• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جگر کے کینسر یا سرطان کو دنیا میں موت کا چوتھا بڑا سبب قرار دیا جاتا ہے۔یہ انتہائی خطرناک اور تیزی سے بڑھنے والا مرض ہے۔ بڑی عُمر کے افراد میں اِس کی شرح بلند ہے، مگر بچّوں میں اِس کی شرح بہت ہی کم ہے۔

سرطان کے اسباب:جگر کا سرطان لاحق ہونے کی کئی وجوہ ہیں، جن میں سرِ فہرست کرونک یا دائمی ہیپاٹائٹس بی (Chronic Hepatitis-B)، دائمی ہیپا ٹائٹس سی انفیکشن، لیور سیروسس اور نان الکحل فیٹی لیور ڈیزیزز شامل ہیں۔ جگر کی موروثی بیماریاں مثلاً ولسن ڈیزیز اور Haemochromatosis یعنی جسم میں آئرن کی زیادتی بھی اس سرطان کی ایک اہم وجہ ہے، جب کہ دیگر رسک فیکٹرز میں تمباکو نوشی، شراب نوشی، ذیابطیس، موٹاپا، خوراک میں aflatoxinیعنی پھپھوندی کی آمیزش، اینا بولک اسٹیرائیڈ کا استعمال، فضائی آلودگی، تاب کاری اثرات، پانی میں آرسینک کی زیادتی، والدین یا بہن بھائیوں میں جگر کے سرطان کا موجود ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ 

یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ایچ بی وی انفیکشن جگر کا سرطان پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور جگر کے 90فی صد کینسرز میں ہیپاٹائٹس بی وائرس (HBV)کا ڈی این اے، انسانی ڈی این اے میں مدغم ہوکر سرطان کا سبب بنتا ہے۔ سائنسی تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایچ بی وی کے ڈی این اے کی تقسیم (Replication)اور سرطان میں گہرا تعلق ہے۔ جن مریضوں کو ایچ بی وی انفیکشن ہو اور اُن میں ڈی این اے کی تقسیم یعنی وائرل لوڈ (Viral Load) کم ہو،تو اُن مریضوں میں جگر کے سرطان کے امکانات کم ہوتے ہیں، جب کہ جن مریضوں میں ایچ بی وی انفیکشن موجود ہو اور وائرل لوڈ بھی زیادہ ہو، تو ایسے مریضوں میں جگر کے سرطان کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔

نیز، اگر وائرل لوڈ دس ہزار سے تجاوز کر جائے اور ایک عرصے تک جسم میں موجود رہے، تو جگر کے سرطان کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔دراصل قدرت نے ہمارے جسم میں ایک ایسا بہترین دفاعی نظام رکھا ہے، جو ہمیں سرطان سے محفوظ رکھتا ہے۔ جگر کے خلیات میں، جنھیں Hepato Cytesکہتے ہیں، Reticulonsنامی پروٹین پیدا ہوتی ہے، جو ہمیں سرطان سے بچاتی ہے۔ جب ہیپاٹائٹس بی وائرس جگر پر حملہ آور ہوتا ہے، تو وہ جگر کے خلیات میں موجود Reticulonsپروٹین کو بے اثر کردیتا ہے اور یوں سرطان کے آثار نمودار ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ 

ایک اندازے کے مطابق 87ملین افراد دائمی ہیپاٹائٹس بی کا شکار ہیں، جب کہ ہیپاٹائٹس بی سے متاثرہ ماں سے نوزائیدہ بچّوں کو ایچ بی وی انفیکشن منتقل ہوسکتا ہے یا دورانِ زچگی غیر شفّاف آلاتِ جرّاحی کی وجہ سے بھی بچّوں میں ہیپاٹائٹس بی وائرس منتقل ہوتا ہے اور پھر یہ بچّے عُمر بھر ہیپاٹائٹس بی وائرس کیریئر کے طور پر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

آثار و علامات: ابتدائی طور پر مریض کو کوئی خاص علامات محسوس نہیں ہوتیں، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ پیٹ میں درد، خاص طور پر اوپری حصّے کے دائیں طرف درد ہونے لگتا ہے، بھوک میں کمی، کم زوری، بخار، متلی، الٹیاں، بدہضمی، سینے میں جلن، اچانک پیٹ میں پانی بَھر جانا یعنی (Ascites)، وزن کا کم ہونا، خون کی کمی، یرقان اور پیٹ میں رسولی کا محسوس ہونا جیسی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔

تشخیص و علاج : جگر کے سرطان کی تشخیص کے لیے مریض کی ہسٹری بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف ٹیسٹس جیسے Alpha Feto-Protein، الٹرا ساؤنڈ، سی ٹی اسکین، ایم آر آئی کے ساتھ خون کے مختلف ٹیسٹ بھی کیے جاتے ہیں۔ سیرم الفافیٹو پروٹین کا لیول ہمارے خون میں 400mg/mlسے زیادہ ہو، تو جگر کا سرطان ہوسکتا ہے۔ الٹرا ساؤنڈ ایک مستند اور قابلِ بھروسا ٹیسٹ ہے، جس کی مدد سے 1.6cm سے 0.6cm تک کی جگر کی رسولی/ٹیومر کی نشان دہی ہوسکتی ہے، البتہ اس کے لیے سونولوجسٹ کا ماہر ہونا ضروری ہے۔

بائیو آپسی میں ایک سے تین فی صد جگر کے سرطان کے پھیلنے کا احتمال ہوتا ہے۔ خردبینی معائنے کی روشنی میں اگر ٹیومر میں بائل یعنی صفرا پایا جائے، تو اس کا مطلب جگر کے سرطان کی موجودگی ہوتی ہے، اس قسم کے سرطان کو Well Differentiated Hepato-Cellular Carcinoma- HCCکہتے ہیں۔ جگر کا سرطان خون کے ذریعے جسم کے دیگر حصّوں تک بھی پھیل سکتا ہے، جس میں پھیپھڑے اور چھاتی شامل ہیں۔ اِس سرطان کے علاج میں ٹیومر/ رسولی کی درجہ بندی کو اوّلیت حاصل ہےاور اسے مدّ ِنظر رکھتے ہوئے ہی علاج کیا جاتا ہے۔ اسٹیج- 10 یعنی بالکل ابتدائی اسٹیج میں مریض اور جگر کی صحت اچھی ہوتی ہے۔ ایک رسولی ہو، جس کا سائز دو سینٹی میٹر سے کم ہو، تو ممکنہ طور پر جگر کی پیوند کاری قابلِ اعتماد علاج ہے۔

اسٹیج اے، ابتدائی مرحلہ کہلاتا ہے، جس میں رسولی کسی بھی سائز کی ہو یا تین رسولیاں تین سینٹی میٹر سے کم ہوں اور جگر کے افعال بھی بہتر ہوں، تو رسولی سرجری کے ذریعے جگر سے نکال دی جاتی ہے۔ اس طریقۂ علاج کو Surgical Resectionکا نام دیا گیا ہے۔ اگر جگر کے افعال درست نہ ہوں، مثلاً پورٹل بلڈ پریشر میں اضافہ ہوجائے یا بلوربن بڑھ جائے،مگر اس کے ساتھ کوئی بڑی بیماری نہ ہو، تو جگر کی پیوند کاری ایک بہترین علاج ہے۔اسٹیج بی کوانٹر میڈیٹ کہتے ہیں۔ 

اِس مرحلے میں رسولیاں تین سینٹی میٹر سے کم ہوں یا تین سے زائد ہوں، تو ٹیومر کی بلڈ سپلائی ادویہ کی مدد سے روک دی جاتی ہے، جو سرطان کے خاتمے کا سبب بنتی ہے۔ اس طریقۂ علاج کو Chemo- Embolizationکہتے ہیں۔ اسٹیج سی یعنی ایڈوانس اسٹیج میں سرطان پھیلنا شروع ہوجاتا ہے، جو ایک تکلیف دہ صُورتِ حال ہوتی ہے۔ اس اسٹیج پر فرنٹ لائن تھراپی کے طور پر کچھ ادویہ تجویز کی جاتی ہیں۔اسٹیج ڈی ٹرمینل کو اینڈ اسٹیج بھی کہہ سکتے ہیں۔ 

اِس مرحلے میں جگر بالکل ناکارہ ہوجاتا ہے اور مریض کو انتہائی نگہہ داشت کے یونٹ میں داخل کرکے اُس کی زندگی بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عام طور پر اس موقعے پر ڈاکٹرز لواحقین کو دعاؤں کا کہہ دیتے ہیں۔ یاد رکھیں! جگر کے سرطان سے بچاؤ اُسی وقت ممکن ہے، جب اس کی بروقت تشخیص ہوجائے اور وقت پر علاج بھی شروع ہو۔

اس سرطان کا علاج بہرحال ایک مشکل ٹاسک ہے اور اس کی بروقت تشخیص کے لیے Surveillance Programe شروع کرنا چاہیے، جس کے ذریعے اسے بالکل ابتدائی مرحلے پر شناخت کیا جاسکتا ہے۔ اس مرحلے پر علاج آسان ہونے کے ساتھ خرچ بھی کم آتا ہے۔ ایسے افراد جو دائمی ہیپاٹائٹس بی یا سی انفیکشن میں مبتلا ہوں یا سیروسس آف لیور کا شکار ہوں، اُنھیں ہر 6ماہ میں اپنا طبّی معاینہ، سیرم الفافیٹو پروٹین اور الٹرا ساؤنڈ کروانا چاہیے۔ اگر رسولی ایک سینٹی میٹر سے کم ہو، تو ہر تین ماہ بعد الٹراساؤنڈ ہونا چاہیے تاکہ رسولی کے سائز بڑھنے کا بروقت پتا چل جائے۔

بچاؤ اور احتیاطی تدابیر: اِس ضمن میں سب سے اہم امر عوام النّاس میں بڑے پیمانے پر آگاہی مہم ہے کہ بروقت تشخیص ہی اس سرطان سے بچاؤ کا بہترین ذریعہ ہے۔ نیز، پہلی فرصت میں اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی ہیپاٹائٹس بی- سی کی اسکریننگ کروائیں۔ اگر ضرورت ہو، تو حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل کریں۔ یہاں یہ بتانا بھی مناسب ہوگا کہ سِول اسپتال، حیدرآباد کے شعبہ گیسٹرو لوجی کی او پی ڈی نمبر 26میں ہیپاٹائٹس کی اسکریننگ اور علاج کی سہولتیں بالکل مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ 

جگر کے سرطان سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے طرزِ حیات میں بھی تبدیلی لائیں۔ اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزاریں، جنسی بے راہ روی سے بچیں، تمباکو اور شراب نوشی سے مکمل اجتناب برتیں، موٹاپا اور ذیابطیس کنٹرول میں رکھیں، حجامت اور شیونگ کے دَوران نیا بلیڈ استعمال کریں، آلودہ سرنجز سے بچیں، بچّوں کے ختنے کے لیے جراثیم سے پاک آلاتِ جرّاحی استعمال کریں، انتقالِ خون سے پہلے اسکریننگ لازمی ہے۔ ورزش کو اپنے معمول کا حصّہ بنائیں، متوازن اور صحت بخش خوراک استعمال کریں، آلودہ پانی ہرگز نہ پئیں، تازہ پھل، سبزیاں، سفید گوشت، مچھلی، کافی کو اپنی خوراک کا حصّہ بنائیں۔ 

عوام کو جگر کے سرطان سے متعلق مکمل معلومات کی فراہمی کے لیے اسکولز اور کالجز کی سطح پر عوامی مہم شروع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ نیز، پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو بھی جگر کے سرطان سے بچاؤ سے متعلق عوام میں شعور اور بیداری پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ قومی تعلیمی نصاب میں اس حوالے سے مضامین شامل کیے جائیں۔ مُلک کے بڑے شہروں میں کم از کم ایک کینسر اسپتال ضرور تعمیر کیا جائے تاکہ مریضوں کو علاج معالجے کے ضمن میں طویل انتظار سے نجات مل سکے، اُن کا بروقت علاج شروع ہو۔

علاوہ ازیں، ماہرینِ سرطان کی کمی کے پیشِ نظر مختلف اداروں میں مزید ڈاکٹرز بھرتی کیے جائیں اور انھیں جگر کے سرطان سے بچاؤ اور علاج معالجے کی تربیت بھی فراہم کی جائے۔ قومی سطح پر ہیپاٹائٹس بی اور سی کے ٹیسٹ لازمی قرار دیتے ہوئے ہیپاٹائٹس بی کی ویکسینیشن کا آغاز کیا جائے تاکہ مُلک میں جگر کے سرطان کی بڑھتی ہوئی شرح میں کمی لائی جا سکے۔

کچھ ایسے اشارے بھی مل رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں ریٹکٹو لونز پروٹین کو جگر کے سرطان کی تشخیص و علاج کے لیے تھراپی کے طور پر استعمال کیا جائے گا، جو یقیناً ایک بڑا بریک تھرو ثابت ہوگا۔ سرِدست تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ احتیاطی تدابیر، بروقت تشخیص اور فوری علاج ہی کام یابی کی ضمانت ہے۔ (مضمون نگار، لیاقت یونی ورسٹی اسپتال، حیدرآباد کے شعبہ گیسٹرو انٹرولوجی سے بطور سینئر میڈیکل آفیسر وابستہ ہیں)