• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ قدرتی امر ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ انسان کے قویٰ مضبوط نہیں رہتے۔ وہ مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے، جن کے باعث نہ صرف صحت ماند پڑ جاتی ہے، بلکہ جسم بھی پُرکشش نہیں رہتا۔نہ صرف یہ کہ انسان نوجوانی کی طرح جاذبِ نظر نہیں رہتا، بلکہ بیماری کی وجہ سے جسم میں کم زوری اور ضعف پیدا ہوکر اس کی ساخت بھی متاثر ہونے لگتی ہے۔ ایسے میں وہ تلافی اور سابقہ حُسن و کشش کے حصول کے لیے مختلف قسم کے علاج ڈھونڈتا نظر آتا ہے۔

پھر اگر کسی حادثے کے نتیجے میں کسی کا کوئی عضو کٹ جائے یابدنما ہوجائے، تو اُسے درست کرنے کے لیے بھی مختلف تدابیر کرتا ہے۔ عمومی طور پر بھی ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اچھا نظر آئے، اس کا چہرہ خُوب صُورت معلوم ہو، اُس کے اعضاء چست دکھائی دیں اور اُس پرثبت ہونے والے درازیِ عُمر کے اثرات عیاں نہ ہوں، تو ان سب مسائل کے حل کے لیے طب کی ایک شاخ (جس کے تحت انسانی جسم کے کسی بھی عضو کی ہیئت یا افعال کو درست کرنے کے لیے خاص طرح کی سرجریز کی جاتی ہیں) پلاسٹک سرجری (Plastic Surgery)موجود ہے۔ 

عموماً لوگ پلاسٹک سرجری سے متعلق سمجھتے ہیں کہ اس میں پلاسٹک یا کوئی مخصوص کیماوی مادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ جو کہ سراسر غلط ہے، ’’پلاسٹک‘‘ دراصل یونانی لفظ Plastiko سے ماخوذ ہے، جس کے معنی، کسی چیز کو موڑنے، ڈھالنے یا اسے نئی شکل دینے کے ہیں۔ تاہم، انسانی جسم کے علاج کی اس اہم شاخ، پلاسٹک سرجری سے متعلق لوگوں کو زیادہ آگہی نہیں ہے۔ بدقسمتی سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی اس سرجری کو صرف کاسمیٹک سرجری ہی سمجھتے ہیں۔ 

ایک وقت تھا کہ چہرے کی خُوب صُورتی میں اضافے کے لیے بیوٹی پارلرز، مساج سینٹرز اور رنگ گورا کرنے والی ادویہ بہت مقبول تھیں، لیکن جیسے جیسے میڈیکل سائنس نے ترقی کی، چہرے کی خُوب صُورتی اور دل کشی برقرار رکھنے کے لیے لیزر، کاسمیٹک اور پلاسٹک سرجری سے استفادہ کیا جانے لگا۔ درحقیقت، پلاسٹک سرجری ایک وسیع علم ہے اور اس کی وسعت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی دیگر بہت سی شاخوں میں دو بنیادی اقسام ’’تعمیری سرجری‘‘ اور ’’زیبائشی سرجری‘‘ ہیں۔

تعمیری سرجری میں جسم کا جو حصّہ خراب یا مکمل طور پر ختم ہوچکا ہو، اُسے دوبارہ اصلی حالت میں لایا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس زیبائشی سرجری میں ایک نارمل حصّے کو مزید بہتر اور خُوب صُورت بنانے کی کوشش جاتی ہے۔ اس سرجری میں چوں کہ اعضا کو دوبارہ اُن کی اصل شکل دی جاتی ہے، اس لیے اسے یونانی زبان میں ’’پلاسٹک سرجری‘‘ کہا جاتا ہے۔ بعدازاں، یہی نام دنیا بھر میں مروج ہوگیا۔ اس قسم کی سرجری میں جسم کے کسی حصّے کا کچھ گوشت یا جِلد کا حصّہ دوسری جگہ لگا کر جسم کو نارمل کرنے میں مدد دی جاتی ہے۔ 

آسان الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ ہر اُس نقص کی مرمّت، پلاسٹک سرجری کہلاتی ہے، جو پیدائشی طور پر موجود ہو، کسی حادثے میں وجود میں آیا ہو، منہ کے سرطان کے آپریشن کے نتیجے میں بنا ہو یا پھر طویل العمری کی وجہ سے پیدا ہوگیا ہو۔ ذیابطیس کے ایڈوانس مرحلے پر پہنچ جانے والے مریضوں کی اکثریت کے پائوں گل سڑ جاتے ہیں یا پھر پیروں میں ایسے زخم بن جاتے ہیں، جو مریض کو کسی پل بھی چین نہیں لینے دیتے، تو ایسے مریضوں کا علاج بھی پلاسٹک سرجری سے ہی کیا جاسکتا ہے۔

اسی طرح گردن اور منہ کے سرطان میں مبتلا کئی مریض، جن کے جسم سے مواد نکال کر ان کی جان تو بچالی جاتی ہے، مگر مرض میں مبتلا ہونے کے بعد وہ اپنی اصل شکل و صورت سے محروم ہوجاتے ہیں، پلاسٹک سرجری ہی سے ایک نئی زندگی حاصل کرتے ہیں۔ تاہم، ایسے مریضوں کو ان کی اصل حالت میں واپس لانے کے لیے پلاسٹک سرجن کے ساتھ ساتھ دانتوں اور منہ کے سرجن، ای این ٹی اسپیشلسٹ، کینسر اسپیشلسٹ، ریڈیالوجسٹ، پیتھالوجسٹ اور اسپیچ تھراپسٹ وغیرہ پر مشتمل ایک ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے، مگر اس ضمن میں بھی بہرحال بنیادی کردار پلاسٹک سرجن ہی کا ہوتا ہے۔

دوسری جانب چہرے کو خُوب صُورت بنانے، ناک کی شکل تبدیل کرنے، لٹکتے پیٹ کو اصل حالت میں بحال کرنے یا چہرے کی جھریوں کے خاتمے کے لیے جو سرجری کی جاتی ہے، اُسے کاسمیٹک سرجری کہتے ہیں۔ یہ عام سرجریز کی نسبت انتہائی مہارت کا تقاضا کرتی ہے۔ پلاسٹک سرجن ایک خاص قسم کی عینک سے باریک اعضاء اور جِلد کے مسامات تک کا جائزہ لیتے ہیں۔ بعض صورتوں میں تو آپریٹنگ مائکرو اسکوپ بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ مذکورہ سرجری کے دوران ٹانکے لگانے کے لیے مختلف قسم کے دھاگے اور سوئیاں انتہائی باریک ہوتی ہیں، جو اکثر آنکھ سے نظر نہیں آتیں۔ 

عام سرجری میں ایک ہی بلیڈ استعمال کیا جاتا ہے، مگر پلاسٹک سرجری کے چھوٹے سے چھوٹے آپریشن کے لیے بھی کئی بلیڈز استعمال کیے جاتے ہیں۔ ناک کی پلاسٹک سرجری (جسے رہینو پلاسٹی اور نوز جاب بھی کہا جاتا ہے) حادثے کے نتیجے میں زخمی ناک کی ہیئت درست کرنے کے لیے یا پیدائشی یا کسی بیماری کے باعث ہونے والے نقص کو دُور کرنے، مثلاً سانس کی نالی کی بہتری یا نتھنے میں کسی پیدائشی نقص یا رکاوٹ ہونے کی صُورت میں کی جاتی ہے۔ ناک کی پلاسٹک سرجری کے دوران مریض کے نتھنوں کے اندر کٹ لگا کر آپریشن کیا جاتا ہے اور پیچیدہ نوعیت کے کیس کی صورت میں ناک کی بنیاد کے نزدیک کٹ لگا کر آپریشن کرنا پڑتا ہے۔ 

جس کے بعد ناک کی اندرونی ہڈی اور کارٹیلیج کی شکل اور ہیئت میں ضرورت کے مطابق تبدیلی لائی جاتی ہے۔ زخم بھرنے تک عام طور پر ایک حفاظتی خول ناک پر لگا دیا جاتا ہے، جسے پھر ایک سے دو ہفتے بعد کھولا جاتا ہے، جب کہ ایک سے دو ماہ بعد مریض اپنے روز مرّہ معمولات پہلے کی طرح انجام دے سکتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ناک ہی کی پلاسٹک سرجری کی جاتی ہے، کیوں کہ چہرے کی خُوب صُورتی میں ناک بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ 

ہمارے مُلک میں بھی ناک کی سرجری کروانے والوں میں زیادہ تر وہ لوگ ہی شامل ہیں، جو اپنی ناک کی ساخت سے مطمئن نہیں ہوتے اور چہرے کو جاذبِ نظر بنانے کے خواہش مند رہتے ہیں۔ زیادہ تر لڑکیوں کو اس سرجری کی ضرورت پیش آتی ہے اور اس کی بنیادی وجہ معاشرتی دبائو کی وجہ سے پیدا ہونے والا احساسِ کم تری بھی ہے۔ اکثر رشتہ طے نہ ہونے یا سماجی میل جول کے دوران ناک کی ساخت کے حوالے سے مذاق کا نشانہ بننے والی لڑکیاں پلاسٹک سرجری کے ذریعے اپنے نقوش بہتر بناکر اپنی زندگی سنوار لیتی ہیں اور نارمل زندگی گزارتی ہیں۔

پلاسٹک سرجری کی کرشمہ سازیاں یہیں تک محدود نہیں۔ درحقیقت، یہ ایک بہت وسیع شعبہ ہے اور اس کی متعدّد شاخوں میں ’’کاسمیٹک سرجری‘‘ اور ’’ری کنسٹرکشن سرجری‘‘ دو اہم شاخیں ہیں، لیکن عام طور پر لوگ صرف کاسمیٹک سرجری ہی کو پلاسٹک سرجری سمجھتے ہیں، حالاں کہ پلاسٹک سرجری، کاسمیٹک خامیوں کو دُور کرنے کا ایک طریقہ ہے، اس طریقۂ کار کے اگر کچھ فوائد ہیں، تو کچھ نقصانات بھی ہیں، جن پر سرجری کروانے سے پہلے غور ضروری ہے۔ 

مثلاً پلاسٹک سرجری بھی دیگر سرجریز کی طرح طبی پیچیدگیوں کا خطرہ رکھتی ہے۔ یوں تو دنیا بھر میں حادثات کے نتیجے میں ہیئت بدلنے یا بگڑنے کی صورت میں پلاسٹک سرجری کروائی جاتی ہے، تاہم بہت سے عام افراد خصوصاً فلم انڈسٹری سے منسلک فن کار اپنی ناک، ٹھوڑی، کان، یونٹ اور جسم کے دیگر حصّوں کو پلاسٹک سرجری کے ذریعے درست یا پہلے سے بہتر بھی بنواتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ جرائم پیشہ افراد بھی اپنی حقیقی پہچان چُھپانے کے لیے پلاسٹک سرجری کروالیتے ہیں۔ جب کہ پلاسٹک سرجری کی بھی کئی ذیلی شاخیں ہیں۔ بچّوں کے کٹے ہوئے ہونٹ اور تالو جیسے پیدائشی نقائص بھی اسی سرجری کے ذریعے دُور کیے جاسکتے ہیں۔ 

واضح رہے کہ ایسے بچّوں کے ان نقائص کا علاج ابتدا ہی میں ترجیحی طور پر کروانا ضروری ہوتا ہے، بہ صورتِ دیگر وہ آئندہ زندگی میں متعدد مسائل کا شکار ہوسکتے ہیں۔ عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ ایسے بچّے انتہائی باصلاحیت ہونے کے باوجود بھی احساسِ کم تری کا شکار رہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک پلاسٹک سرجن آنکھ، ناک، کان، ہاتھ، انگلی، ٹانگ، پائوں یا کسی بھی عضو کا نقص ختم کرنے یا اس کی درستی میں ایک مسیحا کا کردار ادا کرتا ہے۔ ٹریفک حادثات، گھروں میں یا صنعتی کام کے دوران مشین کی زد میں آکر زخمی ہوجانے، بشمول انگلیاں کٹ جانے یاچہرے، سر، ہاتھ اور پائوں کی چوٹوں سے جسم بدنُما ہوجانے کی صُورت میں بھی پلاسٹک سرجری ہی کے ذریعے زخموں کو مندمل کرکے جِلد کو اصل حالت میں واپس لایا جاسکتا ہے۔

اسی طرح آگ سے جھلس کر اصل شکل و صورت سے محرومی کی صُورت میں، ذیابطیس کے مریضوں کے زخموں کے علاج اور انہیں اصل حالت میں واپس لانے کے لیے بھی پلاسٹک سرجن ہی سے رابطہ کیا جانا چاہیے۔ یاد رہے، 1994ء میں قائم ہونے والی ’’پاکستان ایسوسی ایشن آف پلاسٹک سرجن‘‘ نے سال 2018ء کو جلنے سے بچائو اور 2019ء کو منہ کے سرطان سے بچائو کی آگاہی کا سال قرار دیا۔ 

تاہم، ایسوسی ایشن کی انتہائی کوششوں کے باجود یہ ایک تلخ اور افسوس ناک حقیقت ہے کہ ملک میں لوگوں کی اکثریت اب تک پلاسٹک سرجری کے مفہوم ہی سے نابلد ہے، جس کے نتیجے میں بہت سے افراد، خصوصاً بچّے کسی ناگہانی حادثے کے بعد اپنی پوری زندگی ناکارہ اعضاء کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور طبی شعبے سے منسلک این جی اوز پلاسٹک سرجری سے متعلق عوام النّاس میں شعور و آگہی بیدار کریں، کیوں کہ اگر جسم کا کوئی حصّہ پیدائشی طور پر خراب ہوجائے، جل جائے، کسی چوٹ کے نتیجے میں شدید مجروح ہوجائے یا خدانخواستہ تیزاب گردی سے متاثر ہوکر چہرے کا رنگ و رُوپ ہی تبدیل ہوجائے، تو پلاسٹک سرجری کے ذریعے اُسے نہ صرف ٹھیک کیا جاسکتا ہے، بلکہ اعضاء کو پہلے سے بھی زیادہ خُوب صُورت بھی بنایا جاسکتا ہے۔ (مضمون نگار، ڈاؤ انٹرنیشنل میڈیکل کالج اور ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں شعبہ پلاسٹک سرجری کے سربراہ ہیں)

سنڈے میگزین سے مزید