• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شاکی، شوال اورسپن وام جانے پہنچانے نام ہیں کیونکہ گزشتہ کچھ سالوںسے جاری انتہا پسندی کی لہر اور اس کے نتیجے میں جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان میں ہونے والے فوجی آپریشن کے پس ِ منظر میںان ناموں کی بازگشت میڈیا میں سنائی دیتی رہی۔تاہم امن بحال ہونے اور تعمیر و ترقی کی سرگرمیوں شروع ہونے کی وجہ سے یہ دور افتادہ مقامات تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔
حالیہ دنوں آئی ایس پی آر کی طرف سے ایک فوجی ہیلی کاپٹر میں ان مقامات کے دورے کا اہتمام کیا گیا ۔ جنوبی وزیرستا ن میں شاکی کے دورے کے دوران دیکھنے میں آیاکہ اس تک رسائی کے لئے ایک سڑک تعمیر کی جاچکی ہے ۔ اس کے ذریعے کبھی انتہائی دشوار گزار سمجھے جانے والے اس علاقے تک پہنچنا نسبتاً آسان ہوگیا ہے ۔ یہاں کے اسکول اچھی تعلیم دے رہے ہیں، مارکیٹوں میں دکانداروں اور گاہکوں کی مصروفیات دکھائی دیتی ہیں۔ شمالی وزیرستان کی شوال وادی البتہ ابھی تک یہاں کے مقامی افراد، جوانتہا پسندوں کے خاتمے کے لئے کئے جانے والے آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہوگئے تھے ، کی واپسی کی منتظر ہے ۔ یہاں بھی سڑکوں، اسکولوں اور مراکز ِ صحت کی تعمیر اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کو حتمی شکل دی جارہی ہے ۔ شمالی وزیرستان کے گرم میدانوں میں واقع سپن وام کے بازار کم وبیش اپنی معمول کی سرگرمی کی طرف لوٹ چکے ہیں۔ یہاں بھی تعمیرو ترقی کے درجنوں منصوبے مکمل کئے جاچکے ہیں، اورقبائلی بھائی اپنے دیہات میں ایسی مزید اسکیمیں، اسکول،اسپتال، گیس اور بجلی کی فراہمی چاہتے ہیں۔
شاکی میں کرنل عامر اور لیفٹیننٹ کرنل عمران، جن کا تعلق پاک فوج کی نویں ڈویژن سے ہے ، کے پاس جنوبی وزیرستان میں مکمل ہونے والے یا زیرِ تکمیل تعمیر و ترقی کے ان منصوبوں کے بارے میں کہنے کے لئے بہت کچھ ہے ۔ ان منصوبوں کو وفاقی حکومت اور عطیات فراہم کرنے والے غیر ملکی اداروں کی معاونت حاصل ہے ۔ اس علاقے میں تین سو پینتیس کلومیٹر تک پھیلی سڑکیں ہیں، جن کی کوالٹی ان فوجی افسران کے مطابق اسلام آباد کی سڑکوں سے بھی بہتر ہے ، تین آرمی پبلک اسکول، جہاں پاکستان کے دیگر شہری علاقوں کی درسگاہوں کے مقابلے کی تعلیم دی جارہی ہے ،وانا اور سپن کائی رغزئی میں دوکیڈٹ کالج ، جہاں قبائلی افراد کے بچے بہترین تعلیم حاصل کرتے ہیں، نیز ووکیشنل اورٹیکنکل ایجوکیشن کے مراکز میں قبائلی افراد ہنر اور مہارتیں سیکھ کر معقول روزی کمانے کے قابل ہوتے ہیں۔ یہاں پہلے سے موجود سرکاری اسکولوں اور مساجد کوبھی آباد کیا جاچکا ہے ۔ ان فوجی افسران کا کہنا ہے کہ مخصوص مقاصد کے لئے تعمیر کی گئی مارکیٹیں، پینے کا صاف پانی مہیا کرنے والی اسکیمیں، چھوٹے ڈیم، بچوں کے گیارہ پارک اور کھیل کود کے لئےا سٹیڈیم ہر تحصیل کے لئے طے کردہ منصوبے کا حصہ ہیں۔ بجلی کی کمی کی وجہ سے کچھ منصوبوں میں شمسی بجلی استعمال کی جارہی ہے ۔متحدہ عر ب امارات کی طرف سے فراہم کردہ فنڈسے سو بستروں کا’’ شیخا فاطمہ بن مبارک اسپتال‘‘، جس میں بہترین ڈائلسز کی سہولت ہوگی، تکمیل کے آخری مراحل میں ہے ۔ یوایس ایڈ سے تعمیر کردہ گومل زم ڈیم مکمل ہوچکا ہے ۔ یہ 17.4 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے علاوہ چھوٹے رقبوں کو سیراب کرنے کے لئے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش رکھتا ہے ۔
جنوبی وزیرستان سے عارضی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد اوران کی گھر واپسی کے لئے کئے جانے والے انتظامات سے بھی میڈیا کو آگاہ کیا گیا۔ غیر آباد ہوجانے والے گائوں میں زندگی واپس لوٹ رہی ہے ، اور مختلف مقامات پر سکولوں اور کیڈٹ کالجوں کے طلبہ اور فوجی جوان واپس آنے والوں کا استقبال خوراک اور پھولوں سے کررہے ہیں۔ محسود قبیلے کے جو 71,000 خاندان یہاںسے ہجرت کر گئے تھے، اُن کی بحالی کا عمل بھی جاری ہے ۔ تاہم یہ دیکھا جانا باقی ہے کہ شہروں میں آباد ہوجانے والے قبائلیوں میں سے کتنے اپنے گھروں کو واپس لوٹتے ہیں، خاص طو رپر اُ س صورت میں جب اُن کے بچے اچھےا سکولوں میں داخل ہوچکے ہیں۔
سپن وام دیگر مقامات سے مختلف ہے کیونکہ یہاں کا موسم بہت سخت ہے ۔ جب جون 2014 میں آپریشن ضرب ِ عضب شروع ہوا تو اس کی آبادی اپنے گھروں میں ہی ٹھہری تھی۔ فوج کو بھی حکم تھا کہ اسے چھوڑ دیا جائے، چنانچہ اسے زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ سپن وام میں دہشت گردی کی آخری کارروائی 2011 ء میں دیکھنے میں آئی تھی جب ایک خود کش حملہ آور نے ایک فوجی دفتر کے سامنے خود کو اُڑا لیا تھا۔ بریگیڈئیر شاز الحق جنجوعہ ، جو تین مرتبہ شمالی وزیرستان میں فرائض سرانجام دے چکے ہیں، نے بتایا کہ سپن وام، شیوا اور میر علی میں صورت ِ حال کتنی تبدیل ہوچکی ہے ۔ یہاں فوجی دستوں کومکمل کنٹرول حاصل ہے ، اور اب وہ ضرورت کے وقت رات کو بھی کارروائی کر سکتے ہیں۔ دراز قامت بریگیڈئیر صاحب سپن وام کے بازار میںاپنے فوجی جوانوں میں نمایاں طور پر دکھائی دے رہے تھے ۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس علاقے کے قبائلی بھائیوں کی سوچ بدل چکی ہے ۔ اُنھوں نے اپنی لڑکیوں کو پشاور اور دیگر مقامات کے تعلیمی اداروں میں داخل کرایا اوررضاکارانہ طور پرتین ہزار کے قریب ہتھیار جمع کرادئیے ۔ اب یہاں انتہا پسندانہ ذہنیت فعال دکھائی نہیں دیتی، قبائلی اپنے ساتھ ہتھیار نہیں رکھتے ۔ اس سے پہلے انہیں مقامی اور غیر ملکی انتہا پسندوں نے یرغمال بنایا ہوا تھا، لیکن اب وہ فوج کے ساتھ تعاون کررہے ہیں، اور ان کا مطالبہ ہے یہاں مزید تعمیر و ترقی کے منصوبے شروع کئے جائیں۔ بریگیڈئیر صاحب نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سپن وام سے افغانستان کے صوبے خوست تک زیارت کے راستے مویشیوں کی ہونے والی اسمگلنگ کو بارڈر بند کر کے روک دیا گیا ہے ، اور عوامی فلاح کے کئی ایک منصوبے ، جن میں ایک مویشیوں کااسپتال بھی شامل ہے ، شروع کئے گئے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان کے خوشالی گائوں میں گیس موجودہے اور بعض مقامات پر کرومائیٹ بھی پائی جاتی ہے ۔چنانچہ کان کنی کی صنعت شروع ہونے سے مقامی افراد کو روز گار بھی ملے گا اور خوشحالی بھی آئے گی۔ بریگیڈئیر شازالحق نے بتایا کہ میرعلی سے لے کر میران شاہ تک سڑک تعمیر کی جاچکی ہے ،نیز میرعلی میںتین مارکیٹیں تعمیر کی جاچکی ہیں، جبکہ مزید چار مارکیٹیں زیر ِ تعمیر ہیں۔ میر علی کی پرانی مارکیٹ میں دھماکہ خیز مواد تیار اورذخیرہ کیا جاتا تھا، چنانچہ فوج نے اُن دکانوں اور گھروںپرخطرے کے سرخ جھنڈے لگا دئیے ہیں۔
شوال ایک بالکل مختلف جگہ ہے ۔ یہ انتہا پسندوں کی آماجگاہ کے طور پر بدنام تھی لیکن یہ بہت دلکش وادی ہے ۔ سطح سمندر سے 9,400 فٹ بلند مکی گڑھ سیکورٹی پوسٹ پردرجہ حرارت موسم ِ گرما میں بھی17 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر نہ تھا، جبکہ پہاڑوں اور جنگلوں میں گھری ہوئی وادی شوال کی خوشگوار ہوا چہرے سے ٹکراتی بہت بھلی محسوس ہوتی تھی۔ تاہم شوال کو انتہا پسندوں سے آزادکرانے کے لئے جن فوجی دستوں نے آپریشن کا آغاز کیا، اُنھوں نے منجمد کردینے والے شدید موسم سرما کی صعوبت کا سامنا کیا تھا۔ بریگیڈیئر شبیر نیرجو، جنھوں نے انتہا پسندوں کے خلاف آخری اور فیصلہ کن معرکے کی قیادت کی تھی، بہت فخر سے اُن لمحوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’اس سال چوبیس فروری کو آرمی چیف ، جنرل راحیل شریف کا حکم تھا کہ شوال واد ی کو شروع سے لے کر افغانستان کی سرحد تک انتہا پسندوں سے مکمل طور پر پاک کردیا جائے۔ چنانچہ ہمارے دستوں نے برف سے ڈھکی ہوئی پہاڑی چوٹیوں پر پیش قدمی شروع کردی۔ ان کی بلندی سات ہزار فٹ سے لے کر دس ہزار فٹ تک تھی۔ہر طرف برف ہی برف تھی اور ٹمپریچر منفی بارہ کے قریب تھا۔‘‘ اس انتہا ئی سرد موسم میں آپریشن کی وجہ یہ تھی کہ انتہا پسند اس کی توقع نہیں کررہے تھے ۔ بریگیڈیئر شبیر کا کہنا تھا۔ ’’ہم نے اُس وقت اُن پر وار کیا جب وہ اس کی توقع نہیں کررہے تھے ۔ فوج اس سرد موسم میں لڑنے کے لئے انتہا پسندوں کی نسبت بہتر بطور پر تیار تھی۔ ہماری سپلائی لائن محفوظ تھی اور ہمیں کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ بہتر تیاری کی وجہ سے ہمارے کسی فوجی کو برف نے زخمی نہ کیا۔‘‘

.
تازہ ترین