نیّر کاشف ملک، کراچی
’’تمہارے بچّے تو بہت دبلے پتلے ہیں۔ لگتا ہے کہ ان کے حصّے کا کھانا بھی تم ہی کھا جاتی ہو‘‘، ’’ارے، ارے… تم مت دوڑنا، کہیں زلزلہ نہ آ جائے‘‘، ’’پیاری تو لگ رہی ہو، مگر اپنا وزن تو دیکھو، کیسے تیزی سے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔‘‘، ’’یہ تم نے اپنا کیا حال کر لیا ہے،میاں سے بھی بڑی لگنے لگی ہو‘‘، ’’تم جِم کیوں نہیں جوائن کر لیتی؟‘‘،’’تمہیں تو سوٹ بنوانے کے لیے کپڑے کا پورا تھان لینا پڑتا ہوگا۔‘‘وغیرہ وغیرہ اے کاش! اس قسم کے جملے کسنے والے، مخاطب کاجسمانی وزن تولنے کے بجائے پہلے اپنے الفاظ کا وزن تول لیا کریں ، تاکہ انہیں اندازہ ہوسکے کہ استہزا کے طور پر استعمال کیے گئے یہ الفاظ سُننے والوں کے دِلوں پر کیسے بھاری پڑتے ہیں۔
اگر آپ بھی بے تکلفی، بے دھیانی یا روا روی میں ایسے جملے بول جاتے ہیں، تو ایک بار خود بھی سوچیے گا کہ اگر اُس فرد کی جگہ آپ کو یہی الفاظ سُننے پڑتے، تب آپ کے احساسات کیا ہوتے۔ دیکھا گیا ہے کہ بعض افراد محفل کو کشتِ زعفران بنانے کے لیے بھی اپنے تئیں کسی فربہی مائل فرد کا تمسخر اُڑاتے ہیں، لیکن اُن لفظوں کے بار تلے تضحیک کا نشانہ بننے والے کا دِل کیسے کرچی کرچی ہوتا ہے، یہ نہیں سوچتے۔ ہمیں شاید اندازہ نہیں کہ فربہی مائل افراد خود اپنے زائد وزن کے باعث کس قدر مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ اُن کے لیے اُٹھنے بیٹھنے، بھاگنے دوڑنے، سیڑھیاں چڑھنے اُترنے سمیت معمول کے کئی چھوٹے، بڑے کاموں کی انجام دہی کس قدر دشوار گزار امر بن جاتی ہے۔
اُنہیں اس بات کا دوسروں سے کہیں زیادہ شدت سے احساس ہوتا ہے کہ وہ غیر ضروری موٹاپے کی وجہ سے عجیب اور بھدّے سے لگنے لگے ہیں۔ دوسرے شاید نہ جانتے ہوںکہ وہ اپنے موٹاپے سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کیا کیا جتن کر رہے ہیں یا پھر ہر کوشش کر کے تھک چُکے ہیں۔ لوگ تو از راہِ مذاق کہہ کر چلے جاتے ہیں، مگر سُننے والا پھر اپنے ٹوٹے دِل کی کرچیاں جوڑنے کی کوشش ہی کرتا رہ جاتا ہے۔ آپ نے کسی کے کپڑوں کے لیےتھان کا انتظام کرنا ہے، نہ اس کےخور و نوش کا خرچا آپ کے ذمّے ہے، تو پھر ناحق پریشان بھی نہ ہوں اور کسی کی کم زوری کا تو قطعاً مذاق نہ اُڑائیں۔
اپنی حسِ مزاح کا استعمال کرنا ہی ہے، تو کچھ مثبت انداز سے کریں۔ یاد رہے، مذاق وہ ہوتا ہے، جس سے مذاق کا نشانہ بننے والا بھی اتنا ہی لطف اندوز ہو، جتنا کہ کرنے والا۔ تب ہی یہ عمل دِل شکنی کے زمرے میں نہیں آتا، لیکن اگر آپ کے مذاق سے کسی کو شرمندگی محسوس ہو یا اس کی دِل آزاری ہو تو یہ دینی اور اخلاقی طور پر قطعاً درست نہیں کہ ہمارا دین ہمیں کسی کی عیب جوئی، دِل شکنی و دِل آزاری سے ہر صُورت باز رہنے کا حکم دیتا ہے۔ ہاں، اگر آپ کسی کے حقیقی خیر خواہ ہیں اور اس کے بڑھتے وزن کی طرف سے فکر مند بھی، تو اس صُورت میں سرِ محفل اس مسئلے کو موضوعِ گفتگو بنائیں، نہ اپنی تشویش کا اظہار کریں۔
کوئی اچھا مشورہ دینا چاہتے ہیں، تو اکیلے میں مناسب الفاظ میں براہِ راست بات کریں، لیکن اس صُورت میں بھی دھیان رہے ،تمہید باندھ کر یہ احساس دلانے کی کوشش نہ کی جائے کہ اُس کا وزن اس کے لیے کس قدر نقصان دہ ہے یا اس وجہ سے وہ کیسا لگ رہا ہے۔ سیدھے سادے سے انداز میں مشورہ دےکر فوراً ہی موضوع بدل دیں، تاکہ مذکورہ شخص کو آپ کے سامنے شرمندگی محسوس نہ ہو۔ نیز، دیر تک موٹاپے کو موضوعِ گفتگو بنائے رکھنے سے گریز کریں کہ اس طور مخاطب سبکی محسوس کرتا ہے۔
خالقِ کائنات نے قرآنِ پاک میں اپنے بندوں کا مذاق اُڑانے سے خاص طور پہ منع کیا ہے۔ کسی کا نام بگاڑنے کی بھی ممانعت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے حکمت کی دُعا کریں۔ پھر ہمیں یہ بھی سیکھنا چاہیے کہ اپنے جذبات اور خیالات دوسروں تک پہنچانے کا درست طریقہ کیا ہے کہ کوئی بھی بات کرنے سے پہلے اپنے کہےالفاظ پر غور کرنا اور لہجہ درست رکھنا ہماری اوّلین ذمّے داری ہے۔