• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری معیشت ایک عرصے سے مشکلات کاشکار چلی آرہی ہے قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ ہر نئے قرضے کے ساتھ قرض دینے والوں کی جانب سے نئی شرائط سامنے آجاتی ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں تاخیر کے بعد متبادل پلان ترتیب دینے اور طویل المیعاد پالیسیاں بنانا از حد ضروری ہوگیا ہے۔ ماہرین اقتصادیات کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرم سے ملکی معیشت کو عارضی سہارا تو مل سکتا ہے لیکن یہ پاکستان کو معاشی بدحالی سے نہیں نکال سکتا۔ اس حوالے سے ارجنٹائن، مصر اور ان ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں جنہوں نے ایک کے بعد ایک قرض پروگرام لیا مگر وہ قرضوں میں جکڑتے چلے گئے۔ حکومت نے اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے پلان بی پر بھی عملدرآمد شروع کیا ہے۔ دوست ممالک چین، سعودی عرب، قطر، یو اے ای سے نرم شرائط پر قرض حاصل کرنے کے لیے اہم میٹنگز ہو رہی ہیں جن کے جلد مثبت نتائج سامنے آنے کی امید ہے۔ قطر نے حکومتی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق پاکستان کوچین کے نجی بینک کی جانب سے 50 کروڑ ڈالر قرض کی دوسری قسط موصول ہوگئی ہے اس سے زرمبادلہ کے ذخائربہتر ہوں گے قبل ازیں 25 فروری کو چین کے ترقیاتی بینک کی جانب سے 70 کروڑ ڈالر موصول ہوئے تھے۔ مزید 30 کروڑ ڈالر ملنے کی توقع ہے۔ سٹیٹ بینک کے جاری کردہ ہفتہ واراعداد و شمار کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر 9.85ارب ڈالر ہوگئے ہیں۔ ڈالر بحران پر قابو پانے کے لئے بارٹر ٹریڈ کی منظوری ایک اور اہم قدم ہے۔ ڈالر نہ ہونے کے سبب امپورٹ میں ہونے والی رکاوٹ کو بارٹر ٹریڈ سے پورا کیا جاسکتا ہے۔ یہ اقدامات خوش آئند ہیں تاہم معیشت کو چلانے کے لئے خود ڈالرکمانے پر توجہ دینی ہوگی۔ ہم اپنی جتنی صلاحیتیں قرض کے حصول پر صرف کر رہے ہیں وہ اپنے وسائل کوبروئے کار لانے اور خود کفالت کی منصوبہ بندی پر خرچ کرکےسالانہ اربوں ڈالر حاصل کرسکتے ہیں۔

تازہ ترین