• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عوام بھوک سے بلک رہے ہیں، خودکشیاں کر رہے ہیں ،تن وروح کا رشتہ بحال رکھنا محال ہو رہا ہے اور حکمرانوں کو الیکشن سے بھاگنے کی تراکیب سوچنے سے فرصت نہیں ۔ بڑے بڑے تجربہ کار سیاستدان لوگوں کا سامنا کرنے سے گریزاں ہیں ۔ مشکلات میں گھرے ہوئے عوام کے لئے مزید مشکلات کی خبریں سنائی جا رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ مارچ اور اپریل میں حالات کی تنگی آسمانوں کو چھوئے گی، زمین پر قہر ٹوٹے گا ۔ خدا جانے اس دوران کیا سے کیا ہو جائے حالات اچھے نہیں ہیں ۔

میرے ایک سگریٹ نوش دوست کہتے ہیں کہ میں 24 گھنٹوں میں سگریٹ کے دو پیکٹ استعمال کرتا ہوں ،اس حساب سے میں روزانہ ایک ہزار روپے کے سگریٹ پیتا ہوں۔ روزانہ کو ماہانہ میں ڈھالا جائے تو تیس ہزار بنتے ہیں۔ جب تیس ہزار صرف سگریٹ میں سلگ جائیں تو باقی اشیاکا کیا کیا جائے۔ زندگی کہاں جلائی جائے ۔ بارکھان سے خبریں آتی ہیں کوئی ظالم وہاں آزاد انسانوں کو قیدی بناتا ہے ،صدا بلند کریں تو موت کی وادی میں دھکیل دیتاہے ۔ 75برس بیت گئے کیا یہ ملک اس لئے بنایا گیا تھا کہ لوگوں کی زندگیوں میں زہر بھر دیا جائے ؟ چشمِ فلک کیا کیا مناظر نہیں دیکھ رہی ۔ رہ گئی سیاست تو سیاست کے میدان میں عمران خان کا مقابلہ کرنا کسی کے بس میں نہیں رہا۔ اس کی آواز کانوں سے ہوتی ہوئی دلوں تک پہنچ چکی ہے۔ وہ بولتا ہے تو پورا پاکستان بولتا ہے۔ بھوک کی زنجیروں میں جکڑے لوگوں کی امیدوں اور آسوں کا مرکز وہی ہے ۔ چند روز پیشتر ہم درویش کے پاس تھے ۔ درویش کئی موضوعات پر باتیں کرتا رہا مگر جب سیاست پر بات کرتا تو بڑے جلال سے کہتا ’’ تم بڑے نا شکرے لوگ ہو، تمہاری بددیانت قوم میں خدا نے عمران خان جیسا بندہ بھیجا۔ اس کیلئے راستے چھوڑ دو ورنہ تمہیں تہس نہس کر دیا جائے گا ۔ اس کے راستے کی رکاوٹ بننے والے نہیں رہیں گے‘‘۔

درویش کی باتیں بڑی عجیب ہیں پتا نہیں وہ ہمیں کہاں کہاں کی سیر کراتا ہے ۔ اچانک سوچ میں پڑ جاتا ہے پھر سر اٹھاتا ہے اور انگریزی بولنا شروع کر دیتا ہے جیسے وہ انگریزی کا بہت بڑا فلاسفر ہو۔ جب وہ فارسی بولتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے سعدی شیرازی سے روزانہ ملتا ہو ۔ قرآن پاک کے حوالے دیتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے قرآن اس کو ازبر ہو۔ کبھی وہ ہند کی مثالیں دیتا ہے تو کبھی یورپ کی ۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس نے سارے علاقے چھان مارے ہوں ۔ اردو بولتا ہے تو لکھنؤ والوں کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے ۔ اور جب پنجابی میں گرجتا ہے تو مولا جٹ لگتا ہے ۔ درویش کی گفتگو سحر طاری کر دیتی ہے ۔ میں ابھی درویش سے مل کر آیا ہوں اس کی باتیں بہت یاد آتی ہیں ۔ الجھی ہوئی ڈوروں کو سلجھا رہا تھا کہ اچانک مجھے راشد محمود لنگڑیال کی شاعری یاد آگئی ۔ راشد محمود لنگڑیال اس وقت وفاقی سیکرٹری ہیں ۔ظاہر ہے وہ کئی منازل طے کرکے یہاں تک پہنچے ہوں گے کیوں کہ اب تو ان کے بالوں میں چاندی اتر چکی ہے ۔ ایک زمانہ تھا وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے تھے شاعری سے دل لگی انہیں اس وقت بھی تھی۔ وہ پنجابی اور اردو کے اس وقت بھی اچھے شاعر تھے ۔ ہم ایک ساتھ پڑھنے والوں کو ادب سے دلچسپی تھی اب تو لوگ ادب سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ برسوں بعد ثاقب سلطان کے گھر راشد محمود لنگڑیال اور ظہور احمد کی شاعری سننے کو ملی۔ ظہور احمد کی شاعری پر بات کسی اور دن کروں گا آج آپ کی خدمت میں راشد محمود لنگڑیال کی شاعری پیش کر رہا ہوں :

دیوی ہے کہ مورت ہے جو بادل میں چھپی ہے

اس دل میں دھنک جس کی فقط غازہ کشی ہے

آفاق میں پنہاں تھی کبھی رازِ دروں تھی

بازار میں بکھری یہ کہانی جو پڑی ہے

چلمن میں چھپانے سے بھلا خاک چھپے گی

دیوانی سلاسل سے کہاں ڈر کے رکی ہے

صورت ہی کہاں کوئی نکلتی ہے مفر کی

جس شہر بھی جاتے ہیں وہاں تیری گلی ہے

دنیا کے بکھیڑوں میں کہاں قوس قزح ہے

ہم باز بہادر ہیں نہ وہ روپ متی ہے

اس درد کے موسم سے اماں کیسے ملے گی

جب سوز کے سانچے میں مری ذات ڈھلی ہے

ایک غزل میں آپ نے یہ رنگ دیکھا ہے تو راشد محمود لنگڑیال کی دوسری غزل میں آپ کو اور ہی رنگ نظر آئے گا :

جسے ڈھونڈتے رہے رات دن رخِ فتنہ گر کے ادھر ادھر

وہی جاں کا روگ ملا ہمیں دل مختصر کے ادھر ادھر

کبھی شیخ جی کو جھکا گئی، کبھی بزم رنداں اڑا گئی

وہ نگاہِ ناز ہے آج بھی جو کشیدہ سر کے ادھر ادھر

نا وہ رود راوی رواں رہا نہ وہ سراغ راہ گزر ملا

کہ دہکتا دریا اتر گیا اسی چشمِ تر کے ادھر ادھر

یہی کنج رنج نصیب ہے، کہ وہ کاخ و کو تو ہوا ہوئے

ہوئے منتشر سبھی خواب بھی مرے بام و در کے ادھر ادھر

سوئے چرخ نیلگوں تھی کبھی وہ جو دھوم اپنی اڑان کی

سو غبار اب ہے وہ عہد بھی ترے بال و پر کے ادھر ادھر

آپ سب جانتے ہیں کہ نکاح کے وقت ہر کسی کو تین مرتبہ ہاں کہنا پڑتی ہے اور طلاق کے وقت بھی ۔ اسی لئے اب میں راشد محمود لنگڑیال کی تیسری غزل پیش کر رہا ہوں ۔ آپ ہاں بھی کہہ سکتے ہیںاور طلاق بھی دے سکتے ہیں ۔ تیسری غزل پیش خدمت ہے:

نت نئی آس سر شام لگا رکھتے ہیں

شہر بیداد میں اک سیج سجا رکھتے ہیں

راکھ بستی میں اگر آپ جو آویں بھی کبھی

لوگ سوچیں گے کہ ہم بالِ ہما رکھتے ہیں

آتشِ دید سے دل روز جھلس جاتا ہے

شوق ایسا کہ ہتھیلی پہ دیا رکھتے ہیں

روز کھلتا ہے نیا راز جفا جوئی کا

اور ہم ہیں کہ ترا پاسِ حیا رکھتے ہیں

قافلہ بان ہوئے دشت ِخطا میں اوجھل

زعم باطل کہ وہی بانگ درا رکھتے ہیں

عزِ آبا بھی گئی آپ کے کوچے میں صنم

گو اسی شہر میں ہم اسپ و قبا رکھتے ہیں

تازہ ترین