• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریاستِ مدینہ کے حُکم ران، فاتح کے رُوپ میں

کفّارِ مکّہ کی جانب سے معاہدۂ حدیبیہ کی مسلسل خلاف ورزیوں اور بدعہدیوں کے باعث اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم نے غزوۂ مکّہ کی تیاری کا حکم دے دیا۔10 رمضان المبارک،8 ہجری کی صبح سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلّم کی قیادت میں دس ہزار مجاہدینِ اسلام مدینہ منوّرہ سے رُخصت ہوئے۔ منگل 17 رمضان کی صبح یہ عظیم لشکر وادی ذی طویٰ پہنچا، جہاں آپؐ نے لشکر کی ترتیب و تقسیم فرمائی۔کفّارِ مکّہ، مجاہدین کی اِتنی بڑی تعداد دیکھ کر دہشت اور خوف کے مارے اپنے گھروں میں قید ہوگئے۔ حضور ﷺ کے حکم کے مطابق، اسلامی فوج تین جانب سے مکّہ مکرّمہ میں داخل ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُونٹنی، قصواء پر رونق افروز تھے اور پیچھے حضرت اسامہؓ سوار تھے۔ 

آپؐ مکّہ کے بالائی علاقے، کداء کی جانب سے شہر میں داخل ہوئے۔(صحیح بخاری، 4289، 4291، 4290)۔ یہ وہی مقدّس شہر ہے کہ جس کے لوگوں نے اللہ کے رسولؐ کو رات کی تاریکی میں ہجرت پر مجبور کر دیا تھا اور آج وہ اسی شہرِ جاناں کے ایک روشن دن حُکم راں کی حیثیت سے جلوہ افروز ہو رہے ہیں۔ حرمِ کعبہ میں داخل ہوتے ہی آپؐ نے سب سے پہلے حجرِ اَسود کو بوسہ دیا، بیتُ اللہ کا طواف فرمایا اور وہاں موجود تین سو ساٹھ بُتوں کو اپنی کمان کے اشارے سے گرایا۔ 

اِس دَوران کعبے کے اطراف ہزاروں لوگ جمع ہو چُکے تھے، یہ سب شرمندہ چہروں کے ساتھ اپنی قسمتوں کا فیصلہ سُننے کے لیے بے تاب تھے۔ ان میں وہ ظالم و جابر سردارانِ مکّہ، امراء، رؤسا بھی شامل تھے، جن کے ہاتھ معصوم مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے۔ وہ سفّاک ہم سائے بھی تھے، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے راستوں میں کانٹے بچھاتے تھے۔ اُن میں وہ درندہ صفت بھی تھے، جو مسلمانوں کو اذیّتیں دیتے، اُن کے جسموں کو دہکتی آگ سے داغتے، گلے میں رسّا ڈال کر بازاروں میں کھینچتے۔ 

ایک ایک کے چہرے پر لکھی ان کے ظلم و جبر کی داستان سرکارؐ کی نگاہوں کے سامنے تھی، جس کے عوض موت کی سزا بھی اُن کے لیے کم تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبے کے دروازے سے مجمعے پر ایک طائرانہ نظر ڈالی، تو چشمِ مبارک سے نکلتی نُور کی شعائوں نے فضا میں قوسِ قزح کے رنگ بکھیر دیئے۔ ہزاروں کے مجمعے کو سانپ سُونگھ گیا۔اللہ کے محبوبؐ کی رُوح پرور آواز مکّے کے دَر و دیوار میں گونجی اور لوگوں کے دِلوں کی دھڑکنیں بے قابو ہوگئیں۔ اللہ کی حمد وثنا کے بعد آپؐ نے فرمایا’’اے مکّہ کے لوگو! کیا تم جانتے ہو کہ آج مَیں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟‘‘ 

اگرچہ کفّارِمکّہ ظالم اور بے رحم تھے، لیکن مزاجِ نبویؐ سے واقف تھے، تو پکار اُٹھے’’آپؐ شریف بھائی اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں۔‘‘ جواباً سرکارِ کائنات، رحمت للعالمینؐ کے متبسّم رُخِ انور سے پیار و محبّت، شفقت اور رحمت میں ڈُوبے لفظوں کے پُھولوں نے فضا کو معطّر کر دیا، فرمایا’’ مَیں تم سے وہی بات کرتا ہوں، جو حضرت یوسفؑ نے اپنے بھائیوں سے کی تھی،’’آج تم پر کوئی گرفت نہیں،جاؤ، تم سب آزاد ہو۔‘‘موت کے خوف سے لرزہ براندام کفّار کے لیے یہ اعلان نئی زندگی کی نوید تھی۔ (طبقات ابنِ سعد، 283/1 )۔آپؐ نے مکّے کے ایک قریشی نوجوان، حضرت عتابؓ بن اسید کو مکّے کا والی مقرّر فرمایا۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے مکّہ معظّمہ میں 19 دن قیام فرمایا اور اس عرصے میں قصر نماز ادا فرمائی۔(صحیح بخاری، 1080، 4298)۔

شہرِ مدینہ کی طرف واپسی کا سفر

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ شہر کو بُتوں سے پاک کرنے اور حرم شریف کے انتظامات وغیرہ میں مصروف تھے کہ اطلاع ملی کہ بنو ہوازن کے سردار، مالک بن عوف نے بنو ثقیف اور دیگر قبائل کے ساتھ مل کر جنگ جُوئوں کا ایک بڑا لشکر مکّے پر حملے کے لیے تیار کر لیا ہے۔ چناں چہ ،آپؐ دس ہزار انصار و مہاجرین اور دو ہزار نومسلم قریش کو لے کر 6 شوال، 8 ہجری کو مکّے سے تین دن کی مسافت پر وادیٔ حنین پہنچے۔ یہاں گھمسان کی جنگ ہوئی، جو غزوۂ حنین کے نام سے مشہور ہے۔ (سیرت ابنِ اسحاق، ص، 673)۔ 

کفّار کی فوج کا سپہ سالار، مالک بن عوف میدانِ جنگ سے بھاگ کر طائف کے ایک قلعے میں بند ہوگیا، توآپؐ مجاہدین کے ساتھ خود طائف تشریف لے گئے اور قلعے کا محاصرہ کر لیا، جو دو دن تک جاری رہا، اس دوران دونوں جانب سے شدید تیر اندازی کی جاتی رہی۔ ان دونوں غزوات سے فارغ ہو کر آپؐ نے عُمرہ ادا فرمایا۔ بعدازاں، مکّہ مکرّمہ اور اس کے قرب و جوار کے معاملات سے مطمئن ہو کر آپؐ نے مدینہ منوّرہ واپسی کا قصد فرمایا۔ 24ذی قعدہ، 8 ہجری کو آپؐ اپنے محبوب شہر مدینہ منوّرہ تشریف لے آئے۔ فتحِ مکّہ سمیت دیگر تمام معاملات کی تکمیل میں دو ماہ،16 دن صَرف ہوئے۔ اس عرصے میں حضرت ابو رہم غفاریؓ مدینے کے امیر کے فرائض انجام دیتے رہے۔ (تاریخ اُمّتِ مسلمہ جلد1 صفحہ 357)۔

یثرب سے مدینے تک کے سفر کا نواں سال

اہلِ مغازی 9 ہجری کو’’ عام الوفود‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں، لیکن وفود کے ذکر سے پہلے ہم آنحضرتؐ کی حیاتِ مبارکہ کی آخری جنگی مہم کا ذکر کریں گے، جوتاریخ میں غزوۂ تبوک کے نام سے مشہور ہے۔ تبوک شہر ،مدینہ منوّرہ اور دمشق کے درمیان مدینے سے 387 میل (623کلومیٹر) کی مسافت پر واقع ہے، جہاں قیصرِ روم کی حکومت تھی، جو رُوئے زمین پر دُنیا کی سب سے بڑی فوجی قوّت تھی۔ یہ وہی قیصرِ روم ہے، جس نے پہلے آنحضرتؐ کے سفیر حضرت حارثؓ بن عمیر کو شہید کرایا، پھر موتہ کے مقام پر گھمسان کی جنگ میں حضرت زیدؓ، حضرت جعفرؓ اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ شہید ہوئے۔ 

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کو اطلاع ملی کہ قیصرِ روم، ہرقل نے عربوں، نصرانیوں، اعرابیوں، بدوئوں اور رومیوں پر مشتمل ایک بڑی فوج تیار کی ہے اور وہ کسی بھی وقت مدینے کی جانب پیش قدمی کرنے والا ہے۔ اُس وقت مدینے میں شدید گرمی تھی اور شہری قحط سے دوچار تھے۔ کھجوروں کے پکنے کا موسم تھا، لیکن ان سب مشکلات کے باوجود حضورﷺ تین ہزار صحابہ کرامؓ کے لشکرِ عظیم کو لے کر تبوک کی جانب روانہ ہوگئے۔ 

پندرہ دن کی مسلسل مسافت کے بعد رجب،9 ہجری کو آپؐ تبوک پہنچے،تو قیصرِ روم کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ مسلمانوں کے بادشاہ بنفسِ نفیس خود ان کی سرحدوں تک پہنچ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اُس پر خوف طاری کر دیا اور وہ میدانِ جنگ سے فرار ہوگیا، جب کہ ُاس کے فوجی بھی تتّر بتّر ہوگئے۔ آنحضرتؐ نے تبوک میں20 دن قیام فرمایا۔ اس دوران قرب و جوار کے قبائل خدمتِ اقدسؐ میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہوتے رہے۔ پندرہ دن واپسی کے سفر میں لگے، یوں آپؐ50 دن بعد ماہِ رمضان میں مدینہ تشریف لے آئے۔ (تاریخِ اسلام، 225/1)۔

جزائرِ عرب کے گوشے گوشے سے وفود کی آمد

غزوۂ تبوک سے واپس آتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کے پاس عرب کے گوشے گوشے سے وفود کی آمد کا تانتا بندھ گیا۔ لوگ اللہ کے دین میں فوج دَر فوج داخل ہو رہے تھے، یہاں تک کہ وہ اسلامی لشکر، جو فتحِ مکّہ کے موقعے پر دس ہزار سپاہ پر مشتمل تھا، اُس کی تعداد چند ماہ بعد ہی غزوۂ تبوک کے موقعے پر تیس ہزار فوجیوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں تبدیل ہوگئی۔ 

پھر ہم حجۃ الوداع میں دیکھتے ہیں کہ ایک لاکھ، چوالیس ہزار اہلِ اسلام کا سیلاب اُمنڈ پڑا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے ساتھ اِس طرح لبّیک لبّیک پکارتا، تکبیر کہتا اور حمد و ثنا کے نغمے گنگناتا بڑھتا ہے کہ آفاق گونج اُٹھتے ہیں اور وادی، کوہسار نغمۂ توحید سے معمور ہو جاتے ہیں۔ اہلِ مغازی70 سے زیادہ وفود کا ذکر کرتے ہیں۔ (رحیق المختوم، 597)۔

حضرت معاذ بن جبلؓ سے الوداعی ملاقات

مدینہ طیّبہ کی ایک حَسین اور پُرنور صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کا گورنر بنا کر رُخصت کرتے ہوئے فرمایا’’اے معاذؓ! ہو سکتا ہے کہ تم سے دوبارہ ملاقات نہ ہو بلکہ غالباً واپسی پر تم میری اِس مسجد اور میری قبر کے پاس سے گزرو گے۔‘‘ حضرت معاذؓ یہ سُن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کی جُدائی کے خیال سے رونے لگے اور پھر ایسا ہی ہوا۔ حضرت معاذؓ جب واپس آئے، تو صحابہؓ نے دیکھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلُم کی قبرِ اَطہر پر کھڑے زار و قطار رو رہے ہیں۔ (تاریخ ابنِ کثیر، 146/5)۔

سونپا گیا کام تکمیل پا چکا

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم اپنے ذمّے سونپے گئے کام کی تکمیل فرما چُکے تھے۔ جبلِ نُور سے طلوع ہونے والی روشن کرنوں نے پورے جزیرۃ العرب کو منوّر کر دیا تھا۔ غارِ حرا سے فضائوں میں پھیلنے والی مسحور کُن خوش بُوئوں سے رُوئے زمین معطّر ہو چُکی تھی۔ مسجدِ نبویؐ کے صحن میں جنم لینے والی ایک کم زور سی ریاست آج دس لاکھ مربع میل سے زیادہ رقبے پرپھیل چُکی تھی۔یہ ریاست ایک طرف روم کی سرحدوں تک، تو دُوسری طرف عراق کے سبزہ زاروں سے عدن کے بیابانوں تک قائم ہو چُکی تھی کہ جہاں کے دشت و جبل، دریا و صحرا، ثمر و شجر اللہ اکبر کی رُوح پرور صدائوں سے گونج رہے ہیں۔ 

ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ جب مکّے کی ایک تاریک، سرد اور اُداس رات کے پہلے پہر خون کے پیاسوں کا محاصرہ توڑ کر اَن جان راہوں کے دو مسافر اپنوں سے چُھپتے چُھپاتے خاموشی سے دبے پائوں غیروں کی جانب چلے جا رہے تھے۔ کائنات کی ہر شے انگشت بدنداں ہے کہ یہ کیسی تعلیم ہے، یہ کیسا انقلاب ہے اور یہ کیسا کرشمہ ہے کہ صرف دس سال کے مختصر سے عرصے میں اللہ کا ایک برگزیدہ بندہ بنی نوعِ انسان کا نجات دہندہ بن کر آیا اور اپنے بلند و اعلیٰ اخلاق، پاکیزہ سیرت، اَوصافِ حمیدہ اور تعلیماتِ قرآنی کی بدولت حیاتِ انسانی میں ایک ایسا عظیم انقلاب برپا کر گیا کہ جس نے تاریخ کا دھارا ہی موڑ دیا۔ ایک ایسا انقلاب، جس نے سوچنے سمجھنے کے انداز بدل ڈالے۔ (جاری ہے)