اگرچہ بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اِسی حیثیت سے اسے” آدھا پاکستان “ بھی کہا جاتا ہے،مگر بدقسمتی سے مختلف وجوہ کی بنا پر یہ مُلک کے باقی صوبوں سے زیادہ پس ماندگی اور غربت کا شکار ہے۔ ریکوڈک جیسے قیمتی وسائل اور معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود یہ صوبہ بدترین غربت، پس ماندگی، مختلف نوعیت کے سیاسی اور معاشی مسائل سے دوچار ہے۔ ہر چند کہ ماضی کی نسبت آج صوبے کے طول وعرض میں وفاقی اور صوبائی حکومت کے ترقّیاتی پروگرامز کے تحت مختلف منصوبوں پر کام ہو رہا ہے، تاہم بدامنی، دہشت گردی، انتہا پسندی اور بدانتظامی پر مبنی مسائل بدستور موجود ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سالِ رفتہ کے دَوران بھی صوبے کے عوام کے طرزِ زندگی میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں لائی جاسکی۔اگرچہ 2022ء کی شروعات بلوچستان میں ریکوڈک منصوبے سے متعلق معاہدے پر پیش رفت سے ہوئی اور تین سال سے تعطّل کا شکار مذاکراتی عمل بالآخر 20مارچ کو حکومتِ بلوچستان اور بیرک گولڈ کمپنی کے مابین باقاعدہ معاہدے کی منزل تک آپہنچا۔اِس ضمن میں وفاقی دارالحکومت، اسلام آباد میں ایک خصوصی تقریب منعقد ہوئی، جس میں بلوچستان حکومت اور بیرک گولڈ کمپنی کے صدر نے معاہدے پر دست خط کیے۔اِس معاہدے کے تحت ریکوڈک منصوبے میں بیرک گولڈ کمپنی کا حصّہ 50 فی صد ہوگا، جب کہ باقی 50فی صد وفاقی اور بلوچستان حکومت میں برابر، برابر تقسیم ہوگا۔
کمپنی بلوچستان میں دس ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرے گی، جس میں سڑکوں، اسکولز، اسپتالوں اور کان کنی کے لیے ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے قیام جیسے منصوبوں کے لیے بھی ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری شامل ہے۔اِس سرمایہ کاری سے 8ہزار نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔واضح رہے، ریکوڈک دنیا میں سونے اور تانبے کے ذخائر کے بڑے منصوبوں میں سے ایک ہے۔ اِس نئے معاہدے پر بھی بعض سیاسی جماعتوں اور چاغی سمیت صوبے کے دیگر علاقوں کے عوام نے تحفّظات کا اظہار کیا۔ بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے معاہدہ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ ترقّی کے نام پر صوبے کے عوام کے ساتھ فراڈ ہے۔
قوم پرست جماعتیں اِس بابت یہ موقف رکھتی ہیں کہ پچھلے معاہدے کی طرح یہ نیا معاہدہ بھی بلوچستان کے لیے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں۔ ان کے بقول، ریکوڈک ڈیل چھے نسلوں کے حقوق پر ڈاکا اور بلوچستان کو سراب میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ’’ صوبائی حکومت کا یہ معاہدہ دراصل اپنا اقتدار بچانے کا حربہ اور طاقت وَر اداروں کی خوش نودی ومفادات کا تحفّظ ہے۔‘‘ اگرچہ ریکوڈک معاہدے سے قبل بلوچستان اسمبلی کے خصوصی اِن کیمرا اجلاس میں ارکانِ اسمبلی کو اعتماد میں لیا گیا،پھر کابینہ اور دیگر متعلقہ فورمز سے منظوری بھی لی گئی، اس کے بعد معاہدے پر دست خط ہوئے۔تاہم، اکثر جماعتیں اور ارکانِ اسمبلی معاہدے سے لاعلمی کا اظہار کرتے رہے۔ اُن کی جانب سے ریکوڈک معاہدہ پبلک کرنے کا بھی مطالبہ سامنے آیا۔
بلوچستان ماضی میں مُلک کا سب سے پُرامن صوبہ رہا ہے، تاہم یہاں وقتاً فوقتاً بدامنی اور تشدّد کی لہریں اُٹھتی رہی ہیں۔ بدامنی کی حالیہ لہر 2000ءمیں شروع ہوئی اور 2006ءکے بعد اس میں شدّت آئی۔ اگرچہ اب صوبے میں امن وامان کی صُورتِ حال کافی حد تک بہتر ہے، تاہم گزشتہ چند برسوں کی طرح سال 2022ء بھی بلوچستان کے لیے مثالی اور خوش گوار یادوں کا حامل سال ثابت نہیں ہوا۔صوبے میں گزشتہ برس پولیس، سیکوریٹی فورسز، پولیو ٹیمز، گیس پائپ لائنز، بجلی کی ٹرانسمیشن لائنز، تعمیراتی کمپنیز کے کیمپس پر بم دھماکوں، خود کُش حملوں اور فائرنگ کے واقعات کا سلسلہ جاری رہا،جن میں متعدّد افراد شہید اور زخمی ہوئے۔
نوشکی اور پنج گور میں سیکوریٹی فورسز کے قلعوں پر بڑے حملے ہوئے۔ 2022ء میں بلوچستان میں 150سے زاید بم دھماکوں، دستی بم حملوں، بارودی سرنگ دھماکوں، راکٹ باری اور خودکُش حملوں کے واقعات ہوئے، جن میں ڈیڑھ سو سے زاید افراد جاں بحق اور500 افراد زخمی ہوئے۔اِن میں چار خود کُش حملے، 52 بم دھماکے، 28بارودی سرنگ دھماکے، 60دستی بم حملے اور58 فائرنگ کے واقعات شامل ہیں۔ اِس دَوران پولیس اور دیگر سیکوریٹی فورسز کی جانب سے کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔سیکوریٹی حکّام کے مطابق ان کارروائیوں میں کالعدم تنظیموں کے کئی ارکان ہلاک اور زخمی ہوئے،جب کہ ان کے ٹھکانوں سے بڑی تعداد میں اسلحہ اور دھماکا خیز مواد برآمد کیا گیا۔
سالِ رفتہ مُلک بَھر کی طرح بلوچستان کے عوام کے لیے بھی موسمیاتی تبدیلی کے خطرناک نتائج کا سال ثابت ہوا۔ اس دَوران بلوچستان میں بارشوں اور سیلاب سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات ہوئے۔ صوبے میں مون سون سے پہلے پری مون سون بارشوں سے تباہی کا سلسلہ شروع ہوا، جو بعد میں بھی کافی دنوں تک جاری رہا۔بارشوں اور سیلاب سے مجموعی طور پر300 سے زاید افراد جاں بحق اور200 سے زاید زخمی ہوئے۔ بلوچستان کے 34اضلاع میں بارشوں اور سیلاب سے 13لاکھ لوگ بے گھر ہوئے۔22سو کلومیٹر سڑکیں اور25 ڈیم متاثر ہوئے۔
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان، میرعبدالقدّوس بزنجو کا کہنا تھا کہ بارشوں اور سیلاب سے 200ارب روپے کا نقصان ہوا۔ اِس تباہی سے یوں تو ہر شعبہ اور ہر علاقہ ہی متاثر ہوا، تاہم زراعت، لائیو اسٹاک، آب پاشی اور مواصلات کے شعبے زیادہ نشانہ بنے۔یکم اگست کو کمانڈر سدرن کمانڈ، لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی سمیت فوج کے چھے اعلیٰ افسران ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہوئے۔ وہ بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا جائزہ لینے کے بعد اوتھل سے کراچی جا رہے تھے کہ ہیلی کاپٹر لاپتا ہوگیا۔ یہ ہیلی کاپٹر لسبیلہ کے علاقے وندر کے قریب گرکر تباہ ہوا اور اگلے روز اس کا ملبہ ملا۔
گزشتہ برس کے دَوران ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بھی رُونما ہوتے رہے۔ اہدافی قتل کے ایک ایسے ہی واقعے میں14اکتوبر کو سابق چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ، جسٹس محمّد نور مسکانزئی ایک ایسے وقت میں نشانہ بنائے گئے، جب وہ اپنے گاؤں، خاران کی مسجد میں عشاء کی نماز ادا کررہے تھے۔بلوچستان میں حالات کی خرابی کے بعد ناراض بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کی بازگشت سُنائی دیتی رہی۔7 مارچ کو وزیرِ اعلیٰ میر عبدالقدّوس بزنجو نے وزیرِ اعظم، عمران خان کے زیرِ صدارت نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد سے متعلق جائزہ اجلاس میں بیان دیا کہ’’ باہر بیٹھے لوگوں سے رابطے جاری ہیں۔
بلوچستان کا مسئلہ طاقت سے نہیں، بات چیت سے حل ہوگا۔ شورش میں بلوچستان کے لوگوں کو استعمال کیا جاتا رہا۔ ہر شورش کو طاقت کے ذریعے دبایا گیا اور کوئی مستقل حل نہیں نکالا گیا۔ لوگوں کو اچھی تعلیم، روزگار اور وسائل پر اختیار ملے گا، تو وہ پہاڑوں کی جانب نہیں دیکھیں گے۔‘‘ 2022ءکے دَوران لاپتا افراد کے معاملے پر ایک کمیشن بھی تشکیل دیا گیا، جو ابھی تک اپنی رپورٹ مرتّب نہیں کرسکا۔ لاپتا افراد کا مسئلہ گزشتہ برس بھی نہ صرف موجود رہا، بلکہ مزید سنگین ہوا۔
لاپتا افراد کے لواحقین نے،جن میں خواتین اور بچّے بھی شامل تھے، اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے کوئٹہ کے ریڈ زون میں 50دنوں تک دھرنا دیا۔غالباً مقتدر قوّتوں کو یہ احساس ہوتا جارہا ہے کہ جب تک یہ سنگین مسئلہ حل نہیں ہو پاتا، صوبے کے حالات کی بہتری کی کوئی راہ نہیں نکالی جاسکتی۔اِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دھرنا ختم کرنے کے لیے وزیرِ اعظم، شہباز شریف کی ہدایت پر وفاقی وزیرِ قانون، اعظم نذیر تارڑ کی سربراہی میں وفاقی وزراء کی ایک کمیٹی کوئٹہ پہنچی، جس میں وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ بھی شامل تھے۔
اُنہوں نے شرکاء سے دھرنا ختم کرنے کے لیے مذاکرات کیے۔علاوہ ازیں،وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہدایت پر بی این پی کے سربراہ اور رُکن قومی اسمبلی، سردار اخترجان مینگل کی سربراہی میں ایک کمیشن بھی تشکیل دیا، جس میں معروف قانون دان سینیٹر کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ اور افراسیاب خٹک شامل ہیں۔اس کمیشن نے کوئٹہ کا دورہ کرکے مختلف حکّام سے ملاقاتیں کیں۔ یہ کمیشن لاپتا افراد اور طلبہ کی پروفائلنگ کے حوالے سے رپورٹ مرتّب کرکے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کرے گا۔
بلوچستان کے مسائل پر گہری نگاہ رکھنے والے حلقے یہ نکتہ اُٹھاتے رہے ہیں کہ صوبے کے مسائل دو قسم کے ہیں۔ ایک سیاسی اور دوسرے معاشی۔ سیاسی مسائل کے حل کے لیے وفاق اور صوبے میں بات ہوتی رہی ہے، تاہم بلوچستان کے معاشی مسائل کے حل کی جانب اب تک خاطر خواہ توجّہ نہیں دی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سالِ رفتہ کی شروعات میں ریکوڈک معاہدے پر پیش رفت، وفاق اور صوبائی حکومت کی جانب سے طرح طرح کے اعلانات کے باوجود صوبہ مالی بحران کا شکار رہا، جس کا اعتراف خود وزیرِ اعلیٰ نے بھی کیا ۔
اُنھوں نے اس کی وجہ یہ بیان کی کہ وفاق کی جانب سے این ایف سی کے تحت ملنے والے45ارب روپے کا پورا شیئرنہیں ملا۔ اُنہوں نے یہ بیان یکم دسمبر کو دیا اور یہ کہہ کر خطرے کی گھنٹی بجادی کہ اگر این ایف سی کا طے شدہ سہ ماہی شیئر جلد نہ ملا، تو صوبائی حکومت اپنے ملازمین کو تن خواہیں بھی نہیں دے پائے گی۔ اُنہوں نے اِس ضمن میں وزیرِ اعظم اور وفاقی حکومت سے اقدامات کا مطالبہ کیا، جس سے اِس مسئلے کے فوری حل کی سمت پیش رفت ہوئی۔
بلوچستان کے مالی مسائل کے دیرپا حل اور این ایف سی شیئر کے اجراء سے متعلق وزارتِ خزانہ میں اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا،جس میں کچھ فیصلے ہوئے۔ تاہم، باخبر حلقے ایسے اقدامات کو ناکافی اور محض جُز وقتی حل سمجھتے ہیں۔ بلوچستان کے مالی مسائل کا کُل وقتی حل یہی ہے کہ صوبے کے پیداواری شعبے جدید خطوط پر استوار کیے جائیں۔ یہاں صنعت وحرفت کو ترقّی دی جائے۔نیز، صوبے کے افغانستان اور ایران سے ملحقہ علاقوں میں بارڈر ٹریڈ کے فروغ اور معاشی سرگرمیوں میں اضافے کے لیے کام کیا جائے۔ یہاں سب سے زیادہ تجارت چمن، تفتان اور پنج گور بارڈرز پر ہوتی ہے، تاہم دونوں ممالک کے ساتھ مختلف وجوہ کی بنا پر گیٹس کی بندش اور دیگر افسوس ناک واقعات 2022ء میں بھی جاری رہے۔
افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد بعض حلقے کہہ رہے تھے کہ اب افغانستان کے ساتھ کشیدگی کو بڑھاوا دینے کے واقعات رُونما نہیں ہوں گے، تاہم ایسا نہیں ہوا۔ پاکستان اور طالبان فورسز کے مابین سرحدی جھڑپیں ہوئیں،جن کی وجہ سے کئی بار سرحد ہر طرح کی آمد ورفت کے لیے بند رہی۔چمن کے علاوہ پنج گور بارڈر پر بھی محنت مزدوری کرنے والوں کو مشکلات کا سامنا رہا۔ چمن، بادینی، نوشکی سے متصل افغان بارڈر اور تفتان، پنج گور اور تربت سے متصل ایران بارڈر پر ہزاروں لوگ روزگار سے وابستہ ہیں۔
اِن علاقوں میں سابق دورِ حکومت میں بارڈر مارکیٹس کے قیام کا منصوبہ شروع ہوا تھا، مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ مکمل کیا جائے اور سرحدی تجارت میں آسانی کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں۔ سی پیک کے تحت گوادر سمیت بلوچستان کے کئی علاقوں میں مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے، تاہم اِس ضمن میں مزید اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ منصوبے تیزی سے مکمل ہوسکیں۔ 10نومبر کو ایک چینی کمپنی نے گوادر میں 450کروڑ ڈالر کی آئل ریفائنری قائم کرنے کے منصوبے کا آغاز کیا، جو سالانہ 80لاکھ ٹن آئل پراسیسنگ کی صلاحیت کی حامل ہوگی اور اس سے لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی ملیں گے۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ سی پیک منصوبے پر بہت سخت سیکوریٹی میں کام ہو رہا ہے۔گزشتہ برس سی پیک منصوبے پر کام کرنے والی کمپنیز، ٹیمز اور چینی شہریوں پر وقتاً فوقتاً کالعدم عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے حملے ہوتے رہے۔
سال2022ءمیں بھی بلوچستان کی خونی شاہ راہیں قیمتی انسانی جانیں نگلتی رہیں۔ چمن، کوئٹہ کراچی، کوئٹہ ژوب ڈی آئی خان، کوئٹہ لورا لائی ڈی جی خان اور کوئٹہ سبّی جیکب آباد شاہ راہوں پر ٹریفک حادثات میں 1500 سے زاید افراد جاں بحق اور 2ہزار افراد زخمی ہوئے۔ بلوچستان میں ایک بھی دو رویا شاہ راہ یا موٹروے نہیں ہے۔ حادثات کی بات کی جائے، تو شاہ راہوں کے بعد سب سے زیادہ حادثات بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں پیش آتے ہیں، جہاں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا نقصان معمول کی بات ہے۔ سالِ گزشتہ بھی کوئٹہ، ہرنائی، شاہرگ، مستونگ، مچھ اور دیگر کول مائنز ایریاز میں تواتر سے حادثات پیش آتے رہے، جن میں70 کان کن جاں بحق اور 40زخمی ہوئے۔کان کنی سے وابستہ افراد کو کوئلے کی کانوں میں کسی قسم کی سہولتیں میّسر ہیں اور نہ ہی حادثات میں جانیں گنوانے کے بعد غریب خاندانوں کا کوئی پُرسانِ حال ہوتا ہے۔
بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں۔یہ جہاں دیگر حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے، وہیں منشیات کے بین الاقوامی رُوٹ پر بھی واقع ہے، جس کی بنا پر یہاں منشیات کی اسمگلنگ اور اس کے پھیلاؤ کا سلسلہ بھی تیزی سے جاری ہے۔ صوبے میں اب کوئی علاقہ اور شاید ہی کوئی گھر منشیات سے محفوظ ہو۔ لاکھوں نوجوان منشیات کے عادی بن چُکے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت ژوب سے لے کر گوادر اور چمن سے لے کر حب چوکی تک ہر گلی اور بازار میں چرس، افیون، ہیروئن، کرسٹل شیشہ سرِعام فروخت ہو رہا ہے۔
گزشتہ برس حکومت اور پولیس سمیت دیگر متعلقہ ادارے کبھی کبھی منشیات فروشوں کے خلاف حرکت میں آتے رہے، مگر یہ کارروائیاں روک تھام میں مؤثر ثابت نہیں ہوئیں۔واضح رہے، 2022ء کے دَوران تین ارب روپے سے زاید کی منشیات پکڑی گئی، جس میں صرف پولیس کی کاروائیوں میں ملزمان پکڑے گئے، جب کہ اے این ایف، کسٹم اور کوسٹ گارڈ کی کارروائیوں میں بڑی تعداد میں منشیات تو برآمد کی گئی، مگر زیادہ تر کارروائیوں میں ملزمان کی گرفتاری عمل میں نہ آسکی، جس سے بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔