نیب کو ہمیشہ سیاست کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس ادارے کو بنایا تو کرپشن کے خاتمے کے نام پر گیا تھا لیکن یہ یا تو لوگوں کے خلاف کرپشن کے جھوٹے کیس بنانے اور اُنہیں مہینوں، برسوں تک جیلوں میں ڈالنے، کبھی سیاسی جوڑ توڑ کیلئے تو کبھی بلیک میلنگ کر کے پیسہ بٹورنے کیلئےاستعمال ہوا ۔ کرپشن کے بڑے بڑے پکے کیس بھی نیب کے پاس آئے لیکن ان کیسوں کو بھی سیاسی جوڑ توڑ کیلئے استعمال کرتے ہوئے ایک ایک کر کے ختم کر دیا گیا۔
مشرف نے ایک بار قانون سازی کر کے باقاعدہ این آر او کے ذریعے کئی اربوں روپے کے کرپشن کیس ختم کیے لیکن شروع دن سے نیب گاہے گاہے، بااثر افراد کو غیراعلانیہ این آر او دیتا رہا۔
کبھی کنگز پارٹی بنانے کی ضرورت پڑی تو کئی سیاستدانوں کے کیس دبا دیے، تحقیقات ختم کردیں۔
جب سیاسی جماعتوں کو توڑنے کی ضرورت پڑی تو نیب کے ذریعے سیاستدانوں کے خلاف کرپشن کے کیسوں کو ختم کیا گیا۔ نیب کو کرپشن کے نام پر سیاست کے لیے سب سے زیادہ جنرل مشرف کے زمانے میں استعمال کیا گیا لیکن بعد میں آنے والی حکومتوں نے بھی اس ادارے کو نہ سدھارا نہ ہی کرپشن کے خاتمے کے لیے کوئی مربوط سسٹم بنایا۔
ایک طرف اگر کرپشن کے ٹھوس کیس سیاسی جوڑ توڑ کیلئے ایک ایک کرکے ختم ہوتے رہے تو دوسری طرف مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے نیب سے کرپشن کے جھوٹے کیس بنوائے گئے۔
جنرل مشرف نے نیب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے بڑی بے دردی سے استعمال کیا لیکن بعد میں آنے والی حکومتوں نے بھی اس ادارے کو اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لیے ہی استعمال کیا اور کرپشن کے بڑے بڑے اہم کیسوں کو دوستانہ استغاثہ کے ذریعے ایک ایک کر کے ختم کروا دیا۔ کئی کیسوں میں ثبوت ہی گم کر دیے گئے اور بہت سے کیسوں میں نیب نے ملزموں کے حق میں کیس لڑ کر اُن کی اربوں روپے کی کرپشن کو جائز قرار دلوا دیا۔
یہی وجہ ہے کہ 22/23 سال کے دوران نیب نے کسی ایک سیاستدان کو بھی عدالت سے کرپٹ ثابت نہیں کروایا۔ احتساب عدالتوں کی حد تک تو کرپشن کیسوں میں سزائیں دلوائی گئیں لیکن ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں جا کر سب بری ہو تے رہے اور یوں نیب کی کارکردگی نہ صرف زیرو رہی بلکہ الٹا اس نے قوم کے اربوں روپے ان کرپشن کیسوں کے نام پر خرچ کیے۔ جھوٹے کیس بنانے اور کرپشن کیسوں کو ختم کرنے میں نیب کے مختلف افسروں کا بڑا اہم کردار رہا۔
کئی بار عدالتوں نے کہا کہ نیب نے بدنیتی پر مبنی کرپشن کیس بنائے۔ عدالتوں نے یہ بھی سوال اُٹھائے کہ اہم کیسوں کے ثبوت کہاں غائب ہو گئے۔
سپریم کورٹ لیول تک یہ کہا گیا کہ نیب سیاسی جوڑ توڑ کے لیے استعمال ہوتا ہے، یہ بلیک میلنگ میں بھی شامل ہے لیکن حیرانی اس بات پر ہے کہ آج تک نیب کے کسی چیئرمین، کسی افسر کو جھوٹے کیس بنانے یا کرپشن کے کیسوں کو ختم کرانے پر نہ پوچھا گیا نہ ان کی کوئی انکوائری ہوئی۔
نیب نے اس ملک کی معیشت کے ساتھ بہت زیادتی کی، اہم صنعتکاروں کو بلیک میل کیا، کئی بہترین شہرت کے مالک سرکاری افسروں کو جھوٹے کیسوں میں جیلوں میں ڈالا، سیاستدانوں کو جھوٹے کیسوں میں پھنسایا یا اُن کے خلاف مضبوط کیس ختم کروائے لیکن نیب کے کسی ایک بھی افسر کو اس ملک کی تقدیر کے ساتھ کھیلنے کی سزا نہیں دی گئی۔
احتساب کے نام پر بننے والے اس ادارے کا احتساب کرنے والا کوئی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ نیب کے مظالم اور اس کا غلط استعمال کبھی نہ رکا اور اُسے بار بار استعمال کیا جاتا رہا۔
اب یہ ادارہ اس قدر بدنام اورفرسودہ ہو چکا ہے کہ اس کے سدھرنے کا کوئی چانس نہیں۔میری ذاتی رائے میں اس ادارےکو بند کر دیا جانا چاہیے اور کرپشن کے خاتمے کے لیے اتفاقِ رائے سے ایک نیا ادارہ بنایا جائے ،جس پر سب کا اعتماد ہو جو کسی بےگناہ کو پکڑے اور نہ کسی کرپٹ کو چھوٹ دے، جو نہ حکمرانوں کے ہاتھوں استعمال ہو اور نہ ہی اُس کواسٹیبلشمنٹ پولیٹکل انجینئرنگ کے لیے استعمال کر سکے، جو اگر دوسروں کا احتساب کرے تو اُس کا اپنا بھی احتساب ہونا چاہیے کہ آیا وہ وہی کام کر رہا ہے جس مقصد کے لیے اُس کو بنایا گیا ۔
جھوٹے کیس بنانے پر ذمہ داروں کو سزا ملنی چاہیے اور کرپشن کیسوں میں ثبوت غائب کرنے یا دوستانہ استغاثہ کرنے پر بھی متعلقہ افسران اور ادارے کا احتساب ہونا چاہیے۔ نیب کے کھیل کو اب ختم ہونا چاہیے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)