوں کے درمیان، گوبر، کھاد کے پاس بیٹھتے ہیں، جہاں سے فنگس کے انڈے ان جانوروں کے بالوں سے چپک جاتے ہیں اور پھر جَڑوں میں جاکر خارش کا سبب بنتے ہیں۔ جس کے سبب ان کی جِلد سے کہیں کہیں سے بال غائب ہو جاتے ہیں، تو کہیں مٹر کے دانے کے برابر دانے بن جاتے ہیں۔ عموماًیہ جانور خارش دُور کرنے کے لیے منہ سے کھجاتے ہیں یا دیوار یا درخت وغیرہ سے خود کو رگڑ کر آرام پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
کتّوں سے یہ فنگس انسانوں تک منتقل ہونے کی وجہ دھوبی گھاٹ بھی ہوسکتا ہے، کیوں کہ جب دھوبی کپڑےدھو کر سکھانے کے لیے کسی وسیع زمین پر پھیلاتاہے اور وہاں کتّوں یا بلیوں کے فنگس زدہ بال گرے ہوں، تو اُن بالوں میں موجود فنگس کے انڈے کپڑوں میں چپک کر انسانوں تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔
ضروری نہیں کہ ہر مقام پرفنگس کے انڈے موجود ہوں، لیکن بہرحال ان سے متاثر ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ البتہ دُھلے کپڑے رسیوں پر لٹکانے سے فنگس کے انڈوں سے متاثر ہونے کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں۔عام طور پر پالتو بلیوں سے فنگس کے انڈے منتقل نہیں ہوتے، بشرطیکہ اُن کی نگرانی، دیکھ بھال اور علاج ہوتا رہے۔ البتہ، اگر گھر میں کوئی آوارہ بلّی، بلّا آجائے، تو وہ مرض پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ پالتو بلیاں چوں کہ صاف ستھری ہوتی ہیں، تو اُن کے بالوں میں لگنے والے فنگس کا فوراً پتا نہیں چلتا اور اگر خدانخواستہ ان کے بالوں میں کہیں سے فنگس لگ جائے، تو پھر اُس کے انڈے بستروں، چادروں، قالین، صوفوں یا بچّوں، بڑوں تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں اور نتیجتاً گھر کا ہر فرد خارش میں مبتلا ہوسکتا ہے۔
خصوصاً بچّوں کے سَر کے بال دائرے کی شکل میں جھڑنے لگتے ہیں۔ بعض بچّوں کو ان دائروں میں شدید اور بعض کو معمولی نوعیت کی خارش محسوس ہوتی ہے۔ اگر خدانخواستہ فنگس کے انڈے سانس کی نالی میں چلے جائیں، تو دَمے جیسی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں، حالاں کہ یہ دَمہ نہیں ہوتا، مگر جب تک متاثرہ فرد کے بلغم میں فنگس تشخیص نہ ہو، فیصلہ کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ عموماً دیہات میں نہروں، جوہڑوں وغیرہ میں انسان، جانور ساتھ نہا رہے ہوتے ہیں، تو اکثر ان جانوروں کے جراثیم انسانوں کو بھی متاثر کردیتے ہیں۔ اسی طرح شہروں میں سوئمنگ پولزمیں بچّے، بڑے ساتھ نہاتے ہیں اور تیراکی بھی سیکھتے ہیں، تو ان سوئمنگ پولز میں نہانے والوں میں سے اگر کوئی داد یا کسی چُھوت والی خارش میں مبتلا ہو، تو وہ دیگر افراد کو متاثر کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔
فنگس کی ایک قسم Deep Fungus کہلاتی ہے۔ یہ جسم کے اندرونی اعضاء کو سخت نقصان پہنچاتی ہے۔ تاہم، یہ مرض عام نہیں۔ حال ہی میں جب بھارت میں کورونا وائرس کی وبا پھیلی، تو کم زور قوّتِ مدافعت کے حامل افراد میں بلیک فنگس نامی قسم بھی پھوٹ پڑی، جس سے نہ صرف ان افراد کے اندرونی اعضاء متاثر ہوئے، بلکہ آنکھوں میں بھی اس قدر شدید تکلیف ہوئی کہ جان بچانے کے لیے کسی کی ایک آنکھ اور کسی کی دونوں آنکھیں نکالنی پڑیں۔ جب اس امر پر تحقیق کی گئی کہ یہ فنگس بھارت ہی میں اس قدر شدّت سے کیوں پھیلا، تو پتا چلا کہ وہاں چوں کہ گوبر کو بطور تبّرک استعمال کیا جاتا ہے، تو اس میں موجود بلیک فنگس تباہ کن ثابت ہوا۔
تاہم، حیران کُن بات یہ ہے کہ جب گوبر کے اُپلے بنا کر سُکھالیے جاتے ہیں، تو یہ خطرناک ثابت نہیں ہوتے۔ یاد رہے، صدیوں سے گاؤں، دیہات میںچولھے جلا نے کے لیے گوبربطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے، تو چوں کہ سوکھی چیز میں پانی، نمی نہیں رہتی، تو فنگس یا دیگر جراثیم ناپید ہو جاتے ہیں۔فنگس کی ایک معمولی قسم میں چہرے، گردن، سینے، پیٹھ پر سفیدی مائل بُھربُھرے، چھوٹے چھوٹے دائرے اُبھر آتے ہیں، جن میں معمولی سرسراہٹ سی محسوس ہوتی ہے۔ سیاہ رنگت کے حامل افراد میں یہ دھبّے سفید اور گوری رنگت والوں میں گلابی یا برائون ہوتے ہیں، جو گرمیوں میں پسینہ آنے پر زیادہ واضح ہو جاتے ہیں، جب کہ موسمِ سرما میں مدھم پڑ جاتے ہیں۔تاہم، علاج سے مکمل طور پر غائب ہو جاتے ہیں۔
اس مرض سے تحفّظ کے لیےسب سے اہم امر جسمانی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا ہے۔ اگر گھر میں کوئی فنگس یاداد میں مبتلا ہو تو متاثرہ فرد کے زیرِ استعمال اشیاء خاص طور پر صابن، تولیا کپڑے وغیرہ الگ کر لیے جائیں۔ ماہر معالج سے فوری رابطہ کریں، گھر میں پالتو جانور موجود ہوں، تو اُن کی صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا جائے۔اگر اُن کی جِلد میں کوئی تبدیلی محسوس ہو تو فوری جانوروں کےڈاکٹر سے رجوع کریں۔
گھروں میں میلے کپڑے ایک جگہ ڈھیربنا کر رکھنے سے گریز کریں کہ بلیاں راتوں کو ان پر سو کر بیماری پھیلا سکتی ہیں۔ خارش کی شکایت ہو، تو گھریلو ٹوٹکے آزمائیں، نہ ازخود کوئی کریم، لوشن استعمال کریں کہ اس طرح فنگس بڑھ سکتا ہے اور متاثرہ جلد کالی بھی ہوسکتی ہے، لہٰذا ازخود علاج کی بجائے فوری طور پر کسی ماہر ڈرماٹولوجسٹ سے مکمل علاج کروائیں،تاکہ مرض سے جلد از جلدشفا ملے۔ (مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ جِلد ہیں اور انکل سریا اسپتال میں خدمات انجام دے رہی ہیں)