• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچّے اسکول اور سعدیہ گروسری کے لیے گئی ہوئی تھی ، جب کہ نسرین کچن میں مصروف تھی، تو ہم دَبے پائوں گھر سے نکل آئے۔ سچّی بات ہے، ہم آر کیو سی کے اِس سنسان سے علاقے کے واحد اسٹور کی خاتون ملازم سے ملنا،باتیں کرنا چاہتے تھے کہ وہ انگریزی میں رواں ہونے کے ساتھ بےحد خوش مزاج بھی تھی۔ ہمیں تو وہ چالیس برس کی بھی نہیں لگتی تھی، پر جب اس نے پچاس، پچپن کے اردگرد کے دَور کا بتایا،قصّے سُنائے تو ہنستے ہوئے ہم نے اپنی زبان میں کہا ’’ہائیں، یہ تو وَرے کھانی( سال کھانی)ہے۔‘‘ اور اس کے نو بہن، بھائی بھی تھے۔’’باپ، رے باپ! چینی جوڑے کے اتنے ڈھیر سارے بچّے ،یہ کیسے ہواکہ یہاں تو ’’ایک خاندان،ایک بچّہ کی پالیسی ہے‘‘۔ 

بےچارے چینی بچّے تو بہن بھائیوں کو ترستے ہیں۔‘‘ہم نے اسٹور والی خاتون سے پوچھا۔’’ یہ پابندیوں سے پہلے کی بات ہے، میرے تو اپنے پانچ بچّے ہیں۔‘‘ خاتون نے جواب دیا۔ پھر تھوڑی بہت اِدھر اُدھر کی باتیں ہوئیں، تو ہمیں وہ خاتون انتہائی دل چسپ معلوم ہوئی اور ہم نے اُسی وقت سوچ لیا کہ کسی دن اس کے ساتھ خُوب گپ شپ کریں گے۔ آج موقع ملا، تو اُس سے ملنے چل نکلے۔ ہم خراماں خراماں اسٹور میں داخل ہوئے، تو اناچی(اسٹور کی ملازم خاتون) نے مُسکرا کر ہمیں ’’ہیلو‘‘ کہا۔

ہم نے وہاں سےخشک میواجات کا ایک پیکٹ خریدا اور کاؤنٹر کے پاس رکھے اسٹول پر بیٹھتے ہوئے اُسے مخاطب کیا۔’’اناچی!مجھے یہاں کا کچھ احوال سنائو۔‘‘ ’’ڈئیر! یہ میرا ڈیوٹی ٹائم ہے، مَیں اس وقت تم سے گپ شپ نہیں کرسکتی۔‘‘اناچی نے مُسکراتے ہوئے ہی سہی، مگر دوٹوک جواب دے دیا۔ اُس کے احساسِ ذمّے داری نے تو ہمیں حیرت زدہ ہی کردیا تھا۔خیر، ہم بھی کہاں ہار ماننے والے تھے، تھوڑا سا مدافعانہ انداز اپناتے ہوئے کہا’’ارے بھئی، ہم کب تمہاری ذمّے داری میں رکاوٹ بنیں گے، دیکھو ناں، اس وقت ایک بھی گاہک نہیں ہے۔

جب تک کوئی گاہک نہیں آتا، ہم سے باتیں کرتی رہو، جب آجائے تو اُسے اٹینڈ کر لینا۔‘‘ ’’نہیں، ڈیوٹی کے دوران ذاتی باتیں کرنا اصول کے خلاف ہے۔ میری ڈیوٹی رات نو بجے ختم ہوگی، مَیں اس کے بعد تم سے بات چیت کرلوں گی۔ ویسے بھی جب اسٹور میں گاہک نہیں ہوتے، تو مَیں چیزوں کی ترتیب، ریکس کی صفائی سُتھرائی اور حساب کتاب دیکھتی ہوں کہ یہ تمام اُمور بھی میری ذمّے داریوں میں شامل ہیں۔ ‘‘ اناچی کی باتیں سُن کر ہم کچھ شرمندہ سے ہوگئے۔’’واقعی، قومیں ایسے ہی نہیں بنتیں،چالیس سال میں اس قدر ترقّی کرنے والی یہ قوم دنیا کی سُپر پاوَر بننےکی بس آخری سیڑھی پر کھڑی ہے۔ اس انتظار میں ہے کہ کب یہ آخری پوڈا بھی چھلانگ مار کر چڑھ جائےاور ہمیں یقین ہے کہ ایسا ہو بھی جائے گا کہ جس مُلک کے عوام اس قدر محنتی، حکمران مخلص ہوں، اسے سُپر پاوَر بننے سے بھلا کون سا مُلک روک سکتا ہے۔‘‘

اسٹور سے آنے کے بعد ہمارا سارا دن بس انہی سوچوں میں گزرا۔’’ہمارے اوپر یہ عنایت کیوں نہ ہوئی، ہم پٹری پر چڑھے تو تھے، تو پھر اُتر کیوں گئے، ہماری قوم اتنی ترقّی کیوں نہ کر سکی۔ ‘‘یہ اور اس جیسے کئی دُکھ بَھرے سوال و جواب ہمیں مضطرب کرتے کرتے بالآخرنیند کی آغوش میں لے گئے۔ پھر رات کے کھانے سے فارغ ہو کر ہم نو بجے تک دوبارہ اناچی کے پاس جا پہنچے۔ ہم تو بھئی ،اُس کی انگریزی پر بھی حیران تھے کہ چینی اتنی رواں انگریزی کہاں بول پاتے ہیں۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ اس نے کچھ وقت لندن میں اپنے بھائی کے پاس گزارا ہے، یوں اس کو انگریزی پراس قدرعبور ہے۔’’تم نے بتایا تھا کہ تم لکھاری ہو،کہانیاں لکھتی ہو۔‘‘ 

اناچی نے ہماری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔’’ہاں جی، میری تو ساری زندگی ہی کہانیوں سے بَھری پڑی ہے۔‘‘ ہم نے بتایا۔ ’’لوجی، تم کہانیاں لکھتی ہو اور میری تو زندگی ہی ایک کہانی ہے۔‘‘ اناچی جیسے ماضی میں جھانکتے ہوئے بولی۔ ’’پہلی کہانی تو غربت کی ہے، تم سوچ بھی نہیں سکتیں کہ ہم لوگ کتنے غریب تھے۔ ویسے کئی سال قبل چینیوں کی اکثریت اسی طرح کی غربت کا شکار تھی۔ میری پیدائش1958ء کی ہے، تو پیدا ہونے سے ہوش سنبھالنے اور بالغ ہونے تک ارد گرد بس یہی ایک غربت کا منظر دیکھا۔‘‘ اناچی نے مزید بتایا، تو ہمیں بیگم اختر ریاض الدّین کا ماسکو کا سفر نامہ یاد آیا گیا کہ جب وہ 1960ء میں روس گئیں اور شاپنگ کے لیے نکلیں، تو ان کی خُوب صُورت سینڈل دیکھ کر عام روسی عورتیں حیرت زدہ رہ گئیں۔

پھر درمیانی عُمر کی ایک عورت نے پُر امید لہجے میں کہا’’کوئی بات نہیں، بس اگلے پنج سالہ منصوبے میں ہمیں بھی ایسے جوتے نصیب ہوں گے۔‘‘اور دیکھیں، آج روس کہاں سے کہاں نکل گیا اور ہم کتنا پیچھے رہ گئے۔ ’’اناچی! چینیوں کی زندگیوں میں ان رنگا رنگ ملبوسات کی بہاریں، یہ ترقیاں، کام یابیاں کب شامل ہوئیں؟‘‘ہم نے پوچھا۔ ’’ارے ڈارلنگ! تم اتنی جلدی مجھ سے سب کچھ پوچھ لیناچاہتی ہو، سیدھا ترقّی کی داستان پر آگئیں۔ ٹھہرو ذرا، دھیرے دھیرے سب سُناتی ہوں۔ 

ثقافتی انقلاب کے دنوں کی ایک جھلک
 ثقافتی انقلاب کے دنوں کی ایک جھلک 

ہاں، تو بات یہ ہے کہ ایک تو ہم غریب، اُس پر ڈھیر سارے بہن بھائی۔ ہم نو بھائی، بہن تھے۔دادا، دادی بھی ہمارے ساتھ ہی رہتے تھے۔گویا، ایک گھر میں کم از کم تیرہ افراد تو تھے ہی۔ پھر کبھی پھوپھیاں، چچّا، ماموں وغیرہ بھی آدھمکتےکہ اُس وقت خاندان والوں میں بہت محبّت ہوتی تھی، معاشی ابتری کے با وجود نوالے بانٹ کر کھانے کی روایت تھی۔ساٹھ کی دَہائی کا زمانہ معاشی مشکلات سے بھرا تھا۔ ہر ماہ مقرّرہ مقدار میں اناج ملتا تھا۔ اوپر سے کبھی کبھار ابّا کے رشتے دار بھی آجاتے ، مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہیں کھانا کھلائے بغیر جانے دیا ہو۔ اکثر رات کو مکئی کھا کر پیٹ بھر لیا کرتے تھے۔

میرے والد بہت اچھے تھے، امّاں کی بہت مدد کرتے تھے، کھانا پکانے سے لانڈری تک ہر کام میں والدہ کا ہاتھ بٹاتے۔‘‘’’یہ ہوئی ناں بات، جب رفاقت میں احساس اور خیال کی شیرینی گُھل جائے، تب پہاڑ بھی کاٹنے پڑیں تو عورت گھبراتی نہیں ہے۔‘‘ہم بے اختیار ہی بول پڑے۔ ’’میری بڑی بہن کی شادی کی کہانی بھی کم دل چسپ نہیں۔ تب ہم لوگ ضلع ہیبی کے چھوٹے سے قصبے میں رہتے تھے اور میری بہن ایک اسکول میں ٹیچر تھی۔ وہیں اس کے ساتھ ایک لڑکا بھی پڑھاتا تھا، جسے وہ پسند آگئی اور اس نے ہمارے گھر شادی کے لیے رشتہ بھیج دیا۔مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ’’مَیں بہت غریب ہوں۔‘‘ تو میری بہن نے کہا ’’اگر تم غریب ہو تو کیا ہوگیا، ہم سب ہی غریب ہیں۔‘‘

یوں ان دونوں کی شادی ہوگئی۔ شادی میں گھر ہی میں کیک بنا اور مہمانوں کی تواضع مونگ پھلی اور سورج مکھی کے بُھنے ہوئے بیجوں اور چائے سے کی گئی۔ ہم لوگوں نے اُس دن تیل کے چراغ جلا کر گھر روشن کیا تھا۔اسی طرح ہم سب نے بچپن میں’’ The Analects of confucius‘‘ عظیم چینی فلاسفر کی کتاب بھی پڑھی تھی، جسے ہمارے ہاں مذہبی کتاب کا درجہ حاصل تھا۔اسے تربیت کا بنیادی جُز سمجھا جاتا تھا۔بچّے زیادہ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ انہیں پیدا کرکے گلیوں،بازاروں میں رُلنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔سحر خیزی ہماری ہڈیوں میں رَچی ہوئی تھی۔

ہم پر دادا دادی اور خاندان کے دیگر بڑوں کا احترام لازم تھا۔ مجھے یاد ہے، میری دادی بہت شور مچاتی تھیں، ذرا ذرا سی بات پر چیخنا چلّانا شروع کردیتیں۔ اس کے باوجود امّاں انہیںاُف تک نہ کہتیں۔ ہماری زندگیوں میں ان کہانیوں کی بہت اہمیت تھی، جو ہم اپنے والدین سے سُنا کرتے تھے، جو زیادہ تر اخلاقی تعلیمات پر مبنی ہوتیں۔ اسی طرح جب سُرخ فوج کو گومنگ دانگ پارٹی کے مقابلے میں ناکامی کا سامنا ہوتا، تو ابّا کے آنسو، امّاں کے دلاسے نہ تھمتے۔

جس دن سُرخ فوج کام یاب ہوتی، ہمارے گھر میں بھی خوشیاں منائی جاتیں، پھر چاہے وہ خوشی شکرقندی کے قتلے کھا کر ہی کیوں نہ منائی جائے۔ ڈنگ چھیائو پھنگ کے دَور میں جب اوپن ڈور پالیسی کا آغاز ہوا، تبدیلی کی ہوائیں چلنی شروع ہوئیں، تو اقتصادی ترقّی کے پہیّے زیادہ متحرّک ہوگئے،چِین میں غیرمُلکیوں کی آمد شروع ہوگئی اور ایک خوش رنگ زندگی کے خواب، جو نوجوان نسل دیکھ رہی تھی، وہ سچ ہوتے دِکھائی دینے لگے۔ روزمرّہ زندگی میں دھیرے دھیرے رنگ گُھلنے لگے۔ اور اب ہماری قوم کی کام یابیاں ساری دنیا کے سامنے ہیں۔ یہی نہیں، آج کی عورت زیادہ طاقت وَر، خود مختار ہے، خود کو منوا چُکی ہے۔

اناچی، اسٹورمیں سامان کو ترتیب وار رکھتے ہوئے
اناچی، اسٹورمیں سامان کو ترتیب وار رکھتے ہوئے 

 تاہم، مَردوں سے وہ لحاظ و مروّت مفقود ہوچُکی ، جو ہم اپنے بچپن میں دیکھا کرتے تھے۔جیسے بس میں عورت کو سیٹ دینا، ڈیوٹی پر بھاری کاموں میں اس کی مدد کرنا، گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹانا وغیرہ۔ لیکن آج کے مَردوں کا کہنا بھی غلط نہیں کہ جب عورت کو مساوی حقوق چاہئیں، ہر کام میں برابری کرنی ہے، تو پھر مدد اور رعایت کس بات کی…؟؟شاید یہی وجہ ہے کہ اب طلاق کی شرح بھی بہت بڑھ گئی ہےاورنوجوان بھی ذمّے داریوں سے گھبراتے ہیں۔سونے پہ سہاگا شہری علاقوں میں ایک سے زائد بچّوں پر پابندی لگ گئی تھی، مگر اب دو کی اجازت مل گئی ہے۔

کیوں کہ حساب کتاب نے حکومت، متعلقہ اداروں پر واضح کردیا کہ بزرگ بہت زیادہ ہوگئےہیں، جن کے مرنے کے بعد درمیانی عُمر کے افراد اُن کی جگہ لے لیں گے، تو نوجوانوں کی کمی ہوجائے گی، جو مُلک کے لیے بہت سنگین صورتِ حال ہوگی۔ میری بات یاد رکھنا، آئندہ ایک، دو سال میں تین، چار بچّوں کی اجازت کے ساتھ سہولتوں کی پیش کش بھی کی جائے گی۔ مگر اب کیا فائدہ کہ نوجوان جوڑے اب ذمّے داریوں سےگھبرانے لگے ہیں۔اکثر نوجوان تو شادی ہی سے کتراتے ہیں کہ کون ذمّے داریوں کے جھنجھٹ میں پڑے۔‘‘

’’خیر، چلو اب مَیں اُس سوال کا جواب دیتی ہوں، جو تم نے آغاز میں کپڑوں کے بارے میں کیا تھا۔(اناچی بےتکان بولے جا رہی تھی)پہلے پہل تو ہم لوگ صرف Cheongsam یعنی، لمبا سا گاؤن ہی پہنتے تھے۔ البتہ، میرے بھائیوں نے مائو جیسے انداز کے ملبوسات پہننے شروع کردئیے تھے۔ثقافتی انقلاب چینی تاریخ کا بہت الم ناک باب ہے۔ یہ میرے خاندان کے لیے بہت مصائب لے کر آیا ،میرے شوہر پر بغاوت اور غدّاری کے الزامات لگے۔جانے کیسا ظالم دَور تھا کہ کسی نے پرانی دشمنی، ذاتی عناد میں کسی پر جھوٹا الزام لگا دیا اور بِنا تحقیق،جانچ پڑتال کے کیس بن جاتا۔

تھانوں، کورٹ کچہریوں کے چکّر لگتے۔ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، ایک پرانے دشمن کی جھوٹی رپورٹ پر میرے شوہر کو عتاب کا نشانہ بنایا گیا، پارٹی کاوفادار رکن ہوتے ہوئے بھی اس پر گھٹیا الزام لگے، اس پر بہت ظلم ہوا۔‘‘ یہ بتاتے بتاتے وہ جیسے ماضی کی تلخیوں میں کہیں گُم سی ہوگئی۔ پھر جیسے چونک کر اپنی اِس کیفیت سے باہر آئی اور ہمیں دیکھتے ہوئے بولی۔ ’’تاہم، یہ تو کہنا ہی پڑے گا کہ ثقافتی انقلاب نے چینی عورت سے متعلق فیوڈل معاشرے کی سوچ کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی۔دراصل، خانگی اور خارجی جنگوں، کمیونسٹ تحریکوں نے بیسویں صدی کے آغاز میں چینی عورتوں میں بھی آگہی اور شعور بیدار کرنا شروع کردیا تھا، وگرنہ تو چینی عورت کی صدیوں پرانی روایتی تصویر نرم و نازک ، فرماں بردار اور چُھوئی موئی سے پیکر کی عکاّس تھی۔

چین کے شاہانہ طبقے میں جو محاورہ زبانِ زدِ عام تھا، وہ یہی تھا کہ ’’علم کے بغیر ہی ایک عورت قابلِ تعریف ہے۔‘‘ قانونِ قدرت بھی یہی کہتا تھا کہ عورت ہر حال میں مرد کے تابع رہے، کچھ بھی ہوجائے اُف تک نہ کہے۔چینیوں کی اس سوچ کو بدلنے میں بنیادی کردار سن یات سن جیسے انقلابی لیڈر نے ادا کیا اور پھر یہ سلسلہ چلتا ہی رہا۔Wu Shugingجیسی انقلابی خاتون، Qiu Jin جیسی شاعرہ اور Hua Mulan جیسی فیمنسٹ کی طرح بے شمار عورتیں اپنے حقوق کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئیں،جنہوں نے سر کٹوائے، جیلیں بھگتیں،ظلم و جبر برداشت کیا، لیکن اپنے مقصد پر ڈَٹی رہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اناچی کی نظر گھڑی پر پڑی، تو کافی دیر ہو چُکی تھی۔ 

اس نے کہا’’دیکھو تو کتنی رات ہوگئی ہے۔ چلو، مَیں تمہیںQui Jin کی ایک نظم سُناتی ہوں اور پھر ہم ایک دوسرے کو الوداع کہیں گے۔؎ سورج اور چاند میں روشنی باقی نہیں رہی…زمین تاریک ہوگئی ہے…ہماری عورتوں کی دنیا… کہیں بہت گہری ڈوب گئی ہے…ہماری مدد کون کرسکتا ہے…زیورات بیچ کر سمندروں پار جانے والے ٹرپ کی ادَائی ہوئی…خاندان سے ناتا توڑ کر… اپنی سرزمین کو چھوڑ کر…اپنے قدموں کو آزاد کرتے ہوئے…مَیں ہزاروں سال کے زہر کو صاف کرتی ہوں۔ (جاری ہے)

سنڈے میگزین سے مزید