2022ء میں بھی دنیا کورونا وائرس کی مختلف اقسام، زلزلوں اور سیلابوں کی زَد میں رہی،خصوصاً پاکستان کے لیے یہ سال آزمائش و ابتلا کا سال ثابت ہوا۔ابھی عوام کورونا کے خوف سے باہر نہیں نکلے تھے کہ اُنہیں موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والی غیر معمولی بارشوں اور سیلاب نے گھیر لیا۔ پاکستان میں کافی عرصے سے بارشیں نہ ہونے کے برابر ہورہی تھیں، لیکن 2022ء کے پہلے ہی ماہ کراچی اور پشاور سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں شدید بارشیں ہوئیں۔
پھر پاکستان میں مون سون سیزن کا آغاز جولائی سے ہوتا ہے اور بلوچستان اُس کی رینج میں نہیں،لیکن اس کے باوجود، پری مون سون سیزن کی بارشوں نے بلوچستان سمیت چاروں صوبوں میں سیلابی صُورت اختیار کر لی اور دیکھتے ہی دیکھتے سیکڑوں بستیاں تباہ وبرباد ہوگئیں۔ مسلسل بارش، دریاؤں کی طغیانی اور پانی کے بے قابو ریلوں کی زَد میں آنے والے شہر، قصبے اور چھوٹی چھوٹی بستیاں ہفتوں ندیوں، جھیلوں کے مناظر پیش کرتی رہیں۔یہ سیلاب اِس قدر طاقت ور اور ہیبت ناک تھا کہ بچاؤ کے سب انتظامات بھی پانی میں بہہ گئے اور چار سُو بس تباہی وبربادی کی ہول ناک تصاویر ہی رہ گئیں۔
شدید بارشوں، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے کم و بیش3 کروڑ30 لاکھ افراد متاثر ہوئے، جن میں ایک کروڑ 60لاکھ بچّے بھی شامل ہیں۔رپورٹس کے مطابق،350 سے زاید بچّوں سمیت1500 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے،تو1600 زخمی ہوئے،جب کہ تین لاکھ سے زاید گھر مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔ ہزاروں کلومیٹر پر محیط سڑکیں پانی کے ریلوں میں بہہ جانے سے متاثرہ علاقے مُلک کے دیگر علاقوں سے کٹ گئے۔ نیز، لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں بھی طوفانی بارشوں اور بدمست سیلاب کی بھینٹ چڑھ گئیں۔
بعدازاں، چھے ماہ گزرنے کے باوجود یعنی سال کے آخر تک ہزاروں متاثرین سڑکوں کے کنارے بے یارو مددگار پڑے رہے، شدید سردی اُن کی مشکلات میں مسلسل اضافہ کرتی رہی،لیکن حکم ران صرف دَوروں، اعلانات اور وعدوں ہی تک محدود رہے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں آنے والے سیلاب نے انسانی المیے کو جنم دیا، یہاں تک کہ اقوامِ متحدہ کو بھی کہنا پڑا کہ پاکستان میں موسمیاتی تباہی ناقابلِ تصوّر ہے۔اس ضمن میں اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل، انتونیو گوتیرس نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ دنیا بَھر میں گرین ہاؤس گیسز کے مجموعی اخراج میں پاکستان کا حصّہ ایک فی صد سے بھی کم ہونے کے باوجود اُسے بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ’’مَیں نے پاکستان کا دورہ کیا اور وہاں جس درجے کی موسمیاتی تباہی دیکھی، وہ ناقابلِ تصوّر ہے۔ وہاں میرے اپنے مُلک، پرتگال کے مجموعی رقبے سے تین گُنا زیادہ علاقہ پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ سیلاب سے متاثرہ بہت سے لوگ اپنا سب کچھ، گھر، مویشی، فصلیں اور مستقبل کھو چُکے ہیں، زندگیاں پانی کی نذر ہو گئیں۔نیز، اب ملیریا، ڈائریا اور ڈینگی جیسے امراض قیمتی انسانی جانیں نگل رہے ہیں۔ پاکستان صحتِ عامّہ کی تباہی کے دہانے پر ہے،لہٰذا اُس کی مدد کرنا مغرب کی اخلاقی ذمّے داری ہے۔‘‘
سیلاب سے بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد کی دوبارہ آباد کاری حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے، جس میں کئی برس لگ سکتے ہیں،تو دوسری طرف، غذائی بحران نے بھی سَر اُٹھا لیا، جس کے باعث اشیائے خور و نوش کے نرخ آسمان سے باتیں کرنے لگے اور سال بَھر اُن کی بڑھتی قیمتوں پر قابو نہیں پایا جاسکا۔سیلاب کے تباہ کُن اثرات زراعت پر براہِ راست مرتّب ہوئے۔پاکستان کی جی ڈی پی کا21 فی صد زراعت پر مشتمل ہے اور تقریباً45 فی صد روز گار کا انحصار بالواسطہ یا بلاواسطہ زراعت پر ہے، جب کہ60 فی صد برآمدات زراعت پر مبنی اشیاء سے تعلق رکھتی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق، بدترین سیلاب سے20 لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں متاثر ہوئیں۔ سندھ میں15 لاکھ ایکڑ، بلوچستان میں3.5 لاکھ اور پنجاب میں1 لاکھ 80 ہزار ایکڑ کے قریب زمین سیلاب کی نذر ہوئی۔اِس رقبے پر لگی فصلوں میں2.5 ملین ٹن چاول،7.5 ملین ٹن گنا،0.7 ملین ٹن کاٹن اور0.3 ملین ٹن مکئی شامل تھیں۔اِسی طرح ہزاروں جانوروں کی ہلاکت کی وجہ سے گوشت اور دودھ کی قیمتیں بھی عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو گئیں۔ اگست میں بلوچستان میں قدیم ہرک پُل پانی میں بہہ گیا، جس کے باعث چار ماہ تک ریل سروس معطّل رہی۔
بعدازاں، ریلوے حکّام نے ریل سروس کوئٹہ کی بجائے مچھ سے جزوی طور پر بحال کی۔مُلک میں 2022ء کا آغاز ہی ایک ایسے انسانی المیے سے ہوا کہ جس نے ہر آنکھ اشک بار کر دی۔ہوا کچھ یوں کہ جب پنجاب کے خُوب صُورت سیّاحتی مقام مَری میں لوگ برف باری دیکھنے کے لیے داخل ہوئے تو ناقص انتظامات کے باعث لاکھوں افراد نے ایک ساتھ داخل ہونے کی کوشش کی اور نتیجتاً بے شمار گاڑیاں ٹریف جام میں پھنس گئیں۔ لوگوں نے سردی کی شدّت سے بچنے کے لیے گاڑیوں کے شیشے بند کرکے ہیٹر آن کیے اور ساری رات سڑک پر گزار دی۔اسی صورتِ حال میں23 افراد دَم گُھٹنے کے سبب لقمۂ اجل بن گئے، جن میں خواتین اور بچّے بھی شامل تھے۔
گزشتہ برس کورونا وائرس کی مختلف اقسام عوام کو متاثر کرتی رہیں۔پہلی بار ایک ایسا کیس سامنے آیا، جس میں کورونا اور فلو وائرس ایک ساتھ انسانی جسم پر حملہ آور ہوئے۔کورونا اور انفلوئنزا کے اِس دُہرے انفیکشن کو’’فلورونا‘‘ کا نام دیا گیا کہ اِس نئے انفیکشن میں مبتلا مریض میں کورونا اور انفلوئنزا دونوں کے وائرس پائے گئے۔ کورونا وائرس نے ایک بار پھر کئی ممالک میں خطرے کی گھنٹی بجائی، جس کے باعث چین کو دوبارہ لاک ڈائون کی طرف جانا پڑا۔ بھارتی دارالحکومت، نئی دہلی میں314 افراد ہلاک ہوئے،جس کے بعد دو روز کے لیے کرفیو لگایا گیا۔
پاکستان کے بڑے شہروں کراچی، لاہور اور اسلام آباد سے بھی کئی کیسز سامنے آئے، لیکن صُورتِ حال بہتر ہونے پر این سی او سی نے تمام پابندیاں ختم کر دیں۔ بعدازاں، حکومت نے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر بھی ختم کردیا، لیکن 10مئی کو ایک بار پھر وزیرِاعظم، میاں شہباز شریف نے مُلک میں اومی کرون وائرس کی نئی ساخت کے بڑھتے کیسز کا نوٹس لیتے ہوئے انسدادِ کورونا کے لیے بنائے گئے ادارے، نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی فوری بحالی کے احکامات جاری کردیئے۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے بھی کورونا وائرس کے متاثرہ لاکھوں کیسز سامنے آئے۔
اومی کرون کی وجہ سے ہانگ کانگ نے پاکستان سمیت 8ممالک کی پروازیں بند کر دیں۔18اپریل کو دبئی سِول ایوی ایشن اتھارٹی نے پی آئی اے پر سال میں دوسری مرتبہ کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی اور اِس مرض سے متاثرہ دو مسافروں کو دبئی لانے پر 3لاکھ 20ہزار درہم جرمانہ عاید کیا۔ جاپان نے پاکستان کو کورونا سے متاثرہ ممالک کی ریڈ لسٹ میں رکھنے کے بعد بالآخر27 جولائی کو اِس فہرست سے نکال کر یلو لسٹ میں شامل کیا۔
یاد رہے، پاکستان گزشتہ دو برس سے جاپان کی کورونا سے متاثرہ ممالک کی ریڈ لسٹ میں شامل تھا، یہاں تک کہ آخری کئی ماہ تو دنیا کے صرف تین ممالک البانیہ، سیر الیون اور پاکستان ہی ریڈ لسٹ میں باقی بچے تھے۔اِس فہرست سے اخراج کے بعد اب پاکستان سے جاپان جانے والے ایسے مسافروں کو، جنھوں نے کورونا ویکسین کی کم از کم تین ڈوز لگوائی ہوں، پاکستان سے پی سی آر ٹیسٹ تو کروانا ہوگا، تاہم جاپان پہنچنے کے بعد ایئر پورٹ پر پی سی آر ٹیسٹ کروانا پڑے گا اور ہی گھر یا ہوٹل میں قرنطینہ کرنا پڑے گا۔
ڈینگی کی بات کریں، تو گزشتہ برس اس مرض نے بھی پاکستان میں 70کے قریب زندگیاں نگل لیں۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے مطابق، پورے مُلک میں ڈینگی کے 76ہزار سے زاید کیسز سامنے آئے۔ ایک جانب کورونا اور ڈینگی کی تباہ کاریاں جاری تھیں، تو دوسری طرف مویشی، لمپی اسکن وائرس کی زَد میں آ گئے۔ یہ وائرس عموماً گائیں اور بھینسوں میں بیماری کا باعث بنتا ہے۔ایشیا، افریقا اور یورپ کے کئی ممالک اِس بیماری کی زد میں ہیں۔ بھارت میں بھی اس کے سبب ایک لاکھ سے زاید مویشی ہلاک ہوئے، جب کہ پاکستان میں بھی متاثرہ جانوروں کی تعداد لاکھوں میں بتائی گئی۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں خوراک کی کمی سے بھی انسانی المیے جنم لیتے رہے۔ جنوری میں سندھ کے علاقے، صحرائے تھر میں غذائی قلّت اور مختلف امراض کے باعث 50 سے زاید بچّوں کی اموات ہوئیں۔ اسی طرح جنگلات میں پُراسرار آتش زدگی کے واقعات بھی تسلسل سے جاری رہے۔ 3 مئی کو مَری کے قریب جنگلات میں اچانک شدید آگ بھڑک اُٹھی، جس سے مَری ایکسپریس وے سے ملحقہ علاقے، گوہڑا اور سنبھل بیاہ کے جنگلات متاثر ہوئے۔ اِس آگ سے جنگل کا ایک بڑا حصّہ جل کر راکھ ہو گیا۔
ہزاروں سرسبز درختوں اور پودوں کے ساتھ جنگلی حیات کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔اسی مہینے خیبر پختون خوا کے ضلع سوات سمیت کئی علاقوں کے جنگلات اور پہاڑوں پر آگ لگنے کے واقعات رُونما ہوئے، جن کے نتیجے میں سرسبز اور ہرے بَھرے درختوں سے لدے پہاڑ سیاہ ہوگئے۔آتش زدگی سے 440ہیکٹرز جنگلات کو نقصان پہنچا، جب کہ آگ لگانے کی پاداش میں25افراد کو مقدمات درج کر کے گرفتار کیا گیا۔
ایک اور سنگین واقعہ بلوچستان میں پیش آیا، جہاں20 مئی کوچلغوزوں کے قیمتی جنگلات میں پُراسرار طور پر آگ بھڑک اُٹھی اور اُس نے تین ہفتوں تک ہزاروں ایکڑ پر پھیلے جنگل کو لپیٹ میں لیے رکھا۔ آگ کے نتیجے میں26 ہزار ایکڑ پر محیط قیمتی جنگل تباہ ہوگیا، جب کہ 3 افراد بھی جھلس کر جاں بحق ہوگئے۔
دنیا بھر کی بات کی جائے، تو پاکستان سمیت کئی مماک خطرناک طوفانوں کی زَد میں بھی رہے۔جنوب مشرقی خلیجِ بنگال میں ڈیپ ڈیپریشن شدّت اختیار کر کے سمندری طوفان’’ آسانی‘‘ میں تبدیل ہوا۔ 31اکتوبر کو فلپائن میں طوفان کے باعث 100افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے، جب کہ شدید طوفان کے باعث 200کے قریب مُلکی اور بین الاقوامی پروازیں ملتوی کرنی پڑیں۔ 2022ء کے اوائل میں کراچی میں طوفانی ہوائوں کے باعث دکانوں، مکانات کی چھتیں اُڑنے، دیواریں اور بجلی کے پول گرنے سے تین بچّوں سمیت5افراد ملبے تلے دب کر جاں بحق اور3زخمی ہوگئے۔
گرد آلود ہواؤں کے جھکّڑ سے کئی درخت بھی اکھڑ گئے۔ 17 جون اور پھر 3 دسمبر کو پنجاب اور خیبر پختون خوا سمیت مُلک کے بالائی علاقوں میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے۔تاہم،کوئی مالی یا جانی نقصان نہیں ہوا۔22 جون کو افغانستان میں آنے والے ہول ناک زلزلے میں 1163افراد جاں بحق اور6 ہزار سے زاید شدید زخمی ہوئے، جب کہ سال کا دوسرا بڑا زلزلہ 21نومبر کو انڈونیشیا کے جزیرے جاوا میں آیا، جس میں 321افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ایران،تائیوان، نیپال اور تُرکیہ میں بھی مختلف شدّت کے زلزلے آئے، جن میں جانی و مالی نقصان بھی رپورٹ ہوا۔
2022ء یورپ کی پانچ سو سالہ تاریخ کا اِس اعتبار سے بدترین سال تھا کہ اس دَوران فرانس، جرمنی، اٹلی، رومانیہ، اسپین، پرتگال اور برطانیہ سمیت کئی یورپی ممالک ماحولیاتی تبدیلی کے سبب شدید درجۂ حرارت کی لپیٹ میں رہے، جب کہ یورپ میں تاریخ کی بدترین خشک سالی بھی دیکھی گئی، جس کے باعث دریا خشک ہوگئے، جنگلات میں آگ بھڑک اُٹھی اور بارشوں کی کمی کے باعث فصلوں کی پیدوار متاثر ہوئی، جس کا اثر اشیائے خورو نوش پر پڑا اور اُن کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا۔
فرانس کے محکمۂ موسمیات کے مطابق، مُلک میں11 جولائی کی ہیٹ ویوز سے 60سالہ ریکارڈ ٹوٹا۔ اگست میں یورپ کے ایک سو کے قریب دیہات میں پینے کا پانی ختم ہو گیا، جب کہ فرانس کے تمام میٹرو پولیٹن شہروں میں پانی کا استعمال محدود کردیا گیا۔موسمِ گرما میں جرمنی کے دریائے رائن کی سطح غیر معمولی حد تک گرگئی، جس کی وجہ سے ایمریچ میں پانی کی سطح مائنس 3ہوگئی۔ اٹلی کو جولائی میں نیشنل ایمرجینسی کا اعلان کرنا پڑا کہ شدید گرمی کے سبب جانوروں کی بڑی تعداد ہلاک ہوگئی تھی۔رومانیہ نے موسمِ گرما کے دَوران پانی کے استعمال سے متعلق سخت قواعد و ضوابط لاگو کیے تاکہ شدید درجۂ حرارت اور خشک سالی کے پیشِ نظر زیادہ سے زیادہ پانی بچایا جا سکے۔برطانیہ کے محکمۂ موسمیات نے جولائی میں بتایا کہ مُلک میں 1935ء کے بعد سب سے زیادہ خشک سالی ریکارڈ کی گئی، جس کے باعث کھیت سوکھ گئے، زیرِ زمین پانی کی سطح نیچے چلی گئی اور مال مویشیوں کی اموات میں اضافہ دیکھا گیا۔
گزشتہ برس موسمیاتی تبدیلی اور اس کے نتیجے میں آنے والی آفات جیسے اہم مسئلے پر غور و فکر کے لیے مصر کے سیّاحتی مقام، شرم الشیخ میں اقوامِ متحدہ کے تحت عالمی کانفرنس ہوئی، جس میں کئی اہم اعلانات کیے گئے۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر زمین انسانوں کے رہنے کے قابل رکھنی ہے، تو اس کا درجۂ حرارت ایک حد میں رکھنا ہوگا،جو1.5 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ اُن کے مطابق، سال 1800ء کے مقابلے میں آج زمین کے درجۂ حرارت میں 1.1 سینٹی گریڈ اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کا سبب کاربن کا اخراج ہے، جو صنعتی ترقّی کی وجہ سے زمین سے فضا میں پھیلا۔2030ء تک کاربن گیسز کے اخراج پر کنٹرول کرکے اُنھیں45 فی صد تک کم کرنا ہوگا۔جب ہی یہ ممکن ہوگا کہ 2050ء تک اسے زیرو پر لایا جاسکے،جسے’’ نیٹ زیرو‘‘ کہا جاتا ہے۔