• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انسانی معاشرہ طویل ارتقائی عمل سے گزر کر آج کے متمدن دور میں داخل ہوا ہے۔ ریاست کی تشکیل اس ارتقائی عمل میں ایک مخصوص مرحلے پر ہوئی جب انسانی معاشرہ اتنا پھیل گیا کہ اس کو ایک باقاعدہ نظام کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ معاشرتی اتار چڑھائو اور وقت کی ضروریات کے مطابق ریاست نے کسی بھی خود مختار علاقے میں اعلیٰ سیاسی تنظیم قائم کی تاکہ اپنے باشندوں کو مختلف ضابطوں اور ذرائع سے ایک خاص انداز میں زندگی بسر کرنے کا پابند کرے۔اس نظام میں رفتہ رفتہ مقامی حکومتوں نے جمہوریت کے ٹھوس ثمرات عوام تک پہنچانا شروع کئے۔ آبادی کے مسلسل اضافے نے مقامی حکومتوں پر زیادہ ذمہ داری ڈال دی ا ور ریاست کے اختیارات مرکزیت کے بجائے مقامی سطح پر تقسیم ہوتے گئے۔لیکن مقامی حکومتوں کے حوالے سے ہماری روایات اس کے بالکل برعکس ہیں جس کی اصل وجہ پاکستانی میں وراثتی سیاسی جماعتیں ہیں جو نظام پر جاگیرداروں ، قبائلی سرداروں، سجادہ نشینوں اور سول بیوکریسی کے اداروں کے قبضوں کو زیادہ مقدم سمجھتی ہیں اور ان کا خیال ہے کہ مقامی سطح کی حکومتیں بننے سے نو آبادیاتی حکمرانی کا تسلسل جاتا رہے گا اور عام آدمی سیاسی لیڈر بن کر ان کے مفادات کے حصول میں رکاوٹ بن جائے گا۔اس کے برعکس پاکستان میں جب بھی فوجی حکومتیں آئیں۔انہوں نے سیاسی خاکہ تربیت دیتے ہوئے سب سے زیادہ فوقیت مقامی حکومتوں کے نظام کو دی اور مقامی حکومتوں کو اپنی حمایت ، اقتدار کو طول دینے اور اپنی سیاسی مداخلت کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی۔گو کہ مقامی حکومتوں کے ادارے انگریزوں کے دور میں قائم ہو چکے تھے اور انہیں ایوب خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف نے تقویت دی جبکہ پاکستان کی تینوں بڑی جماعتوںمسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے یہ ادارے قائم کرنے سے ہمیشہ گریز کیا۔مقامی حکومتوں کے حوالے سے ہماری روایات بھی بہت عجیب سی ہیں کہ جب بھی کوئی صوبائی حکومت تبدیل ہوتی ہے تو وہ مقامی حکومتوں کے تسلسل کو روک دیتی ہے اور اس نظام میں بنیادی تبدیلیاں کر کے اس کو غیر

موثربنادیا جاتا ہے۔نئی صوبائی حکومتیں مقامی حکومت کے حوالے سے قانون سازی اور عمل درآمد کیلئے حزب اختلاف کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتیں۔بنیادی جمہوریتوں کا نظام ایوب خان نے متعارف کرایا اور وہی فریم ورک یعنی یونین کونسل اور ضلعی کونسل آج تک چلا آ رہا ہے جب کہ دوسرا ماڈل مشرف کا ضلعی حکومتوں کا نظام تھا اور تیسرا ماڈل تحریک انصاف کا خیبر پختونخوا میں تحصیل کونسلز کا نظام ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان تینوں ماڈلز کو مربوط کر کے مقامی حکومتوں کا تسلسل برقرار رکھا جاتا۔لیکن گزشتہ کئی سال سے پنجاب میں مقامی حکومتوں کے انتخابات التوا کا شکار ہیں۔ پہلے 2013ء کا ماڈل لایا گیا پھر 2019کا ماڈل ، پھر 2021کا ماڈل اور پھر 2022 کا ایک ماڈل جس نے اس نظام کو ایک عجیب مذاق بنا دیا ہے۔ اسلام آباد میں اس سے بھی بدتر حالات ہیں۔ پہلے تحریک انصاف کے دور میں سو یونین کونسلوں سے پچاس یونین کونسلز بنیں اور جب انتخابات ہونے لگے اور کاغذات بھی جمع ہو گئے تو پی ڈی ایم کی حکومت نے سو یونین کونسلیں بنا کرایک نئی قانون سازی کر دی۔ لیکن جب دیکھا کہ حالات ان کیلئے ساز گار نہیں تو انتخابات سے تین چار دن پہلے ہی ایک قانون سازی کر کے ان سو یونین کونسلوں کو 125 کر دیا یوں 31دسمبر 2022کو انتخابات نہ ہو سکے اور یہ معاملات اب اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِسماعت ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت جس وقت بھی چاہے قانون سازی کر سکتی ہے مگر یہ عمل ایک مکمل ذمہ داری کا متقاضی ہے۔ 31دسمبر 2022کی صبح تک اسلام آباد کے شہریوں کو پتہ نہیں تھا کہ الیکشن ہو بھی رہے ہیں کہ نہیں حالانکہ عدالتی فیصلہ آ گیا تھا کہ انتخابات 31تاریخ کو ہی کروائے جائیں۔ دوسری طرف سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت سیلاب، پولیس نفری کی کمی اور دوسرے بہانوں سے اس عمل کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 32کی رو سے مقامی حکومت کو بھی مملکت کا حصہ بناتے ہوئے آرٹیکل 140-Aمیں صوبوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ مقامی حکومتوں کا نظام بنائیں۔

یاد رہے کہ مقامی حکومتوں کا قانو ن دراصل سیاسی ارتقاکی ایک سیڑھی ہوتا ہے جس میں نوجوانوں کو زیادہ موقع ملتا ہے تاکہ وہ اپنی سیاسی سوچ بتدریج پختہ کر سکیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ صوبائی حکومتیں مقامی حکومتوں کے اختیارات کو سلب کرنے کی بجائے اپنے زیادہ تر اختیارا ت نچلی سطح پر منتقل کریں۔

تازہ ترین