• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ان دنوں بدترین موسمیاتی وماحولیاتی تباہیوں کا سامنا کر رہا ہے ، جس کی ذمہ داری پاکستان سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک پر عائد ہوتی ہے ۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سےغیرمعمولی طور پر متاثر ہوا ہے جب کہ ماحولیاتی تباہی کے اسباب پیدا کرنے میں پاکستان کاحصہ چند فیصد سے زیادہ نہیں۔شاید ہی کوئی ملک ہو جو قدرتی آفات سے مکمل محفوظ قراردیاجاسکتا ہو۔ کہیں زیادہ تو کہیں کم، تمام ممالک ہی موسمیاتی اثرات کا نشانہ بن رہے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک کے پاس دوبارہ اپنے پاؤں پرکھڑا ہونے کے لیے سرمایہ بھی ہے اور وسائل بھی، یہی وجہ ہے کہ ایک سال کے عرصہ میں درجنوں طوفان آنے کے باوجود امریکی معیشت پاکستان کی طرح متاثر نہیں ہوتی۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی ایک رپورٹ کے مطابق، سیلاب سے ملک کو مجموعی طور پر تقریباً~30 ارب ڈالرکا نقصان برداشت کرنا پڑا۔بلاشبہ دنیا اس وقت بدلتے موسموں ، قدرتی آفات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی تباہ کا ریوں سے گزر رہی ہے۔ یہ مسائل بلا تخصیص رنگ و نسل اور ملک و قوم کرۂ ارض کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں، جن پر قابو پانے کے لئے انسانوں کو اپنے اختلافات بھلاکر ہی کا م کرنا پڑے گا کیونکہ آج کا انسان خوداپنا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اس کی ہوس اور لالچ نے آنے والی نسلوں کے لیے جو مسائل پیدا کر دیے ہیں، ان سے نبردآزما ہونے کے لیے ہمیں بطور انسان ہی کام کرنا پڑے گا۔

ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان عالمی حدت سے متاثرہونے والے سر فہرست دس ممالک میں شامل ہے۔ پچھلی دو دہائیوں کے دوران صرف ماحولیاتی اثرات کی وجہ سے پاکستان کاتین ارب اسی کروڑ ڈالر کے قریب مالی نقصان ہوا اور دس ہزار کے قریب جانیں اس المیے کی نذر ہوگئیں ۔آب وہوا میں تبدیلی اور ماحولیاتی تحفظ کی سرگرمیوں کو مزید فروغ دینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ہم دریائی پانی کے لیےزیادہ انحصار ہمالیہ اور قراقرم کے سلسلے کے گلیشیٔرز پر کرتے ہیں مگر بڑھتی ہوئی عالمی حدت ان گلیشیرز پر شدید منفی اثرات مرتب کر رہی ہے ۔ نہ صرف یہ کہ گلیشیرزتیزی سے پگھل رہے ہیں بلکہ ہر سال برف کی مقدار میں بھی کمی آرہی ہے ۔ ماحولیاتی حدت کی وجہ سے گلیشیٔرزتیزی سے پگھلنے اور پھٹنے کے واقعات سے سیلاب اور تباہی آتی ہے۔ سوال مگر یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے اب تک اس تباہی کے تدارک کے لیے کیا کیا؟ ہماری تیاریاں اور بندوبست کہاں ہے؟

کیا ہم بارش سے پہلے اپنے پرنالے ،پائپ ، نالیاں ، گٹر، جوہڑ، ندیاں ، جھیلیں اور ڈیم چیک کرتے ہیں ؟ کیا پاکستان میں ایسا کوئی ادارہ موجود ہے جو ملک بھرکی آبی گزر گاہوں کا ڈیٹا جمع کرتا ہو؟ جس نے آج تک لوگوں کو آبی گزر گاہوں پر مکان ، ڈیرے اور باڑے بنانے سے روکا ہو یا دریاؤں اور نہروں کے کناروں پر فصلیںاُگانے پر پابندی لگائی ہو یا جس نے حکومت او رپرائیویٹ سیکٹر کو پانی کا بہاؤ روکنے سے منع کیا ہو؟ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں سیلاب کے آغازسے اگلے دو ہفتے تک متاثرہ علاقوں میں حکومتی انتظامی مشینری کہیں متحرک نظر ہی نہیں آئی اور نہ ہی اقتدار کی چھیناجھپٹی میں مبتلا حکومتی اور اپوزیشن لیڈرکہیں دکھائی دیے ۔ صرف پاک فوج کے جوان اپنی قیادت کی نگرانی میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں سرگرم عمل ہوئے اور انہوں نے امدادی کارروائیوں اور بحالی کے کاموں کا آغاز کیا۔

ہم نے کالا باغ ڈیم اور دوسرے مطلوبہ ڈیمز کی تعمیر بھی سیاست کی نذر کر دی ۔سیلاب سے ہونے والی تباہی مہنگائی کے علاوہ غذائی عدم تحفظ اور غربت میں کئی گنا اضافے کا باعث بن رہی ہےاور ماہرین یہ اندیشہ ظاہر کررہے ہیں کہ یہ تباہی انسانی المیے کو جنم دے سکتی ہے لیکن حکومت عوام کو ریلیف دینے کے زبانی کلامی اعلانات کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر رہی ، ملک بھر سے فصلوں کی تبا ہی اور گوداموں میں موجود اجناس کو نقصان پہنچنے کی خبریں مسلسل آرہی ہیں۔یہ وقت آزمائش کا ہے جس کو بڑھانے میں ہمارے حکمرانوں اور ان کی پالیسیوں کا پورا پورا کردار رہا ہے ،کیوں کہ پانی کے راستے میں اگرناجائز تعمیرات نہ ہوتیں اور ضرورت کے مطابق ڈیم بنائے جاتے تو اس طرح کے شدید نقصانات سے بچاجا سکتا تھا لیکن حکمرانوں کی ترجیحات کچھ اور ہی رہی ہیں۔ملک کی کچھ سیاسی ،مذہبی جماعتیں ،NPO(اخوت ،الخدمت ،سیلانی ، ایدھی ، ذریعہ معاش فاؤنڈیشن) وغیرہ جو متاثرین سیلاب کی مدد کر رہی ہیں، قابل ستائش ہے۔ اصولی طورپرتو اس وقت تمام قومی سیاسی قائدین کو باہم یکجا ہو کر اور ایک میز پر بیٹھ کر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی اور متاثرین سیلاب کے بے انتہا دکھوں کے ازالہ کی موثر اور ٹھوس حکمت عملی طے کرنی چاہئے جس کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مشینری کو باہم مل کر بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ اس طرح آج سیلاب کی تباہ کاریوں کا احساس دل میں رکھتے ہوئے ڈیمز کی تعمیر سمیت آئندہ کے تمام ضرور ی اقدامات کے حوالے سے بھی قومی سیاسی قیادت کو اتفاق رائے سے فیصلےکرنےچاہئیں۔ کیا محض اس اظہار خیال سے سیلاب زدگان کے زخموں پر پھاہے رکھے جاسکتے ہیں کہ ڈیمز تعمیر ہوئے ہوتے تو سیلاب سے اس قدر بڑے پیمانے پر تباہی نہ آتی؟

کوئی شک نہیں کہ بحالی کی کوششوں میںعالمی تعاون ناگریز ہے کیوں کہ اتنے بڑے پیمانے پرہونے والے نقصانات کا ازالہ آسان نہیں ہے۔ 9جنوری کوجنیوا میں پاکستان کے سیلاب زدگان کی اعانت اوربحالی کے لیے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس کے اشتراک سے عالمی ڈونرز کانفرنس منعقد ہوئی ہے اور اس میں اسلامک ڈویلپمنٹ بینک،درلڈبینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک،ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک ،یوایس ایڈ،فرانس ،یورپی یونین، جرمنی،چین، جاپان، برطانیہ وغیرہ کی جانب سے بحالی اور تعمیر نوکیلئے مجموعی طورپر تقریباً نوارب ڈالر سے زیادہ کے وعدے کیے گئے ہیںاور یہ امداد مختلف منصوبوں پر خرچ کی جائے گی، اس سے پاکستان کی معیشت کو یقیناً سہارا ملے گا۔ ا س بات کا بھی امکان ہے کہ آئی ایم ایف بھی شرائط میں کچھ نرمی دکھائے گا تاکہ اس کے مثبت اثرات عام آدمی تک پہنچ سکیں۔

تازہ ترین