• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم شہباز شریف نے ننکانہ صاحب کے واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے جس میں توہین مذہب کے ملزم کو مشتعل ہجوم نے تھانے پر دھاوا بول کر آگ لگا دی تھی ۔ ایس ایچ او عملے سمیت جان بچانے کیلئے بھاگ گئے۔ اس سے پہلے پشاور کی مسجدمیں دہشت گردی کی ایک ہولناک واردات ہوچکی ہے۔ہماری پچھتر سالہ تاریخ اس بات کی دلیل پیش کرتی ہے کہ پاکستان میں ریاست کے بعض ستونوں نے مذہبی انتہا پسندی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اوریوں آج ماضی کی طرح ننکانہ صاحب کے واقعہ کی تفتیش کی فائل بھی ردی کی ٹوکری کی نذرہو جائے گی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انتہاپسندی ہمارے ملک میں یکدم وجود میں نہیں آئی یا ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے مرحلہ وار اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا؟ دانشوروں کی رائے ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے شروع سے ہی مسائل کے سیاسی حل کی بجائے مذہب کو ایک ڈھال کی صورت استعمال کرنا شروع کر دیا تاکہ علاقائی خودمختاری کا مطالبہ خودبخود دم توڑ جائے ۔ 1949میں قرارداد مقاصد کے منظور ہوتے ہی مذہب کو ایک ڈھال کی صورت استعمال کیا جانے لگا جس کی وجہ سے پاکستان کی شناخت ایک جدید قومی اور جمہوری ریاست کی بجائے ایک انتہاپسند ملک کے طور پر ابھرنا شروع ہوئی ۔اس قرارداد کے منظور ہونے کے بعد قائد اعظم کے مقررکردہ وزیر قانون جوگندرا ناتھ منڈل ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ یوں قائد اعظم کے 11اگست کو بیان کردہ پاکستان کے تشخص کو نقصان پہنچایا گیا۔ کچھ ہی عرصے بعد دولتانہ اور نواب ممدوٹ میںسیاسی تصادم کی وجہ سے پنجاب میں خون ریزی کو ہوا دی گئی اور 1953ء میں ان پر تشدد واقعات کی وجہ سے پنجاب میں مارشل لالگانا پڑا۔ پاکستان بننے کے بعد ہی لبرل اور بائیں بازو کے بیانیہ کو نظریۂ پاکستان کی بھینٹ چڑھا دیا گیااور اس مکتب فکر کے دانشوروں اور سیاسی ورکروں کوشاہی قلعہ اور دوسرے عقوبت خانوں میں تشدد کے ذریعے دفن کر دیا گیا۔یوں ریاستی اداروں نے شروع سے ہی ہر قسم کے متبادل بیانیے کو عوام تک پہنچنے سے روک دیا۔یحییٰ خان نے بھی بنگالی قوم پرستی کا حل نکالنے کی بجائے جنرل شیر علی کے ذریعے مذہبی منافرت پھیلانے کیلئے نظریہ پاکستان کی نئی تشریح کر دی۔ ضیا الحق کو بھی سیاسی حمایت درکار تھی یوںاس نے بھی تنگ نظری اور قدامت پرستی کی پالیسی اپنا کر شدت پسندی کو سماج میں ایسی جڑیں فراہم کیں جو مزید گہری ہوتی چلی گئیں۔ضیا الحق نے امریکہ کی مدد سے افغانستان میں اسلامی جہاد کا آغاز کیا ۔ریاستی دانشوروں نے یہ دلیل پیش کی کہ پاکستان کی’’کمر‘‘جغرافیائی طور پر بہت کمزور ہے جسے دشمن بڑی آسانی سے دو حصوں میںتقسیم کر سکتا ہے۔یوں ریاست نے ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘کی اصطلاح کو استعمال کرکے افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ قرار دے دیااور ہمارا سماج دیکھتے ہی دیکھتے ریاستی پالیسیوں کے زیر اثرشدت پسندی کی آماجگاہ بن گیا۔ اگر شروع سے ہی ہمارے حکمران قومی سیاست کا ایک وسیع تصور اپنا لیتے اور پاکستا ن کو خودانحصاری پر مبنی قومی ترقی کے راستے پر ڈال دیتے تو آج نو آبادیاتی ،جاگیردارانہ اورسیکورٹی اسٹیٹ کے ڈھانچے کا خاتمہ ممکن ہو سکتا تھا۔ محکوم قوموں کو ان کے سیاسی حقوق مل جاتے اور یوں سب قومیں مل کر ایک سیکولر اور مضبوط پاکستان کو ارتقا پذیر کرتیں۔

آج ہندوستان اور پاکستان میں سیا سی زوال پذیری کی اصل وجہ فرقہ واریت ، بنیاد پرستی اور تعصب ہے جسے حکمران طبقے اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے استعمال کر رہے ہیںجب کہ یورپ میں ریاست اپنےعوام کے ساتھ فلاحی ریاست بنانے کے عوامل کو اجاگر کرکے ترقی اور کامرانی کی منازل کو چھو رہی ہے۔یورپی ریاستیں مذہبی معاملات میں غیر جانبدار رہ کر معاشر ے کے تمام لوگوں کو اپنے اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ آج پاکستانی قوم کو فرقہ واریت، بنیاد پرستی اور جنونیت کے خلاف متحد کرکے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرنا ہوگاتاکہ سماج کی تخلیقی صلاحیتیں ابھر سکیں ورنہ ہمارا معاشرہ مسلسل ایک بنجر معاشرے کی طرف سرایت کر رہا ہے جہاں قرون وسطیٰ کی یادوں کے علاہ اور کچھ نہیں رکھا۔ آج 21ویں صدی میں ریاستی اداروں کوسنجیدگی سے یہ سوچنا ہوگا کہ اپنی سیاسی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے پورے سماج کو گھپ اندھیرے میں جھونک دینا کہاں کی عقل مندی ہے؟یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کو مقتدر ریاستی ادارے شروع سے ہی نظر انداز کر رہے ہیں کہ کوئی بھی ریاست زیادہ دیر تک نظریے کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی ۔ روس کی مثال ہمارے سامنے ہے جو اس قدر طویل انقلابی جدوجہد کے نتیجے میں حاصل کیا گیا تھا لیکن آخر کار نظریے کا بوجھ برداشت نہ کر سکا۔دہشت گردی اور فرقہ واریت آج ہمارے پاکستانی معاشرے کا سب سے اہم مسئلہ ہے لیکن یہاں سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ یہ فرقہ واریت اور دہشت گردی بنگلہ دیش، ملائیشیا اور انڈونیشیا میں کیوں نہیں ہوتی؟آج ضرورت اس بات کی ہے کہ عقائد کو سیاسی ایجنڈے کے طور پر استعمال نہ کیا جائے کیونکہ پاکستان مزید عسکری لشکروں کوپروان چڑھانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

تازہ ترین