• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنے لانگ مارچ کےاختتام پر راولپنڈی میں جلسے سے خطاب کے دوران اسمبلیاں توڑنے، ایوانوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کر کے اسلام آباد میں برسرِاقتدار حکمراںاتحاد میں کھلبلی مچا دی تھی اور پی ڈی ایم کی حکومت پر الیکشن کروانے کے دبائو میں شدید اضافہ ہو گیاتھا ۔ا سپیکر قومی اسمبلی اگرتحریک انصاف کے ارکان کے استعفے قبول کر لیتے ہیں تو پھر الیکشن کروانے کے سواکوئی چارہ نہ ہو گا ۔ پنجاب اور کے پی اسمبلی کی تحلیل اوربلوچستان اور سندھ اسمبلیوں سے تحریک انصاف کے ارکان کے مستعفی ہونے کے بعد سیاسی مدوجزر اپنے عروج کو چھو لے گا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اکثریتی پارٹی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرکے وفاقی حکومت کو تمام انتخابات کرانے پر مجبور کرے۔

اب موقع ہے کہ سیاسی جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور سیاسی مسائل کے حل کیلئے سیاسی طریقۂ کار اختیار کیا جائے ۔ سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے اپنے الوداعی خطاب و انٹرویو میں بڑے واضح انداز میں مستقبل میں سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت کا دروازہ بند کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اب یہ سیاسی قیادت کی بالغ نظری کا امتحان ہے کہ وہ اپنے سیاسی مسائل کے حل کیلئے کیا کارکردگی دکھاتی ہے۔ فوج اپنے پروفیشنل کردار پر توجہ دینے کیلئے پر عزم ہے اور سیاسی قیادت کو سیاسی مسائل کے حل کیلئے موقع بھی فراہم کیا گیاہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے فوجی قیادت کے انتخابات میں سنیارٹی کے اصول کو اپنا کر سیاسی بلوغت کا ثبوت دیا ہے۔ امید ہے کہ میرٹ اور سنیارٹی کے اصول کو باقی اداروں میں بھی من و عن نافذ کیا جائے گا جس سے ملکی ترقی کی سمت کا تعین ہو گا۔

فوجی قیادت کی تعیناتی پر جس طرح میڈیا میں ہیجان خیز خبروں اور تبصروں کا سلسلہ شروع ہوا اس نے پوری قوم کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا مگر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے جس سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس تعیناتی میں کوئی مداخلت نہیں کی بلکہ اپنے لانگ مارچ کوراولپنڈی میں جلسے میں تبدیل کر کے ملک کو مزید بحران سے بچا یا، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ حالات کی نزاکت کا ادراک رکھتے ہیں اور اس کے مطابق اپنے سیاسی فیصلوں کا اطلاق بھی کرتے ہیں۔

اس وقت ملک کو جس اقتصادی بحران اور مہنگائی کے طوفان کا سامنا ہے اس کو ختم کرنا کسی ایک پارٹی ، اتحاد اور حکومت کا کا م نہیں ہے۔ ہم نے پہلے بھی انہی کالموں میں تجویز دی ہے کہ سیاسی وابستگی سے بالا تر ہو کر ،سیاست کو بھلا کر تمام اسٹیک ہولڈرز کو ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے کی تدابیر سوچنی چاہئیں ۔ ملک کیلئے ایک طویل المدتی سیاسی منصوبہ تیارکیا جائے جس پر گامزن ہو کر ملک اقتصادی ترقی کی طرف گامزن ہو سکے ۔ ہر سیاسی حکومت عوام کو سہانے خواب دکھانے کیلئے فگرز سے کھیلتی ہے اوراس کے وزراء اعداد و شمار کی اپنے مطلب کی تشریح کرتے نظر آتے ہیں۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ کاروباری سرگرمیوں میں جمود کی کیفیت ہے ۔ مارکیٹوں کی گہما گہمی ختم ہو گئی ہے، روزانہ کما کر اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے والے دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ ان حالات میں اربابِ اختیار کی لاتعلقی ملکی سیاست میں مزید تلاطم پیدا کرے گی اور تحریک انصاف کو حکومت پر دبائو بڑھانے کے مزید مواقع میسر آئیں گے۔ عمران خان کا ون پوائنٹ ایجنڈا ہے کہ فوری طور پر الیکشن کا انعقاد کروایا جائے مگر حکومت اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے پر زور دے رہی ہے اگر پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں وہاں کے وزرائے اعلیٰ توڑ دیتے ہیں اور باقی دو اسمبلیوں سے ان کے ارکان بھی استعفیٰ دے دیتے ہیں تو پھر حکومت کے پاس الیکشن نہ کروانے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں رہ جائے گا۔

اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے حکومتی زعماء آپس میں صلاح مشورہ کر رہے ہیں اور اب سب کچھ سابق وزیراعظم نواز شریف کی واپسی سے منسلک ہے کہ وہ واپس آ کر ایسا کیا کام کرتے ہیں کہ حکومتی اتحاد یا کم از کم ان کی جماعت مسلم لیگ ن آئندہ انتخابات میں اکثریت حاصل کر کے دوبارہ اقتدار میں آجائے ۔ نواز شریف نے ابھی تک اپنا سیاسی و اقتصادی ایجنڈا ظاہرنہیں کیا اور کیا ان کی صحت انہیں اس بات کی اجازت دے گی کہ وہ ایک بڑی انتخابی مہم چلا کر پارٹی کی فتح کے لئےراہ ہموار کر سکیں ؟ یہ تو اب آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر تمام اسٹیک ہولڈرز کو ملک کی اقتصادی حالت کی طرف توجہ دینے کی فوری ضرورت ہے جس کیلئے سیاسی نظر یات کو بالائے طاق رکھنا ہو گا۔ وطن سے محبت اور باہمی احترام کو ترجیح دینا ہو گی اور عوام کی بد حالی کا خیال رکھنا ہو گا۔تا کہ مہنگائی سے متاثرہ ایک عام آدمی کو ریلیف مل سکے اورملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔

تازہ ترین