• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم اسلامی جمہوریہ کی تاریخ اور پیش منظر کے سیاسی و حکومتی امور عوام اور حکمرانوں کے رویوں اور ان کے حاصل خساروں کا تجزیہ کرتے قدرت کی مانیٹرنگ ،مہلت، مدد، ڈھیل ،پکڑ ، احتساب و عدل اور دنیا میں ہی مل جانے والی جزا و سزا کو بالکل بھول جاتے ہیں۔ گاہے گاہے کوئی صاحب نظر توجہ دلاتا ہے تو ہمارا یہ یقین کچھ دیر کیلئے جاگتا ہے اور پھر حالات حاضرہ کا ہنگامہ اس توجہ اور یقین کو دبا دیتا ہے۔ اکثر رائے عامہ کنفیوژ یا بہت کچھ سمجھ کر بھی خاموش رہی اور اعمال بے سمت رہتے ہیں لیکن ایسا ہمیشہ نہیں رہتا بیداری اور شعور کی لہریں بدتر حالات میں آکر برے حال حالات کا رنگ بدلتی رہتی ہیں خلق خدا راہ راست بھی اختیار کر لیتی ہے اور گمراہی بھی یا اسے کسی دنیاوی زور سے اس راہ ِبد پر ڈال دیا جاتا ہے ۔خیر وشر کے اتار چڑھائو کے ساتھ ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہئے کہ عبرت و سبق، استقلال و ایمان اور تنظیم و اتحاد سے محروم اقوام منتشر ہو کر خود سبق اور عبرت بن جاتی ہیں اگر قومی زندگی میں آتے رہتے چھوٹے بڑے جھٹکوں اور انتباہ سے بھی اصلاح کی گنجائش نہ نکالی جائے اور حاصل کو بھی سنبھال نہ پائیں تو قدرت کسی بڑے اور برے انجام سے دوچار تو کرتی ہے لیکن اس سے قبل بھی آخری انتباہ تو کرتی ہے قدیم و جدید اقوام کی تاریخ اس کی مثالوں سے بھری پڑی ہےتہذیبِ انسانی کے اس پس منظر اور رشدوہدایت پر مبنی تکمیل دین کے باوجود انسانی معاشرے کی خیروشر کی جبلت انسانی معاشرے کی بڑی حقیقت کے ساتھ برقرار ہےاور تاقیامت رہے گی تاہم اچھے برے کا فیصلہ اقوام کے اپنے اپنے رویے اور اعمال سے ہی منسلک ہے۔

تبلیغ توحید کیلئے ابراہیم علیہ السلام کی بغاوت گمراہ سماج ہی نہیں سخت گیر بادشاہ نمرود کے خلاف بھی تھی ،نومولود بچوں کے قتل عام میں محفوظ رہے موسیٰ علیہ السلام کی پرورش فرعونی محلات میں ہو کر بھی فرعون کو راہ راست پر لانے کی جرات اظہار رکی تو نہیں۔ آقائے دو جہاں حضرت محمد ﷺکس طرح سراپا اخلاق اور نیکی سے ہی مزاحمت کتنے کمال و جمال سے ظہور اسلام کی شکل میں تاریخ انسانی کا سب سے بڑا موثر سبق اور قرآن کریم رشد وہدایت کا تاقیامت مرکز و محور بنا ۔تاہم معرکہ حق و باطل کا فالو اپ پھربھی تاریخ اسلام میں ہی کربلا میں ہوا جو حق و صداقت کے تحفظ پر جاں نثاری کا سبق رہتی دنیا کو دے گیا۔

ہم آج تک امریکہ کو سپر پاور قرار دیتے رہے اور یہ تجزیہ بھی کرتے ہیں کہ اس کی جان یہودی کے پنجہ گرفت میں ہے پندرہویں صدی کے اختتام پر بکھرے بکھرے ریڈ انڈین قبائل سے کم آباد امریکی براعظم دریافت ہوا تو یورپ سے آلو کی فصل تباہ ہونے سے قحط زدہ آئرش،یورپ میں مجرموں کے گینگز اور فرقہ پرستی اور چرچ اسٹیٹ کے ’’سیاسی فتوئوں‘‘ سے بیزار ہوئے یورپی، سیکولر ہو کر ریلے کے ریلے افریقیوں کو غلام بنا کر ساتھ لے جاتے، امریکہ پہنچنا شروع ہوئے وہ اپنے آئرش، انگلش، فرنچ، جرمن، برٹش اور ایسے ہی پورے یورپ کی باہمی تاریخی رقابتیں اور ثقافتی تعصبات لیکر یورپ پہنچے تھے ۔لیکن امریکہ کی بے پناہ وسعت و وسائل کے باوجود یہ ہی تعصبات امریکہ کی بے پناہ سبق آموز بن جانے والی سات سالہ خانہ جنگی نے آبادکاروں کی کمر توڑ دی لیکن انہوں نے اسے اپنے اجتماعی اعمال کا نتیجہ قرار دے کربالآخر 13ر یا ستو ں کی فیڈریشن ایک آئین ایک جھنڈے اور امریکہ نہیں بلکہ ’’یونائیٹڈ اسٹیٹس‘‘ آف امریکہ کا نام دے کر ’’یونائیٹڈ کو حال اور مستقبل میں نیشن بلڈنگ کی فلاسفی کے طور قبول کیا سب تعصبات تیزی سے ختم ہوتے گئے اور امریکہ یورپ کے مقابل کہیں زیادہ بڑی طاقت اور ایک ہی کلچر میں ایٹ لارج ڈھلتا روایتی دنیا سے جغرافیائی دوری کو جنگوں سے بچے رہنے کا فائدہ اٹھاتا تیزی سے آنے والے وقت کی’’سپر پاور‘‘ بننےکیلئے تیار ہوا ۔براعظم کے بھرپور پوٹینشل کو نیشن بلڈنگ پراسس میں ممکنہ حد تک استعمال کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور ڈیڑھ سو سال میں وقت کی یورپی سپرپاورز کو متاثر کرنے اور اپنے زیر اثر لانے پر قادر ہو گیا یورپ کامیاب ترین صنعتی انقلاب اور اس سے برآمد جمہوریت کو اپنانے کے بعد بھی باہمی اختلافات ختم نہ کر سکا۔دنیا پر راج کرتے باہم الجھ کر دو عظیم جنگیں کرکے تباہی و بربادی سے دوچار ہوئے یہاں تک کہ اپنے دفاع کیلئے سوویت یونین کے مقابل امریکی نیٹو چھتری اور معمول کی بحالی کیلئے شہرہ آفاق امریکی امداد کی مارشل ایڈ پروگرام 1948ء کے محتاج بن کر امریکی نیم نو آبادیاتی نظام کے زیر اثر آنے پر مجبور ہو گئے کیونکہ کسی ملک کی دم نہیں تھی تو کسی کی چونچ زخمی تھی۔جاپان مقبوضہ ہو گیا اس نے مکمل شکست و تباہی کا باعث ایٹم بم کھاکر ایسا سبق سیکھا کہ ڈریگن چین کی قربت سے بچنے کیلئے امریکہ کی ’’نیم غلامی ‘‘قبول کرتے اپنا دفاع ہی امریکی ٹھیکے میں دے کر اسے فوجی اڈے دے دیئے لیکن پاکستان کی طرح خود ڈرئونز حملوں خود زخمی ہونےکیلئے نہیں بلکہ دفاع و سلامتی کی فکر سے آزاد ہو کر خود کھلونے، پھر گھڑیاں پھر کیمرے پھر اعلیٰ ترین معیار کی الیکٹرونکس کی تمام پروڈکٹس کی مینی فیکچرنگ پر دسترس حاصل کرتے ورلڈ مارکیٹ میں فری مارکیٹ کا فائدہ اٹھاتے یورپی امریکی مارکیٹ پر قبضہ کرتے آٹو موبائل انڈسٹری پر اتنا غلبہ پایا کہ فری انٹرپرائز کے عالمی علمبردار امریکہ تک کو ہراساں کر دیا ۔مغربی یورپین اقوام مکمل امریکی اثر میں آکر سلامتی کیلئےامریکی محتاجی کو امریکہ کے ہی مقابل اپنی کوالٹی آف لائف کا معیار بلند ترین کرنے کی دھن میں لگ کر امریکی فلاسفی کے ہی مطابق متحدہونے کیلئے سوویت یونین کی تحلیل کے بعد تیزی سے یورپین اکناک مارکیٹ کو یورپین اکنامک کمیونٹی اور پھر اسے یورپ کی وحدنیت (oneness)میں تبدیل کرتے ای یو کی طرف آئے ذہن نشین رہے کہ یہاں ماضی کی متحارب اقوام کیسے اپنے اجتماعی اعمال کی تباہ کاریوں سے سبق لیتیں، جنگ وجدل اور تباہی کے باوجود غلبے اور بیش بہا کامیابیوں کی حامل ہوئیں اور قدرت ان کے آڑے نہیں آئی بلکہ عقل سلیم کے بہتر استعمال اور اجتماعیت کا ثمر انہیں ملتا رہا ہمارے وزیر اعظم نے اجتماعی دانش کی فقط بات بھی کی ہے جس سے اب تک تو پاکستان کا دولت راج طبقہ (اولائی گارکی ) تشکیل پایا ہے ۔(جاری ہے )

تازہ ترین