• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خدا خدا کر کے آخرکار کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن ہو گیا۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ کراچی کے الیکشن میں تاخیرکی خاطر الیکشن کو چار بار ملتوی کیا گیا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایم کیوایم، حکومت سندھ اور کسی حدتک پی ٹی آئی بھی کراچی کے بلدیاتی الیکشن کیلئے تیار نہیں تھی اوریہ سب جماعتیں اپنی ناقص کارکردگی کے باعث الیکشن سے راہِ فرار اختیار کر رہی تھیں۔ اگر کوئی کراچی میں بلدیاتی انتخابات کیلئے میدان میں کھڑا تھا تو وہ حافظ نعیم الرحمٰن صاحب تھے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کراچی کے حقوق کی جنگ سندھ کے ایوانوں سے اسلام آباد میں سپریم کورٹ تک کامیابی سے لڑی۔ بار بار سندھ حکومت نے ایم کیو ایم کے اشارے پر کراچی میں انتخابی عمل کو ملتوی کیا لیکن حافظ نعیم الرحمٰن نے ہار نہ مانی، وہ آہنی دیوار کی طرح ڈٹے رہےاور بالآخر کامیاب ٹھہرے۔ کراچی میں آخرکا ر تمام رکاوٹوں کے باوجود بلدیاتی الیکشن کا ہوجانا حافظ نعیم الرحمٰن اور اہل کراچی کی بہت بڑی کامیابی ہے ،جو اسے ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بنتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔اب کراچی میں انتخابات ہو چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو بلدیاتی نتائج تسلیم کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا چاہئے۔ جماعت اسلامی کو مینڈیٹ ملنا کوئی اچنبھےکی بات نہیں ہے بلکہ پیپلزپارٹی کی حاصل کی ہوئی سیٹوں کو حیرت کی نگاہ سے دیکھا جارہاہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی اس سے قبل کراچی میں تین مرتبہ بطور سٹی مئیر اپنی عوامی خدمت کا لوہا منوا چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کبھی بھٹو دور میں کراچی سے بلدیاتی انتخاب میں اتنی نشستیں نہیں جیت سکی ،آخر آج زرداری کے دور میں اسے کیسے کراچی سے یہ مینڈیٹ مل گیا؟ المیہ یہ ہے کہ نتائج میں تاخیر درحقیقت جماعت اسلامی کا مینڈیٹ چرانے اور اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی سازش تھی جو کا میاب نہ ہوسکی۔ جماعت اسلامی نے فارم گیارہ کی بنیاد پر مزید آٹھ نشستوں کا معاملہ اٹھایا ہے۔ ان سیٹوں کے ساتھ اس کی کراچی میں اٹھانوے نشستیں ہو جائیں گی اور وہ کراچی کی سنگل لارجسٹ پارٹی بن جائے گی۔ الیکشن کمیشن اور سندھ حکومت کواس کے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہئے۔ کراچی کے عوام کواس وقت تعلیم اور صحت کی سہولیات میسر نہیں،مہنگائی، بجلی کی قیمت میں اضافہ اور دیگر مسائل کا بھی سامنا ہے ۔ سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ سے شہری پریشان ہیں۔اب لوگوں کی نظریں جماعت اسلامی پر ہیں۔ایک بار پھر کراچی کے عوام نے اس پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہارکیا ہے۔ نتائج کے مطابق مئیر شپ اب جماعت اسلامی کا حق بنتا ہے اور اسے ہی ملنی چاہئے۔ پیپلزپارٹی، ایم کیوایم اور تحریک انصاف کو اب اس حقیقت کو مان لینا چاہئے کہ کراچی کے عوام اب زبانی جمع خرچ نہیں چاہتے بلکہ وہ اس شہر کا مقدر بدلتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب کراچی شہر پاکستان میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ پورے ملک کا سیاسی شعور کراچی میں بستا تھا۔قومی سطح پر چلنے والی تحریکیں کراچی سے شروع ہوتی تھیں، پھر وہ وقت آیا کہ اس جیتے جاگتے شہر کو کسی کی نظر لگ گئی۔ یہ ہنستا بستا کامیابی سے آگے بڑھتا ہوا شہراندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا۔ خوف کے سائے بڑھتے گئے اور روشنیوں کا شہر مایوسی اور نا ا مید ی کا شکار ہو گیا۔ لاہور اور پنجاب میں انفراسٹرکچر بنتا چلا گیا اور کراچی عدم توجہی سے کچراکنڈی کی شکل اختیار کر گیا۔ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کو کھلے دل کے ساتھ حافظ نعیم الرحمٰن اور جماعت اسلامی کی کامیابی کو ماننا چاہئے اور اس کے ساتھ مل کر کراچی کے عوام کے مسائل کے حل کیلئے کام کرنا چاہئے۔ غیر جانبدار سروے کے مطابق کراچی میں حافظ نعیم مئیر بنتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

یہ بات اب سچ ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی کیونکہ پیپلزپارٹی نے بھی آخر کار اس حقیقت کو مان لیا ہے اور اس حوالے سے جماعت اسلامی سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ حافظ نعیم اس وقت جماعت ِاسلامی کراچی کے امیر ہیں، انھوں نے پاکستان بھر کے طلبہ کی قیادت بھی کی۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ بھی رہے۔ کراچی میں انھوں نے پچیس سال تک عوامی حقوق کی جدوجہد کی اور سرخرو ہوئے۔ امید ہےکہ حافظ نعیم کراچی میں کامیابیوں کا سفر وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے سابق مئیر نعمت اللہ خان نے چھوڑا تھا۔ سندھ حکومت کی آر اوزسے ملی بھگت بھی پوری قوم کے سامنے آچکی ہے۔کراچی کے عوام بھی شہر قائد کو پھلتا پھولتا اور ترقی کرتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن کراچی کے حقیقی قائد کے طور پر ابھرے ہیں اور وہ اس قابل ہیں کہ کراچی کے عوام کی محرومیاں دور کرسکیں۔ وہ ڈٹ کر کراچی کا حق لینا جانتے ہیں، وہ سندھ حکومت اور وفاق سے کراچی کا حق لینے میں ان شاءاللہ ضرور کامیاب ہو جائیں گے ۔

تازہ ترین