• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پٹرول پمپ پر ہم سے پہلے ایک پختون بھائی اپنی گاڑی میں پٹرول ڈلوا رہے تھے ۔ آپ دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھے حالت رکوع میں اپنا منہ پٹرول ڈلنے والے سوراخ میں دیئے اس عمل کے بغور مشاہدے میں مصروف تھے ۔ اشتیاق سے لگ رہا تھا کہ ان کا بس چلے تو پٹرول ٹینک کے اندر گھس کر بھی اس فعل کا معائنہ کرنے سے گریز نہ فرمائیں ۔ فیول بھر چکا تو خان صاحب نے اپنی کڑی نگرانی میں ٹینک کا ڈھکن بند کروایا اور پھر بہ نفس نفیس میٹر کے پاس تشریف لے جا کر اسی حالت یعنی میٹر میں تقریباً منہ گھسیڑ کر اس کے عمیق مطالعہ میں مصروف ہو گئے ۔ ہم والدہ کو شہر میں ڈاکٹر کو دکھا کر واپس گائوں آرہے تھے ۔ مغرب کی اذانیں شروع ہو گئی تھیں اور ان کی نماز کا وقت نکلا جا رہا تھا ۔ گاڑیوں کی لائن بھی بڑھتی جا رہی تھی اور لوگوں میں اضطراب بھی ، مگر خان بھائی کا ’’کانفیڈنس‘‘ دیدنی تھا ۔ انہوں نے کسی بھی ہارن یا زبانی درخواست کو درخوراعتناء سمجھے بغیر میٹر کا تفصیلی معائنہ جاری رکھا اور پھر کچھ دیر تک انگلیوں پر حساب کرنے کے بعد اپنی قمیص کا دامن اٹھا کردانتوں میں دبا لیا ۔آپ نے نیچے پہنے ’’سلوکے‘‘ کی جیب کی زنجیری کھولی اور اس میں سے ایک بٹوہ نکالا۔ پھر پرس کی زنجیر کھول کر اس میں اپنا ہاتھ ڈالا اور اندر ہی اندر محتاط انداز میں چند منٹ تک نوٹ گنتے رہے ۔ تب انہوں نے پرس سے ایک ایک نوٹ نکال کر اور لائٹ کے قریب کر کے لڑکے کو دینا شروع کئے ، جیسے ویلیں دے رہے ہوں ۔ انتظار کرنے والے بار بار اپنی گاڑیوں سے سر نکال کر خان صاحب سے روانگی درخواستیں کر تے رہے مگر اس مردآہن کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی ۔ طلب و رسد کے تمام مراحل بخیرو خوبی انجام پا چکے تو خان بھائی نے مسکراتے ہوئے اپنی گاڑی کا دروازہ کھولا مگر اس میں بیٹھنے کی بجائے اندر سے ایک کپڑا نکال کر نہایت اطمینان سے ونڈ اسکرین اور پھر اطراف کے باقی شیشوں کی صفائی شروع کر دی ۔ صفائی مکمل ہوئی تو ان کی روانگی کی امید روشن ہوئی ،لیکن اس عمل کے بعد وہ گاڑ ی کے گرد گھومتے ہوئے ٹھوکریں مار مار کر ٹائر چیک کرنا شروع ہو گئے ۔ اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا مگر آپ تو جانتے ہیں کہ والدہ ساتھ ہوں تو بندہ موقع کی مناسبت سے ’’الفاظ‘‘ بھی نہیں استعمال کر سکتا۔ پس ہم نے احتجاجی انداز میں اپنی کار اسٹارٹ کی اور قدرے کرخت انداز میں فقط اتنا عرض کیا ’’ خان صاحب ! مہربانی فرمائیں ‘‘ ۔
یہ ہمارے اجتماعی رویوں کی ایک جھلک ہے ، جس پر ہم اپنے روزمرہ کے تجربات کی روشنی میںوقتاً فوقتا کچھ عرض کرتے رہتے ہیں ۔کچھ ایسا ہی اسلوب اے ٹی ایم پربھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ اس مشین سے رقم نکلوانے پر ایک ڈیڑھ منٹ خرچ ہوتا ہے ۔ ہم لوگ پندرہ پندرہ منٹ تک اس کمپیوٹر سے کھیلتے رہتے ہیں جبکہ باہر لوگ بے چینی سے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں ۔ اگر اس دوران آپ دروازہ کھٹکھٹا کر اس کھیل میں مصروف صاحب یا خاتون سے ’’مہربانی فرمانے ‘‘ کی درخواست کریں تو نوبت لڑائی جھگڑے تک بھی پہنچ سکتی ہے ۔ اکثر بے جا چھیڑ چھاڑ سے یہ ہینگ ہو جاتی ہے توہم باہر نکل کر باقی لوگوں کو جانکاری دیتے ہیں کہ مشین خراب ہے ۔ ایک خاتون اپنے بچے کو لئے اے ٹی ایم میں گھسی ہوئی تھیں ۔ماں بیٹا کافی دیر تک اس بے زبان مخلوق سے شغل کرتے رہے ، پھر خاتون اپنا کارڈ مشین کے اندر ہی چھوڑ کر اور بچے کو کیبن میں کھڑا کر کے باہر نکلی اور لوگوں سے بولی کہ خبردار کوئی میری باری نہ لے ، میرا کارڈ نہیں چل رہا اور میں بینک والوں سے بات کر کے ابھی آتی ہو ں ۔ کل ہی کی بات ہے ،سخت دھوپ میں اے ٹی ایم کے باہر پسینے میں شرابور لوگوں کی لائن لگی ہوئی تھی ۔ایک باریش نوجوان اپنی باری آنے پر کیبن میں داخل ہوا تو اے سی کی ٹھنڈک سے اسے فرحت محسوس ہوئی ۔ اس نے اپنا کارڈ واپس جیب میں ڈال کر وہاں سے موبائل فون برآمد کیا اور پھر ایک کال ، پھر دوسری ، تیسری ، چوتھی …مسکراہٹیں ، قہقہے ،گپیں …ہم نے تنگ آ کر دروازہ کھولا اور اسے کچھ حیا کرنے کو کہا تو جواب میں اس نے جو کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی جوابی گفتگو کی ،وہ لکھنے کے قابل نہیں ۔ ان گھڑ قوم کی بد تہذیبی دیکھئے کہ آپ اے ٹی ایم استعمال کر رہے ہیں اور دو چار حضرات باہر انتظار کرنے کی بجائے کیبن میں گھس کر آپ کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں ۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام والیوں کی تو مت پوچھئے ۔ یہ غریب خواتین اے ٹی ایم کے گرد جمگھٹے کی صورت کھڑی رہتی ہیں ۔آپ کیبن کے قریب جاتے ہیں تو چہار اطراف سے لا تعداد کارڈز نمودار ہو جاتے ہیں کہ پہلے ہمیں رقم نکلوا دو ۔ بینک انتظامیہ کے پاس کوئی انتظام نہیں کہ ان لاچار خواتین کی مدد کرے یا ان گھڑ لوگوں کو اے ٹی ایم استعمال کرنے کا طریقہ بتائے ۔
آپ اسٹو رسے سودا لے کر کائونٹر پر بل ادا کرنے کے لئے کھڑے ہیں ۔اچانک پیچھے سے ایک بد تہذیب لائن توڑتا آتا ہے اور اپنا سامان کائونٹر پر پھینک کر کیشئر سے کہتا ہے ’’پہلے میرا بل بنانا، مجھے ذرا جلدی ہے‘‘۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں عجیب منظر ہوتا ہے، ویگن میں اگر اٹھارہ بندے ٹھنسے ہوئے ہیں تو آدھے اسی حالت میں موبائل کان سے لگائے بھانت بھانت کی بولیاں بولتے نظر آتے ہیں۔ ایک دن ہم مسافر وین میں کہیں جا رہے تھے۔ ایک مسافر نے اپنے موبائل پر با آواز بلند پشتو گانا لگایا ہوا تھا، دوسرا پنجابی گیت سے لطف اندوز ہو رہا تھا ، تیسرا اردو نغمے سے دل بہلا رہا تھا ،چوتھا قوالی سے اور پانچواں ایک غزل سے اپنے ذوق کی تسکین میں مصروف تھا ۔ جبکہ وین والے نے الگ سے سی ڈی پلیئر پر عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کا پر دردساگیت چھیڑ رکھا تھا ۔ موٹروے کے بلکسر انٹر چینج سے نکل کر تمام سرائیکی بیلٹ اور کراچی تک کا ٹریفک ہمارے گھر کے قریب سے گزرتا ہے ۔بخدا کوچز والے رات دو بجے بھی عادتاً کرخت آواز والے پریشر ہارن بجاتے چلے جاتے ہیں ۔ کیسی تہذیب ، کیا تمیز ، کہاں کا اخلاق اور کونسی تربیت؟
رمضان المبارک کا آغاز ہے۔ کیسے کیسے لوگ دوسروں کو ماہِ صیام کی فضیلت کے درس دیتے ہیں…صبر اور برداشت کا مہینہ، نفس کے کنٹرول کی تربیت کا مہینہ، غریبوں، بیوائوں، یتیموں کی پرورش کا مہینہ، خدا سے لَو لگانے کا مہینہ، گناہ بخشوانے کا مہینہ…مگر سب زبانی کلامی، عملاً کیا درس دینے والے اور کیا لینے والے، ہر طرح کی بے ایمانی، دو نمبری، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، گرانی اور لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ جناب وزیراعظم نے لندن سے حکم دیا ہے کہ سحرو افطار کے اوقات میں لوڈ شیڈنگ نہ کی جائے ۔ اس حکم پر ہماری خوشی بجا، لیکن بھائی! کیا رمضان المبارک سے پہلے اور بعد میں یہاں انسان نہیں رہتے اور سحرو افطار کے علاوہ انہیں بجلی کی ضرورت نہیں ؟ ماہِ مبارک کے علاوہ باقی سارا سال اشیائے خوردونوش کی قیمتیں چیک کرنے اور سستے بازار لگانے کی کوئی ضرورت نہیں؟ کیا سطحی سوچ، کیا نمائشی اقدامات اور کیسے بودے رویئے ہیں صاحب !بہت پہلے مہدی حسن کی سریلی آوا ز میں ریڈیو پر ایک نغمہ سنتے تھے ’’تیرے انداز مستانہ …مجھے کر دیں نہ دیوانہ‘‘
تازہ ترین