سورئہ نصر کا نزول اور رحلت کا اشارہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت سے 80دن پہلے سورئہ نصر نازل ہوئی۔ ترجمہ:’’جب اللہ کی مدد آگئی اور مکّہ فتح ہوچکا اور آپؐ نے دیکھ لیا کہ لوگ غول کے غول اللہ کے دین میں داخل ہورہے ہیں، تو اپنے پروردگار کی تسبیح پڑھیں اور استغفار کریں۔‘‘ مقاتل کی روایت میں ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی، تو آپؐ نے صحابہ کرامؓ کے سامنے اس کی تلاوت فرمائی۔ سب اسے سُن کر خوش ہوئے کہ اس میں فتحِ مکّہ کی خوش خبری ہے، لیکن حضرت عباسؓ رونے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رونے کا سبب دریافت کیا، تو حضرت عباسؓ نے عرض کیا کہ اس میں تو آپؐ کی وفات کی خبر مضمر ہے۔ آنحضرتؐ نے اس کی تصدیق فرمائی۔ صحیح بخاری میں یہ حدیث حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے۔ (معارف القرآن، 837/8، صحیح بخاری، 4970،4969)۔
مدینہ منورہ سے مکّہ مکرمہ تک کا مقدّس سفر
حجۃ الوداع: نبی آخرالزماں ﷺ کو جس عظیم مقصد کے لیے دُنیا میں مبعوث فرمایا گیا تھا،وہ کام یابی کی منازل طے کرچکا تھا۔ بدی کی طاغوتی قوتیں شکست کھا چکی تھیں۔ شیطان ذلیل و رُسوا ہوچکا تھا۔ حق و انصاف پر مبنی ایک مضبوط مسلم معاشرے کی تعمیر عمل میں آچکی تھی اور اب 23سالہ روز و شب کی انتہائی کٹھن، محنت و مشقّت کا ثمر، سرسبز و شاداب لہلہاتا گل و گل زار اپنے جاں نثاروں کے سپرد کر کے رَبِّ کعبہ کے حضور پیش ہونے کا وقت آچکا تھا۔ آپؐ نے حج کے لیے روانگی کا اعلان فرمایا۔ شمعِ حق کے پروانے جوق دَر جوق سفر حج کے لیے جمع ہونا شروع ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک لاکھ چوبیس ہزار جاں نثارانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم، قافلۂ عظیم کی صورت میں26 ذی قعدہ، بروز منگل بعد نمازِ ظہر تمام ازواجِ مطہرات کے ساتھ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں تلبیہ کا ورد کرتا ہوا مکّے کی جانب روانہ ہوئے۔
سفید احرام میں ملبوس، حدِ نظر انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا کہ جس کی صدائے لبیک سے دشت و جبل، بیابان و صحرا گونج رہے تھے۔ زمین و آسمان نے ایسا رُوح پرور منظر پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔8 دن کے سفر کے بعد یہ قافلۂ سرفروشاں وادئ ذی طویٰ پہنچا۔ رات قیام کے بعد دُوسرے روز اتوار 4 ذی الحجہ، بعد نمازِ فجر غسل فرما کر جانبِ کعبہ روانہ ہوئے۔ بروز جمعرات 8 ذی الحجہ، بعد نماز ِفجر منیٰ تشریف لے آئے۔9ذی الحجہ کی صبح سُورج کے طلوع ہونے کے بعد عرفات کی جانب کوچ فرمایا۔ وہاں پہنچ کر وادئ نمرہ میں ایک خیمے میں قیام فرمایا۔ جب سُورج ذرا ڈھل گیا، تو ناقہ قصواء (حضور اکرم ؐ کی اونٹنی) پر رونق افروز ہوکر میدانِ عرفات میں تشریف لائے۔ نظریں اُٹھائیں تو سامنے اِنسانوں کا عظیم سمندر تھا، جس کی موجوں میں سکوت کا عالم تھا۔ سب ہمہ تن گوش تھے۔
پھر اچانک نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایمان افروز آواز نے فضا میں قوسِ قزح کے رنگ بکھیر دیئے۔ ہر شے معطّر ہوگئی۔ ’’لوگو! میری بات سُن لو، کیوں کہ میں نہیں جانتا، شاید اس سال کے بعد اس مقام پر تم سے کبھی نہ مل سکوں۔ تمہارا خون اور تمہارا مال، ایک دُوسرے پرحرام ہے۔ ہر مسلمان دُوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ لوگو! میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا، تو اس کے بعد ہرگز گم راہ نہ ہوگے اور وہ ہے اللہ کی کتاب۔ لوگو! یاد رکھو، میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی اُمّت نہیں، لہٰذا اپنے رَبّ کی عبادت کرنا۔
پانچ وقت نماز پڑھنا، رمضان کے روزے رکھنا، خوشی خوشی اپنے مال کی زکوٰۃ دینا، حج کرنا، حکم رانوں کی اطاعت کرنا، ایسا کروگے، تو جنّت میں داخل ہوجائو گے۔ ہاں، عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، کیوں کہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے اور اللہ کے کلام کے ذریعے حلال کیا ہے۔ تمہارا عورتوں پر اور عورتوں کا تم پر حق ہے۔ لوگو! سُن لو اُمورِ جاہلیت کی ہر چیز آج میرے دونوں قدموں کے نیچے ہے۔ عربی کو عجمی پر عجمی کو عربی پر، گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔
اگر فضیلت ہے تو صرف تقویٰ کی بِناء پر۔‘‘ پھر آپؐ نے فرمایا ’’لوگو! تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے، تو تم لوگ کیا کہوگے؟‘‘ صحابہؓ نے کہا ’’ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ نے تبلیغ کردی، پیغام پہنچادیا اور خیرخواہی کا حق ادا کردیا۔‘‘ یہ سُن کر آپؐ نے انگشتِ شہادت کو آسمان کی طرف اُٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا۔ ’’اے اللہ! گواہ رہ‘‘اسی دوران یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی۔ ترجمہ:’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیتِ دین پسند کرلیا۔‘‘ (یہاں خطبے کے چند اقتباس بیان کیے گئے ہیں، مکمل خطبہ سیرت کی کتب میں دست یاب ہے)۔
رفیق ِاعلیٰ کی جانب سفر کا آغاز
23 برسوں کی صبر آزما جہدِ مسلسل اور ہنگامہ خیز جدوجہد کے نتیجے میں آفتابِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی پُرنور کرنوں نے کائنات کے ذرّے ذرّے کو پیغامِ الٰہی سے روشن و منوّر کردیا تھا۔ تین چوتھائی دُنیا پر اللہ کی وحدانیت کا پرچم سربُلند کردیا گیا تھا۔ یہود و نصاریٰ کا غرور و تکبّر خاک میں مل چکا تھا۔ قیصر و کسریٰ کے ایوان زمیں بوس ہو چکے تھے۔
مجوسیت کا شیرازہ بکھر رہا تھا۔ جزائرِ عرب کے بُت کدے پاش پاش ہوچکے تھے۔ بڑے بڑے قاہر و جابر حکم رانوں کا نام صفحۂ ہستی سے مٹ چکا تھا۔ سرزمین عرب میں اَمن و امان کا دَور دورہ تھا۔ نہ امیرکو غریب پر فوقیت تھی نہ گورے کو کالے پر۔ عزت و توقیر اور احترام کا صرف ایک پیمانہ تھا ’’تقویٰ و پرہیز گاری۔‘‘ جو کام ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر تاریخ کے مختلف ادوار میں کرتے رہے، یعنی اللہ کی وحدانیت، عقیدئہ توحید کی دعوت و تبلیغ اور دین کا پیغام لوگوں تک پہنچانا، وہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے 23برس کے مختصر سے عرصے میں مکمل فرمایا۔
تکمیلِ شریعت اور تزکیۂ نفس کا عظیم الشان کام درجۂ کمال تک پہنچ چکا تھا اور اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبات و احساسات اور گفتار سے یہ پیغام واضح ہونے لگا تھا کہ اب رُوح ِ قُدسی جہانِ فانی کو الوداع کہہ کر رفیقِ اعلیٰ سے ملنے کے لیے بے قرار ہے۔ رَبِّ کعبہ نے عرفات کے میدان میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلان کروادیا تھا کہ ’’آج کے دِن میں نے تمہارے دین کو مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمتیں پُوری کردیں۔‘‘ (سورۃ المائدہ آیت 3)۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اب اپنا بیش تر وقت تسبیح و تحلیل اور استغفار کے ورد میں صرف فرماتے تھے۔
آپﷺ نے بیس دِن اعتکاف میں گزارے۔ ماہِ صفر کا چاند طلوع ہوتے ہی آپﷺ نے سفرِ آخرت کی تیاری شروع فرمادی تھی۔ مسجدِ نبوی میں تشریف لا کر خطبہ ارشاد فرمایا:’’اے لوگو! میں تمہارا اَمیر کارواں ہوں، میں تم سے پہلے حوض (حوضِ کوثر) پر جا رہا ہوں۔ مجھے زمین کے تمام خزانوں کی چابیاں دی گئی ہیں۔ مجھے بخدااِس بات کا خوف نہیں ہے کہ تم میرے بعد شرک کروگے، لیکن اندیشہ اس کا ہے کہ دُنیا طلبی میں مبتلا ہو کر آپس میں رشک و حسد نہ کرنے لگو، اور آخرت سے غافل نہ ہوجائو۔ (صحیح بخاری3596، 1344)۔
رحلت سے پہلے آخری عسکری مہم: دُنیا کی سب سے بڑی حکومت رومن ایمپائر کو اپنی قوت پر بڑا گھمنڈ تھا۔ ان کی اشتعال انگیزیوں کی بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر دو مرتبہ لشکرکشی فرمائی تھی۔ ایک مرتبہ قاصد کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے موتہ کے مقام پر، جہاں تین نام وَر سپہ سالار زید بن حارثہؓ، جعفر بن ابی طالبؓ اور عبداللہ بن رواحہؓ شہید ہوئے۔ دُوسری مرتبہ تبوک کے مقام پر ،جہاں فوج کی کمان آپﷺ کے ہاتھوں میں تھی۔ قیصرِ رُوم یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ عرب کے صحرائوں اور کالے سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان رہنے والی اِس جرّی قوم کے بادشاہ بہ نفسِ نفیس سیکڑوں میل دُور کی مسافت طے کرکے میدانِ جنگ میں خیمہ زَن ہیں۔ اُس نے سُن رکھا تھا کہ یہ لوگ جنّت کی دائمی زندگی کی آرزو میں مُسکراتے ہوئے موت کو گلے لگالیتے ہیں۔
اللہ نے اس کے دِل میں خوف پیدا کردیا اور وہ میدانِ جنگ سے بھاگ نکلا۔ اللہ کے نبیﷺ نے میدانِ جنگ میں بیس دِن قیام فرمایا۔ تیس دِن آنے جانے کے سفر میں لگے۔ یوں آپﷺ پچاس دِن بعد مدینہ منوّرہ واپس پہنچے۔ (رحیق المختوم588 )۔اب ایک بار پھر رُومیوں اور نصرانیوں نے شام و فلسطین کی سرحدوں پر فوجیں جمع کرنی شروع کردی تھیں۔ چناں چہ بیماری سے ایک دِن پہلے آپﷺ نے حضرت اُسامہ بن زیدؓ کو امیرِ لشکر بنا کر رُخصت کرتے ہوئے فرمایا، ’’اے اُسامہ! اللہ کا نام لے کر جلد اَز جلد اپنے باپ کے مقامِ شہادت تک پہنچو اور بلقاء و رُوم کی سرزمین کو روندتے ہوئے واپس آئو۔ اِن شاء اللہ تمہیں فتح نصیب ہوگی۔‘‘ اُسامہ اپنا لشکر لے کر مدینے سے تین میل دُور مقامِ جرف پر خیمہ زَن تھے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کی خبر آگئی۔ چناں چہ وہ واپس مدینہ آگئے۔ (سیرت النبی478/2 )۔
مرضِ وصال کا آغاز: رحلت سے تیرہ روز قبل29صفر11ہجری بروز جمعرات نصف شب جنّت البقیع تشریف لے گئے، واپسی پر سر میں شدید درد اور بخار ہوگیا۔ اسی حالت میں آپﷺ نے گیارہ دِن تک نماز پڑھائی۔ مرض کی کُل مدّت تیرہ روز تھی۔ آپﷺ کی حیات میں17نمازیں سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے پڑھائیں۔ (تاریخِ طبری،524)۔ رحلت کے آخری ہفتے آپﷺ کا قیام حضرت میمونہؓ کے حجرے میں تھا۔ طبیعت روز بہ روز بوجھل ہوتی جارہی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کو مدِنظر رکھتے ہوئے تمام اَزواجِ مطہراتؓ نے اجازت دے دی تھی کہ جہاں طبیعت چاہے قیام فرمائیں۔ (صحیح بخاری 4450)۔ چناں چہ آپﷺ نے حیاتِ مبارکہ کا آخری ہفتہ اَمّاں عائشہؓ کے حجرے میں گزارا۔ (صحیح بخاری 198)۔
رفاقتِ الٰہی کی طلب: اَمّاں عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ ’’وفات والے دِن آپﷺ پر غشی طاری ہوئی، کچھ ہوش آنے پر آپﷺ نے گھر کی چھت کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا، ’’اللّٰھمّ فی الرفیق الاعلیٰ‘‘ تو میں سمجھ گئی کہ اب آپﷺ کو رفاقتِ الٰہی مطلوب ہے۔ (صحیح بخاری، 4437)۔ وفات سے ذرا پہلے مسواک کی، اُس وقت آپﷺ سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کی گود میں ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ (صحیح بخاری، 4451)۔ اسی حالت میں رُوحِ پاک رفیق اعلیٰ کی جانب پرواز کرگئی۔ (اِنّالِلّٰہ وانّا الیہ راجعُون)۔ یہ سانحہ عظیم 12؍ربیع الاول 11 ہجری بروز پیر پیش آیا۔ اس وقت آپﷺ کی عُمر مبارک63سال4دِن تھی۔ (سیرت رحمۃ للعالمین، 347)۔
’’مدینہ منوّرہ..... دورِخلافتِ راشدہ میں‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد سیّدنا ابوبکر صدیقؓ پہلے خلیفہ مقرر ہوئے۔ آپ نے سب سے پہلے لشکر اُسامہؓ کو شام روانہ کیا۔ جلد ہی یہ لشکر فتح و کام یابی کے ساتھ واپس ہوا۔ اس کے ساتھ ہی حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ایک لشکر مانعین زکوٰۃ، دُوسرا مُرتدین اور تیسرا جھوٹی نبوّت کے دعوے داروں کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔
ان لشکروں کی نقل و حرکت سے مدینے میں سکون و اطمینان کی فضا قائم ہوئی اور مدینۃ النبی اس قابل ہوا کہ یہاں سے چلنے والی پُرامن ہوائوں نے پورے جزائرِ عرب بلکہ شام و عراق تک کے علاقے کو اَمن و سلامتی کا گہوارہ بنادیا۔22جمادی الآخر سن13ہجری بمطابق634عیسوی میں سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے وفات پائی۔ جن کے بعد حضرت عُمر بن خطابؓ خلیفہ مقرر ہوئے۔ آپؓ کے دَورِ خلافت میں خوب فتوحات ہوئیں۔
فاروق اعظمؓ کے دَورِ حکومت میں بائیس لاکھ اکیاون ہزار تیس مربع میل رقبے پر اسلامی پرچم لہرایا گیا۔ رُوم و فارس کی عظیم الشّان سلطنتوں سمیت خراسان و مکران تک کا علاقہ مدینہ منوّرہ کی اسلامی ریاست کے زیرِنگیں آگیا۔ مدینہ منورہ میں مال و دولت کی فراوانی کا یہ عالم تھا کہ زکوٰۃ و خیرات لینے والا کوئی نہ تھا۔ آپ کے دَور میں مسجدِ نبویؐ کی توسیع و تعمیر بھی ہوئی۔
مساجد میں رات کو روشنی کا انتظام، باجماعت نماز تراویح کا سلسلہ، شہروں میں عدالتوں کا قیام، ججوں کا تقرر، ڈاک خانوں کے ذریعے پیغام رسانی کا جدید نظام، سرکاری دفاتر کا قیام، قیدیوں کے لیے جیل خانہ جات، پولیس کا محکمہ، سنِ ہجری کی ابتدا، آب پاشی کا نظام، نئے شہروں کی آبادکاری، تجارت کے فروغ کے لیے اقدامات اور مسافر خانوں کا قیام سیّدنا عمر فاروقؓ کے اہم اور نمایاں اقدامات ہیں۔ آپؓ کے دَورِ خلافت میں مدینہ منوّرہ میں خوش حالی، ترقّی، امن و امان اور عدل و انصاف بامِ عروج کو پہنچ چکا تھا۔26 ذی الحجہ23 ہجری کی صبح نمازِ فجر میں ایک مجوسی ابولولو نے آپؓ پر قاتلانہ حملہ کیا۔ یکم محرم24ہجری کوشہادت پائی۔ (جاری ہے)