• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عجیب سی بات ہے،بعض لوگ وطن چھوڑتے ہیں، تو اُن کی قسمت کا ستارہ چمک اُٹھتا ہے۔ وہ شہرت کی بلندیوں پر جاپہنچتے ہیں، جب کہ بعض ایسے بھی ہوتے ہیں، جو اپنے مُلک میں تو مشہورو معروف ہوتے ہیں، لیکن پردیس جابستے ہی گوشۂ گُم نامی میں چلے جاتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے،جو بھارت میں ماہرِ معاشیات، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بلاسود بینکاری کے ماہرکی حیثیت سے عالمی شہرت رکھتے تھے،لیکن2019 ء میں امریکا اپنے بچّوں کے پاس چلے گئے، تو کچھ کووِڈ۔19، کچھ عُمرِ رفتہ اور کچھ بیماری (ایک، دو سال قبل بھارت میں درمیانے درجے کے فالجکا شکارہوگئے تھے) کی وجہ سے گوشہ نشین ہو گئے۔

جس سے اُن کی وہ تمام سرگرمیاں، جو بھارت میں علی گڑھ یونی وَرسٹی کے علاوہ دیگر تعلیمی اداروں اور جماعتِ اسلامی کے پلیٹ فارم سے جاری تھیں، یک سر ختم ہو گئیں۔یاد رہے، اُن کا شمار بھارت کے گِنے چُنے اسلامی اسکالرز میں ہوتا تھا۔نیز، بھارت میں آج بھی اُن کاتعارف ایک بہت قابل پروفیسر کے طور پر کروایا جاتا ہے۔ وہ امریکا اپنے تین بیٹوں، دو بیٹیوں کے پاس وقفے وقفے سےجاتے رہتے تھے اور اسی دوران یونی وَرسٹی آف کیلی فورنیا، لاس اینجلس اور ہاروَرڈ یونی وَرسٹی سے بھی وابستہ رہے۔ 

مگر زندگی کے آخری چار برسوں میں ان کا حال بھی ؎ ’’ہلالِ شام سے بڑھ کر پل میں ماہِ تمام ہوئے…ہم ہربرج میں گھٹتے گھٹتےصبح تلک گُم نام ہوئے‘‘کے مصداق ہی رہا کہ ان کے رابطے چند قریبی احباب، رشتے داروں ہی تک محدود رہ گئے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ فالج کے اثرات کی وجہ سے اُن کی قوّتِ حافظہ بتدریج کم ہوتی رہی، گوکہ انہیں امریکی ڈاکٹرز کی زیرِ نگرانی بہترین علاج معالجے کی سہولتیں میسّر تھیں، لیکن پھر بھی آخری ایّام میں کسی کو پہچان نہیں پاتے تھے، البتہ ایک اچھی بات ضرور ہوئی کہ زندگی کے آخری ایام میں پروفیسر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے بچّے اُن کے پاس تھے، جنہوں نے اپنے والد کی خدمت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ ویسے ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی دنیا سےاس قدرمطمئن رخصت ہو، جیسے پروفیسر صاحب ہوئےکہ اُن کے سارے بچّے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور امریکا میں مقیم ہیں۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدّیقی1931 ء میں یوپی، بھارت کے شہر گورکھ پور کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ان کی تعلیم رام پور،اعظم گڑھ اور علی گڑھ میں مکمل ہوئی اور علی گڑھ ہی میں تدریس کے مقدّس پیشے سے منسلک ہوئے۔ ان کا میدان اسلامی معاشیات اور مالیات تھا، اس شعبے میں انہوں اپنے تحقیقاتی عمل سے بڑی مہارت حاصل کی، جس کا اعتراف اندرون و بیرونِ مُلک یک ساں طور پر کیا گیا۔ کچھ عرصے تک انہوں نے کنگ عبدالعزیز یونی وَرسٹی، جدّہ میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمات فراہم کیں، جب کہ امریکا کی یونی وَرسٹی آف کیلی فورنیا میں فیلو پروفیسر کی حیثیت سے اور اسلامی بینک، جدّہ میں وزیٹنگ اسکالر کے طور پر کام کرتے رہے۔ 

وہ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں کے ماہر تھے ۔ان کی نگرانی میں درجنوں طلبہ نے پی ایچ ڈی مکمل کی۔ وہ علی گڑھ یونی وَرسٹی کے پروفیسر امریطس بھی تھے۔ اُردو میں ان کی کتاب ’’غیر سودی بینکاری‘‘ نے بےپناہ شہرت حاصل کی۔یہ کتاب سب سے پہلے1969 ء میں شایع ہوئی تھی، جب کہ اس کے متعدّد زبانوں(انگریزی، عربی، فارسی، ملے(ملائشین زبان)، تُرکی اور انڈو نیشین) میں ترجمے بھی شایع ہوچُکے ہیں۔ 

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مختلف ملکی اور غیر ملکی جرائد کی ادارتی بورڈ کے رُکن بھی رہے، جن میں ’’جرنل آف کنگ عبدالعزیز یونی وَرسٹی، جدّہ، سعودی عرب، رکن بین الاقوامی بورڈ ریوائیو آف اسلامک اکنامکس، انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف اسلامک اکنامکس، لیسٹر انگلینڈ،رکن مشاورتی بورڈ، مطالعہ اسلامی معاشیات، اسلامی تحقیق اور تربیت اسلامی بینک، جدّہ، سعودی عرب، رکن اکاؤنٹنگ اور آڈیٹنگ آرگنائزیشن برائے مالیاتی انسٹی ٹیوٹ بحرین، رکن جرنل اقتصاد انڈونیشیا، رکن مشاورتی ادارتی بورڈ جرنل آف اسلامک سوشل سائنسز امریکا، رکن مشاورتی بورڈ ہیومونکس، ٹورنٹو کنیڈا، رکن مشاورتی بورڈ جرنل آف اسلامک سائنسز، علی گڑھ مسلم یونی وَرسٹی، انڈیا اور ایڈیٹر اسلامک تھاٹ علی گڑھ مسلم یونی وَرسٹی، انڈیا وغیرہ شامل ہیں۔ بین الاقوامی جرائدو رسائل میں سیکڑوں تحقیقی مقالات کے علاوہ ڈاکٹر نجات اللہ کی اسلامی معاشیات،اسلامی علوم اور اسلامی ادب و شریعت پر مجموعی طور پر 13 انگریزی اور 10 اُردو کتب شایع ہوئیں۔ نیز، انہوں نے امام ابو یوسف کی مشہور کتاب ’’خراج‘‘ کا عربی سے اُردو ترجمہ بھی کیا۔

ہم نے سب سے پہلے پروفیسر ڈاکٹر نجات اللہ صدّیقی کا نام1970 ء کے عشرے میں سُنا تھا۔ان کی بعض کتب بھی نظر سے گزریں، جن میں مولانا مودودی کی مشہور کتاب ’’سود‘‘ کے ساتھ ساتھ ان کی کتاب بلاسود بینکاری بھی پڑھنے کا اتفاق ہوا، جس سے ہم نے خوب استفادہ کیا۔اسی لیے ہم ان کو اپنا کتابی مربّی بھی کہتے ہیں۔ اور ہم ہی کیا، پروفیسر صاحب کی کتب سے ہزاروں، لاکھوں افراد، علم کے متوالوں نے اپنی پیاس بجھائی ۔ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے بھرپور علمی وتدریسی زندگی گزاری اور تعلیم و تدریس، تصنیف، معاشیات کے شعبوں میں بڑا کام کیا، جو ہمیشہ ان کی یاد دلاتا رہے گا۔

پروفیسر ڈاکٹر نجات اللہ بلاسود بینکاری کے نظام کی درجہ بندی کی وجہ سےعالمِ اسلام میں نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، بلکہ اس کام کے اعتراف میں انہیں سعودی عرب کے سب سے بڑے ’’شاہ فیصل شہید ایوارڈ‘‘ سے بھی نوازا گیا۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ انہوں نے پروفیسر خورشید احمد، ڈاکٹر محمّد عمر چھاپرا اور عالمِ اسلام کے چند اور ماہرین کے ساتھ بلا سود اسلامی بینکاری کا جو نظام اور ڈھانچا تیار کیا تھا، پاکستان میں اس کا سرکاری طور پر نفاذ ہونے جارہا ہے۔ 

اس سلسلے میں پاکستان کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے اعلان کیا ہے کہ ’’حکومت نے مُلک میں بلا سود بینکاری شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اسلامی شریعت اپیل کورٹ سے اپنی پیٹیشن واپس لے لی ہے، جو مُلک میں بلا سود بینکاری کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کر رکھی تھی۔‘‘ لیکن افسوس کہ یہ خبراُس دن آئی، جس دن پروفیسر ڈاکٹر نجات اللہ صدّیقی اپنے سفرِ آخرت پر روانہ ہوئے۔ اے کاش! انہیں یہ خوش خبری ان کی زندگی میں ملی ہوتی، تو وہ کس قدر خوش ہوتے کہ ان کے خواب کو اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آنے والے مُلک ، پاکستان میں تعبیر ملنے جا رہی ہے۔ اللہ کرے کہ اب اورکوئی رکاوٹ راہ میں حائل نہ ہواور پاکستان ایک اسلامی ریاست کی حیثیت سے اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺسے جنگ کی سزا سے بچ جائے۔

پروفیسر ڈاکٹر نجات اللہ صدّیقی اپنی تعلیمی وتدریسی مصروفیات کے ساتھ ساتھ جماعتِ اسلامی، ہند سے بھی وابستہ رہے اور اس کی مجلسِ شوریٰ اور مرکزی مجلس نمایندگان کے علاوہ ایک موثر مربّی کا کردار بھی ادا کرتے رہے۔ پروفیسر صاحب کے ایک دوست، ڈاکٹر ظفر آفاق انصاری اُن کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’ڈاکٹر نجات اللہ صدّیقی سے ہماری ملاقات دو سال قبل ایک دعوت میں ہوئی۔جب مَیں نے اُن کا نام پوچھا تو انہوں نے اپنا نام نجات اللہ صدّیقی بتایا، لیکن میرا نام بتا پائے، نہ پہچان سکے۔ جس پر مجھے بڑا دھچکا سا لگا کہ ایک بھر پور اور ہمہ وقت متحرّک زندگی گزارنے والے ڈاکٹر نجات اللہ بیماری کے ہاتھوں کس قدر مجبور ہوگئےہیں۔‘‘

بہرحال، پروفیسر صاحب کی زندگی کا سفر پورا ہوا اور وہ اللہ تعالی کی رضا کے مطابق زندگی کی بھرپور اننگز کھیل کر91 سال کی عُمر میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالی ان کی دینی اور علمی خدمات کو شرفِ قبولیت بخشے، جنّت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائے اور ان کے لواحقین، ہزاروں شاگردوں اور احباب کو ان کی جدائی کا یہ بڑا صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ اور توفیق دے، آمین۔