• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ یورپی ممالک چائنا کی وزارت خارجہ کی دعوتوں پر ان ممالک کے دورے تو متعدد بار کر چکا ہوں مگر ایران کی وزارت خارجہ بھی بار بار اپنے ملک کے دورے کی دعوت راقم الحروف کو دے رہی تھی۔ مگر ہر دفعہ مصروفیات آڑے آجاتی تھیں۔ اب یہ سطور تہران سے سپرد تحریر کر رہا ہوں۔ تہران میں پاکستان کے حوالے سے مثبت تصورات پائے جاتے ہیں حالانکہ منفی سوچ رکھنے والے دانشور ایڑی چوٹی کا زور سرحد کے دونوں پار سے لگا رہے ہیں کہ دونوں ممالک کی سرحدیں گرم ہو جائیں۔ اور دونوں کو دفاعی بجٹ میں غیر معمولی اضافہ کرنا پڑے کہ جس کی ضرورت تو کجا سوچنا بھی اپنی قوم کے ساتھ دشمنی ہے۔ کسی قوم کی بدنصیبی کی انتہاء ہوتی ہے کہ وہاں کے دانشور یا وہ اصحاب جن پر اہل دانش ہونے کا گمان ہوتا ہے صرف محدود سوچ و بچار کی صلاحیتوں سے استفادہ کر رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں یہ معاملہ مزید افسوسناک ہے کہ اہل دانش دنیا کے ہر معاملے پر اہل دانش ہی شمار ہوتے ہیں آپ ان کو ہر موضوع پر عقل کل کے دعویدار کے طور پر جلوہ فرما دیکھیں گے۔ جو صاحب چین سے پاکستان کے تعلقات کی نزاکتوں پر گفتگو کر رہے ہونگے وہی کینیا میں چائے کی پتی کے موضوع پر بھی حرف آخر ہونگے۔ پاکستان کی خارجہ حکمت عملی کے نشیب و فراز پاک ایران تعلقات ، پاک سعودی عرب تعلقات کی حقیقتوں کو انہی اصحاب کے طفیل عوام میں سمجھا جا رہا ہے اور یہ کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔ پاکستان کے گردو پیش جن واقعات کا ظہور ہو رہا ہے ان کے تانے بانے مشرق وسطی اور ایران کے معاملات سے یقینا ملتے ہیں۔ مگر یہ معاملہ درست یا قابل فہم نہیں ہو گا کہ ہم یہ گمان کر لیں کہ عالمی سیاست میں فرقہ وارانہ عصبیتوں کی کوئی گنجائش ہوتی ہے۔ عالمی سیاست میں حقیقت صرف مفادات کی ہوتی ہے ہاں رائے عامہ کو متاثر کرنے کی غرض سے نعرہ کوئی بھی بلند کیا جا سکتا ہے اور کیا جاتا ہے۔ ہمارے دانشور صاحبان یا تو معاملات کو ذاتی فرقہ وارانہ تعصبات کے ذیل میں دیکھ کر قیافہ شناسی کر رہے ہیں یا پھر آج تک ان کے نزدیک تزویراتی اتحاد سرد جنگ کے زمانے کے ہیں۔ کہ ایک فریق دوسرے فریق کی معیشت کو تباہ کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔ حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں۔ بہت سادہ سی بات ہے کہ ہمارے یہاں چین اور امریکہ کی مسابقت کو بہت بیان کیا جاتا ہے حالانکہ نہ تو امریکہ یہ برداشت کر سکتا ہے کہ چین کی معیشت زمین بوس ہو جائے اور نہ ہی چین امریکہ کے دیوالیہ ہونے کا متحمل ہو سکتا ہے۔ دونوں کی معیشتیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں لیکن سابقہ سوویت یونین اور امریکہ کا معاملہ یکسر مختلف تھا۔ اب جو لوگ پاکستان میں سعودی عرب سے مخاصمت رکھتے ہیں وہ مودی کے دورہ سعودی عرب کی مخالفت کرتے نظر آئیں گے اور جن کو ایران سے بیر ہے وہ ایران کو پاکستان کے خلاف تزویراتی اتحاد جو امریکہ کی سربراہی میں ان کے بقول ہے کا حصہ ثابت کرنے پر ایڑی چوٹی کا زور لگاتے دکھائی دیں گے۔ ایران بھارت کے اشتراک سے چاہ بہار کی بندرگاہ تعمیر کرنے کی جستجو میں ہے۔ اس سے نتیجہ یہ اخذ کیا گیا ہے کہ ایران ، افغانستان اور بھارت امریکہ کی سربراہی میں ایک تزویراتی اتحاد قائم کرچکے ہیں۔ جس کا ہدف پاکستان ہے۔ حالانکہ یہی ایران چین کے ون روڈ ون بیلٹ کے نظریے میں شامل ہے۔ اگر ایران ایسے کسی تزویراتی اتحاد میں شامل ہے تو چین کو سب سے پہلے اس سے پریشانی ہو تی۔ مگر چند ماہ قبل ہی چینی صدر کے دورہ تہران کے موقع پر اگلے دس برسوں میں چین ایران باہمی تجارت کا حجم 600 ارب ڈالر تک لے جانے پر اتفاق ہوا ہے۔ اور سب سے دلچسپ یہ ہے کہ نواز شریف حکومت چاہ بہار کی بندرگاہ کو گوادر سے لنک کرنے پر غور کر رہی ہے۔ اب اس سب کے بعد کسی تزویراتی اتحاد یا ایسی ہی کسی سازشی کہانیوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ برادر اسلامی ملک کا معاملہ بھی اس سے چنداں مختلف نہیں ہے۔ ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ اس کے ساتھ امریکہ نے ایک معاملے میں دھوکہ کیا اور ایران کو بھی بیوقوف بناتے ہوئے عالم اسلام میں ایک بدمزگی کی کیفیت پیدا کر دی۔ امریکہ نے ہوشیاری سے ایران سے معاہدہ کرتے ہوئے 5+1 کا معاہدہ کیا۔ اگر امریکہ سعودی عرب کو ساتھ بٹھا کر 5+2 کا معاہدہ کرتا تودونوں برادر اسلامی ملکوں کے مابین بڑھتی ہوئی غلط فہمیوں کوپاٹا جا سکتا تھا۔ اور ابھی بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں ذہن میں رکھنا چاہئے کہبرادر عرب ملک کے اردگرد آگ لگی ہوئی ہے۔ ایک عرب قوم ہونے کے سبب سے وہاں اس آگ کی تپش بہت زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔ سعودی عرب اپنے لئے نئے راستے تلاش کر رہا ہے۔ نریندر مودی کا سعودی عرب کا دورہ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ انہی وجوہات کے سبب سے سعودی عرب عسکری اتحاد قائم کرنے کی جانب چلا مگر اس اتحاد کو کسی مخصوص فرقے کا اتحاد یا کسی مخصوص فرقے کے خلاف اتحاد قرار دینا معاملات کا درست ادراک نہیں ہو گا۔ اگر یہ ایسا ہی ہے تو پھر روس کو اس اتحاد کی حمایت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ سعودی وزیر کا دورہ ماسکو میں روسی وزیر خارجہکو اس عسکری اتحاد کی حمایت کا کہنا کچھ اور اشارے کرتا ہے۔ نہ کہ خالصتاً فرقہ واریت کی جانب کوئی اشارہ۔ اب روس کا تو مسلمانوں کے کسی فرقے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس ساری گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں جب اہل دانش بالخصوص بین الاقوامی امور پر گفتگو کیا کریں تو فرقہ ورانہ تعصبات اور سرد جنگ کے زمانے کے خیالات سے ماورا ہو کر اپنے خیالات کا کینوس مکمل کیا کریں۔ یہ بات روزروشن کی مانند عیاں ہے کہ پاکستان کے ایران اور سعودی عرب سے تعلقات میں ’’برادرانہ‘‘مفادات بنیادی حقیقت ہیں۔ اس لئے نہ ہی ہم کسی نئی جنگ میں الجھ رہے ہیں اور نہ ہی کوئی الجھا رہا ہے۔ ابھی وزیر اعظم نوازشریف نے سعودی عرب اور ایران کے معاملات میں بہتری کیلئے ایک کردار ادا کرنا شروع کیا ہے اور پاکستان کا مفاد بھی یہی ہے۔

.
تازہ ترین