• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

قارئین کرام!28 جنوری 2023 کا ’’آئین نو‘‘ بعنوان’’ بنگلہ دیش اورپاکستان، ٹوٹے ہوئے تارے؟‘‘ میں عشروں کے صحافتی سفر سے تاریخ دانی کی راہ پر آئے جناب الطاف حسن قریشی کی سقوط ڈھاکہ پر 1500 صفحات کی ضخیم تصنیف ’’مشرقی پاکستان، ٹوٹا ہوا تارہ‘‘پر خاکسار کے تجزیے و تبصرے کا تمہیدی کالم تھا۔ اس کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ ہماری یہ حساس تاریخ روایتی تبصرے سے آگے 51سال بعد پھر موجودہ ملکی سیاسی داخلی اور قومی معاشی بحران کے تناظر میں تجزیے کا تقاضا کر رہی ہے۔ سنجیدہ سیاسی مبصر بھی پاکستان کے جاری بحران کوسقوطِ پاکستان کے بعد دوسرا بڑا تشویشناک بحران قرار دے رہے ہیں، جس میں پاکستان کا داخلی سیاسی استحکام چیلنج بن گیا اور کنگال ہوئی ریاست کی مالی خود مختاری خطرات میں گھر گئی ہے۔ ’’مشرقی پاکستان ٹوٹا ہوا تارہ‘‘ہماری تاریخ کے آمرانہ اور سیاسی حکومتی ادوارکے مکمل کھلواڑ برابر حکومتی وسیاسی فیصلہ سازی اور اس کے پے در پے نکلے وہ نتائج جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی (1971) پر منتج ہوئے کی معلومات کا ذخیرہ ہے۔ اس طرح الطاف قریشی صاحب کی مرتب کی گئی یہ مفصل تاریخ، جو الیکشن 1970 کے بعد اور ان کے انعقاد سے پہلے پُرآشوب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے پس منظر، پیش منظر اور ان کے نکلے ملک شکنی کے نتیجے کی المناک تاریخ ہے۔ یہ درست ہے کہ اس تاریخ کے دورانیے میں پاکستان کی مجموعی قومی سیاست شدت سے نظریاتی ہونے کے نا م پر رائٹ لیفٹ کی صورت خطرناک حد تک تقسیم ہوگئی تھی لیکن بنگالی بھائیوں کی مشتعل ، شدت سے نظریاتی ہوئی سیاست سے کہیںزیادہ احساس محرومی اور مغربی پاکستان کی بالادستی کی بہت حد تک سچائی، جو دونوں صوبوں میں اقتدار و انتظامی امور میں غیر مساوی (بلکہ بمطابق) شرکت کےبرعکس ہونے کے شدید احساس سے پیدا ہوئی تھی۔ پھرستم یہ ہوا کہ پہلی مرتبہ مشرقی پاکستان کے اقتدار میں بذریعہ الیکشن واضح غلبے کی راہ سیاسی مزاحمت اور گٹھ جوڑ سے بند کردی گئی جبکہ خود 24 سالہ تاریخ میں سازشوں سے بھرے پہلے آئین بیزار عشرے میں مغربی پاکستان میں سمٹی مقتدر قوت نے جو خلاف ضابطہ قومی اسمبلی توڑنے کے فیصلے کی توثیق اور نفاذ مارشل لا سے ثابت ہوا، مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے وزرائے اعظم کو ریاستی ڈھانچے میں ’’شو بوائے‘‘ سے زیادہ اہمیت نہ دی اور بیمار رویے، سیاسی زبان و کلام سے ان کی تذلیل کی جاتی رہی۔ وہ انتہا کے سازشی ماحول میں ہی اپنے تئیں آنے والوں سے بہتر حکومت چلانے کی کوششیں ہی کرتےجلد جلد فارغ کردیئے گئے۔

مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان 11 سو میل کا جغرافیائی فاصلہ بنگالی بھائیوں کے احساس محرومی، بداعتمادی، اشتعال اور نفرت میں کیسے تبدیل ہوا؟آل انڈیامسلم لیگ کی جائے پیدائش، قرار داد پاکستان پیش کرنے اور تحریک میں پیش پیش رہنے والے مشرقی پاکستان کی قومی نظریاتی سوچ کیسے خطرناک حد تک صوبائی ہوگئی؟ ان سوالوں کا مفصل اور مکمل قابل یقین جواب ’’مشرقی پاکستان، ٹوٹا ہوا تارہ‘‘ کے 73 ضمنی موضوعات پر مبنی واقعات کی روایتی رپورٹنگ سے آگے الطاف صاحب کے کئے گئےSITUATIONAL ANALYSIS، سیاسی تجزیوں، پبلک ڈس کورس ( عوامی بیانیوں) اور منقسم سیاسی رویوں کی رپورٹنگ (جو کمال صحافتی مہارت سے ہی ممکن ہے) اور انٹرویوز کی شکل میں جناب الطاف حسن قریشی کی سقوط ڈھاکہ کی سب سے مفصل و محفوظ بن گئی، اس بیش بہا تاریخ میں ملتا ہے۔

بیش بہا اسلئے کہ اسکا مطالعہ اور اس کے ٹھوس حقائق پر مبنی حوالے، ریاست کے بنیادی ذمے دار اسٹیک ہولڈرز جن میں حکومت سیاسی جماعتیں (خصوصاً مقتدر اور اپوزیشن) پارلیمان، عدلیہ، بیورکریسی، میڈیا اور سب سے بڑھ کرسول سوسائٹی کی آنکھیں کھول دینے والے، ایک حد تک کھل جائیں اور ان کی اہمیت سمجھ آ جائے تو ہمارے بیمار رویوں میں تبدیلی اور مطلوب کی تشکیل کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔ اس سے ہم اس قومی سوچ و عمل کی طرف آئیں گے جو ہمیں غیر جمہوری اور غیر آئینی مقتدرین، بیڈ گورننس، بیمار سیاسی جماعتوں، برائلر پارلیمان، موروثی حکمرانی، مشکوک انتخابات، کرپشن کلچر، مختلف النواع مافیاز، بدترین ریاستی مالی نظم سے نجات کیلئے ارتقاء کی راہ پر ڈالے گا۔

یہ درست ہے کہ الطاف قریشی صاحب، 70 کے عشرے میں انتہا پر پہنچی پرآشوب نظریاتی تقسیم میں رائٹ کیمپ کے ایک بڑے آئی کون تھے، ان کی اس حیثیت میں لیفٹ کیمپ کے کچھ یار دوستوں نے ان کی مختلف صحافتی اصناف میں ان کے واقعاتی تجزیات کی رپورٹنگ میں اپنے تاثرات پر مبنی اسلوب پکڑ کر اسے غیر حقیقت پسندی سے تعبیر کرکے اسے ٹھٹھے کا سامان بنانے کی کوشش کی لیکن ان کی زیر نظر تصنیف کا پیشہ ورانہ جائزہ لیا جائے تو اس صنف کو چھوڑ کر اپنی تمام اصناف کو الطاف صاحب نے مکمل ماہرانہ و پیشہ ورانہ انداز میں رپورٹ کیا اور تجزیہ کیا۔ باقی تو تمام میڈیا اسکالرز اس رائے پر متفق ہیں کہ بڑے سے بڑے پائے کا صحافی کسی بھی صنف صحافت پر قلم اٹھائے گا تو اس کا کسی نہ کسی فیصد میں ’’فطری تعصب‘‘ ہونا بذات خود ابلاغی سائنس کی پریکٹس کا خاصہ ہے اور یہ یونیورسل ہے۔ اس کا تعلق کسی مخصوص ملک، سیاسی کیمپ یا شخصیت سے نہیں ہوتا۔ اس تاریخ کے مطالعے سے مکمل واضح ہوتا ہے کہ باقی تمام اصناف کی تیاری میں قریشی صاحب مکمل پروفیشنل انداز اختیار کئے رہے۔ انہوں نے اپنے سے مخالف سیاسی نظریے کے سیاست دانوں، کارکنوں اور ووٹروں سے زیادہ رابطے کئے۔

رہا میرا سوال کہ مشرقی پاکستان واقعی ٹوٹا ہوا تارہ ہے؟ یا بنگلہ دیش اور پاکستان دونوں ہی اپنی حماقتوں، نفاق اور خود غرضانہ سوچ و عمل سے متحدہ پاکستان کے ٹوٹے ہوئے ایسے تارے ہیں؟جو مہ کامل بننے کی صلاحیت سے کوسوں دور ہیں، البتہ بنگلہ دیش، متحدہ پاکستان پر مغربی پاکستان کے غلبے اور ناانصافیوں سے انتہائی المناک حادثے کے بعد الگ ہو کر آج 51 سال بعد فقط آئینی نام کے ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ سے تو بہت آگے نکل گیا اور ہماری تو کنگال حالت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی تشویشناک جکڑ میں آئے پاکستان کے مقابل بنگلہ دیش مہ کامل ہی ہے۔ ہاں، ہم نے سقوط ڈھاکہ سے ایک سبق حاصل کرکے جو متفقہ آئین بنایا تھا اور جس طرح ایٹمی طاقت بھی بنے، اس سے یہ امید جاگی تھی کہ بنگلہ دیش خوشحال اور مستحکم تو بن سکتا ہے موجود پاکستان، متحد سے بچ کر بھی مہ کامل بننے کی صلاحیت کا حامل ہے۔ یہ امید ہماری واضح طور پر ظہور پذیر جیو اکنامک پوزیشن اور نئے جیوپولیٹکل اسٹیٹس سے بھی بڑھی تھی لیکن اب تو اسٹیٹس کو کی طاقت کے پہ در پے وار سے ہم 9 ماہ میں ہی جتنے بےبس اور زخمی ہوگئے ہیں، اللہ کرے اتنی بحالی ہو جائے کہ مکمل کنگالی کے بعد روٹی کے لالوں سے صورتحال مزید گھمبیر نہ ہو اور ہم کچھوے کی رفتار سے ہی گزرے دو تین عشروں کی طرف لوٹ سکیں تو یہ بھی مقام شکر ہوگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین