کوئٹہ 1878 ء میں بسایا گیا تھا، جو ایک عرصے تک اپنی خُوب صُورتی کی بنا پر’’ لِٹل پیرس‘‘ کہلاتا رہا۔جب یہ شہر آباد کیا جا رہا تھا، تو یہاں مقامی طور پر تعلیم یافتہ اور ہنر مند افرادی قوّت کی کمی تھی،جیسے کلرکس‘ ترکھان، راج مستری، لوہار، حجّام، درزی اور دھوبی وغیرہ۔یہی وجہ ہے کہ اِن شعبوں کے لیے افرادی قوّت ہندوستان کے اُن علاقوں سے لائی گئی، جہاں انگریزوں کا اقتدار مضبوط ہو چکا تھا۔کوئٹہ شہر کی تعمیر کے بعد تعلیم اور صحت جیسے اہم شعبوں کی ضرورت محسوس کی گئی، تو متعدّد تعلیمی ادارے قائم کیے گئے، جو کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود آج بھی اپنا وجود رکھتے ہیں۔
شہر میں تین، چار پرائمری اسکولز کے ساتھ حالیہ سائنس کالج کے مقام پر بلوچستان کا پہلا ہائی اسکول بنایا گیا، جس کا نام’’ گورنمٹ سنڈیمن ہائی اسکول‘‘ تجویز ہوا اور اس کے قریب ہی سنڈیمن اسپتال قائم کیا گیا۔کوئٹہ کی تعمیر کے وقت یہاں ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آنے والے ملازمین کی80 فی صد تعداد ہندوؤں اور سِکھوں پر مشتمل تھی، جنہوں نے اپنی مذہبی، ثقافتی اور تہذیبی اقدار کے تحفّظ کے لیے تعلیمی ادارے قائم کیے۔
ہندوؤں نے موجودہ سنڈیمن ہائی اسکول کی جگہ اپنے مرکزی مندر کے ساتھ’’ سناتھن دھرم‘‘ کے نام سے ایک اسکول قائم کیا اور سِکھوں نے’’ خالصہ ہائی اسکول‘‘ بنایا، جسے آج بھی صوبے کی سب سے بڑی سرکاری درس گاہ سمجھا جاتا ہے، تاہم اس کا نام اب’’گورنمنٹ اسپیشل ہائیر سیکنڈری اسکول‘‘ ہے۔ اِس تعلیمی ادارے میں 12سو سے زاید طلبہ زیرِ تعلیم ہیں،جب کہ اس کے پرائمری سیکشن میں ہزاروں طلبہ تحصیلِ علم میں مصروف ہیں۔ گورنمنٹ اسپیشل سیکنڈری ہائی اسکول شہر کے وسط میں واقع ہے، اس کے مغرب میں گوردت سنگھ روڈ،جب کہ مشرق میں میر احمد خان روڈ اور میکانگی روڈ ہیں۔
قیامِ پاکستان سے قبل اِس کا نام خالصہ اسکول ہوا کرتا تھا، تاہم اِس میں صرف سِکھ طلبہ ہی زیرِ تعلیم نہیں تھے، بلکہ ہندو اور مسلمان طلبہ بھی یہیں سے علمی پیاس بُجھاتے تھے۔ اُس وقت بھی یہ کوئٹہ کا سب سے بہترین اسکول تھا۔ اس کے علاوہ، شہر میں اسلامیہ اسکول اور سناتھن دھرم تھے۔ خالصہ اسکول اور اسلامیہ اسکول کے مابین مختلف مقابلے ہوتے تھے،جن میں عموماً خالصہ اسکول کے طلبہ ہی آگے رہتے۔ لڑکوں کے ساتھ ہی لڑکیوں کا بھی ایک اسکول تھا، جہاں اب پرائمری سیکشن ہے۔ اسکول کے سامنے گوردوارہ تھا، جہاں اب فاطمہ جناح میونسپل گرلز اسکول قائم ہے۔ اُس دور کا خالصہ اسکول کھیلوں میں بھی نمایاں تھا، وہاں کے طلبہ کی ہاکی، فُٹ بال اور والی بال کی بہترین ٹیمز تھیں۔
گورنمنٹ اسپیشل سیکنڈری ہائی اسکول سے فارغ ہونے والے معتدّد طلبہ مختلف شعبوں میں اہم عُہدوں تک پہنچے، جن میں ایئر مارشل ریٹائرڈ دلاور خان، ڈپٹی اسپیکر وزیر خان جوگیزئی، سابق چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ منور مرزا، سابق وزیرِ اعلیٰ نواب غوث بخش باروزئی، سابق چیف سیکرٹری ایس آر پونی گر، ریٹائرڈ بیورو کریٹ محفوظ علی خان، سابق اے آئی جی پولیس ملک شہزاد احمد، معروف بزنس مین چوہدری امیر علی، سابق سینیٹر محمّد ظفر ایڈووکیٹ، سپریم کورٹ بار کے سابق صدر علی احمد کرد،پی آئی سی آئی کے اے جی میر، پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ خان جعفر، سابق چیئرمین فلم سنسر بورڈ جمال خان جوگیزئی، بلوچستان کے بزرگ صحافی اور روزنامہ جنگ، کوئٹہ کے چیئرمین ایڈیٹوریل کمیٹی سیّد خلیل الرحمٰن، حاجی محمّد اجمل اور دیگر شامل ہیں۔اِس اسکول کی عمارت تین بلاکس پر مشتمل ہے۔
یہاں کلاس رومز کے ساتھ سائنس لیبارٹریز، کمپیوٹر لیب اور انتظامی دفاتر موجود ہیں اور اسکول کے پاس توسیعی نقطۂ نظر سے بھی کافی خالی زمین موجود ہے۔ یہ اُن چند ایک خوش قسمت اسکولز میں بھی شامل ہے، جن کے پاس کھیل کے لیے اپنا میدان ہے۔ اسکول میں ہریالی کی کچھ کمی ہے، جس کی وجہ پانی کی قلّت ہے، یہاں تک کہ طلبہ اور عملے کی ضرورت کا پانی بھی دست یاب نہیں۔ ہزاروں طلبہ اور عملے کے لیے دو ٹیوب ویل نصب ہیں، لیکن وہ اکثر خراب رہتے ہیں، جس کی وجہ سے پانی کی قلّت رہتی ہے۔ اسکول کی لائبریری میں ہزاروں کتب موجود ہیں اور یہ طلبہ کو مطالعے کے لیے جاری بھی کی جاتی ہیں۔ سائنس لیبارٹریز اگرچہ چھوٹی ہیں، تاہم اُن میں ضرورت کا تقریباً تمام سامان موجود ہے۔
اسکول میں ایک مسجد بھی ہے، جہاں نمازِ ظہر میں اساتذہ اور طلبہ شریک ہوتے ہیں۔ طلبہ کو جدید دَور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے نہ صرف معیاری تعلیم فراہم کی جا رہی ہے بلکہ غریب اور نادار طلبہ کو کتابیں اور یونی فارم بھی دیا جاتا ہے۔یہاں قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک 13ہیڈ ماسٹرز اور15پرنسپلز خدمات انجام دے چُکے ہیں۔ چوہدری عطا محمّد یہاں کے پہلے ہیڈ ماسٹر تھے، بعدازاں گل محمّد جسکانی، سیّد عون محمّد، گل خان، اصغر علی قریشی، زنیر احمد صدیقی، منظور احمد انصاری، عبدالفہمد خان، نجیب اللہ خان، ساجد علی، نواب خان کھیتران، جاوید اقبال ناصر اور حاجی عبدالمنان بڑیچ اس عُہدے پر فرائض انجام دیتے رہے۔ 1995ء میں ہیڈ ماسٹر کی پوسٹ کو اپ گریڈ کر کے پرنسپل سے بدل دیا گیا۔نجیب اللہ خان پہلے پرنسپل تھے، بعدازاں حبیب اللہ درّانی، حاجی سعید احمد، محمود خان جعفر، محمّد حنیف، محمّد رفیق، محمّد حسین، خالد سعید بخاری، نصیر الدّین توخئی، محمّد مدّثر، طارق ڈینیئل، محمّد بلال خالق داد اور محمّد صلاح پنہور اِس عُہدے پر کام کرتے رہے۔
سال میں صرف دو لاکھ روپے ملتے ہیں، تدریسی عملے کی کمی ہے، کوئی خاکروب تک نہیں،ڈسپلن پر سمجھوتا نہیں کرتا،پرنسپل، محمّد انور شاہوانی
اِن دنوں گریڈ19کے محمّد انور شاہوانی گورنمنٹ اسپیشل ہائیر سیکنڈری اسکول، کوئٹہ کے پرنسپل ہیں۔ اُن کی سربراہی میں اسکول میں بہت سی مثبت تبدیلیاں آئی ہیں۔وہ گزشتہ 17برس سے شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہیں، کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز اور ایم ایڈ کی ڈگریز رکھتے ہیں۔ محکمۂ تعلیم میں اپنے کیریئر کا آغاز بطور ایس ایس ٹی کیا، بعدازاں مقابلے کا امتحان پاس کرکے18 ویں گریڈ میں تعیّنات ہوئے۔
کوئٹہ، مستونگ، کچھی اور نوشکی میں ضلعی تعلیمی افسر کے طور پر بھی فرائض انجام دے چُکے ہیں۔ادارے سے متعلق جانکاری کے ضمن میں گزشتہ دنوں اُن کے ساتھ ایک تفصیلی نشست ہوئی، جس میں اُنھوں نے اسکول کے حوالے سے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ’’ نجی اسکولز کی طرف بڑھتے رجحان کے سبب ہمارے ہاں بھی طلبہ کی تعداد کافی کم ہو گئی تھی، لیکن اب ہم نے کئی ایسے اقدامات کیے ہیں، جن سے طلبہ کی تعداد1200کے قریب پہنچ چُکی ہے۔ ہر کلاس میں 35سے 40 طلبہ کو داخلہ دیا جاتا ہے۔
یونی فارم بھی نجی اداروں کی طرز پر شلوار قمیص سے تبدیل کر کے پینٹ شرٹ کر دیا گیا ہے۔ اسکول کا عملہ 77افراد پر مشتمل ہے، جن میں64اساتذہ اور باقی نان ٹیچنگ اسٹاف ہے۔یہاں ششم سے ہشتم تک کی کلاسز میں داخلے دیئے جاتے ہیں، جس کے لیے باقاعدہ انٹری ٹیسٹ ہوتا ہے۔ ہر کلاس کے چار سیکشن، جب کہ آٹھویں اور دسویں جماعت کے پانچ سیکشنز ہیں۔‘‘ اسکول کے مسائل کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ’’اسکول میں تدریسی عملے کی خاصی کمی ہے۔2017ء میں اِسے اَپ گریڈ کر کے ہائیر سیکنڈری کا درجہ دیا گیا، لیکن تاحال سبجیکٹ اسپیشلسٹ تعیّنات نہیں کیے جا سکے اور ہائیر سیکنڈری کلاسز کو ایس ایس ٹیز کے ذریعے پڑھا رہے ہیں۔ اسکول کی اَپ گریڈیشن بلاشبہ ایک دانش مندانہ اقدام ہے، لیکن فوری طور پر اساتذہ کا تقرّر بھی ہونا چاہیے۔
عملے کی کمی کا اندازہ اس سے بھی لگا سکتے ہیں کہ اسکول میں کوئی سرکاری خاکروب تک نہیں۔ ایک عرصے تک بیت الخلا بھی نہیں تھے، جس کے باعث اساتذہ اور طلبہ کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ پھر کچھ عرصہ قبل غیر سرکاری تنظیموں بی آر ایس پی اور جی آئی زیڈ کے تعاون سے 12بیت الخلا تعمیر کیے گئے۔اسکول کا سالانہ فنڈ 2لاکھ روپے ہے، جس سے تعمیر و مرمّت سمیت اسکول کے تمام اخراجات پورے کرنا ناممکن ہے۔ اِسی فنڈ سے ایک پرائیوٹ خاکروب کو تن خواہ بھی دی جاتی ہے۔ اسکول میں دو ٹیوب ویل نصب ہیں، جو اکثر خراب ہی رہتے ہیں، جس کے باعث پانی کا مسئلہ بھی در پیش ہے۔‘‘
اُنہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ’’محکمۂ تعلیم کے رُولز میں تین سالہ ٹینور پالیسی ہے، جس پر عمل ہونا چاہیے کہ اکثر اسکولز میں باصلاحیت اور تجربہ کار اساتذہ ہیں،تو ٹینور پالیسی پر عمل سے دیگر اسکولز کے طلبہ بھی اُن سے مستفید ہو سکتے ہیں، جیسا کہ تعلیمی افسران کے لیے ٹینور پالیسی موجود ہے۔اساتذہ اور اُن کی تنظیموں کو اپنا اخلاق و کردار اِس طرح رکھنا چاہیے کہ طلبہ کے لیے رول ماڈل ثابت ہوں، مگر بد قسمتی سے اساتذہ تنظیمیں دھڑوں میں بٹی ہوئی ہیں۔ اکثر تنظیمیں تعلیمی بہتری کی بجائے تن خواہوں اور مراعات ہی میں اضافے کے لیے سراپا احتجاج رہتی ہیں، جس سے معاشرے میں اُن سے متعلق منفی تاثر قائم ہوا ہے۔
محکمۂ تعلیم پنجاب میں انتظامی اور تدریسی اسٹاف الگ الگ ہے، جس کے باعث دونوں کیڈر اپنے فرائض احسن انداز میں انجام دے رہے ہیں، بلوچستان میں بھی اِسی طرز پر کام کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور میرے خیال میں یہ فیصلہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے، کیوں کہ انتظامی عُہدوں میں اختیارات اور وسائل کے باعث اکثر اساتذہ ان عُہدوں کے حصول کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔‘‘ اسکول کے نظم و نسق سے متعلق اُنھوں نے بتایا کہ’’ ڈسپلن پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاتا، طلبہ کے ہوم ورک اور صفائی ستھرائی کی باقاعدگی سے جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔
ہر پیر کو طلبہ کے ناخنوں اور بالوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔غیر حاضر طلبہ کے والدین یا سرپرستوں کے رابطہ نمبر، کلاس انچارجز کے پاس ہوتے ہیں، جو اُن سے رابطہ کرتے ہیں اور اگر کوئی پھر بھی ایک ہفتہ غیر حاضر رہے، تو اُس کا نام خارج کر دیا جاتا ہے اور اُسے تب تک دوبارہ داخل نہیں کیا جاتا، جب تک باقاعدہ اسٹامپ پیپر پر حلف نامہ نہ دے۔ نیز، طلبہ کی کردار سازی پر بھی بھرپور توجّہ دی جاتی ہے۔‘‘ اسکول کی روایتی جشنِ آزادی کی تقریب سے متعلق ایک سوال پر اُنھوں نے بتایا’’اِس اسکول کی یومِ آزادی کی رنگا رنگ تقریب پورے صوبے میں مشہور رہی ہے، جس میں شہر بھر کے اسکولز کے طلبہ شرکت کرتے تھے، جب کہ اعلیٰ حکومتی، سیاسی اور سماجی شخصیات بھی یہاں آتیں۔
صدر ضیاء الحق نے بھی ایک مرتبہ یہاں یومِ آزادی کی تقریب میں شرکت کی۔تاہم، پھر شورش کے باعث یہ تقریب سادگی سے منعقد کی جانے لگی، لیکن اب امن و امان کی بہتری پر دوبارہ اسے روایتی انداز میں منعقد کیا جا رہا ہے۔دراصل، ہمارے اسکول کی غیر نصابی سرگرمیاں شہر کے تمام سرکاری و نجی اسکولز کے لیے مثال ہیں۔ اِسی طرح ایک عرصے تک جماعت ششم سے دہم تک کے طلبہ کو مختلف ہنر سِکھانے کے لیے تربیتی کورسز کروائے جاتے تھے،لیکن 2019ء میں ٹیکنیکل اسٹاف کی عدم تعیّناتی اور ضروری سامان نہ ہونے کے باعث ورکشاپ ختم کر دی گئی۔
اب وہاں فٹ بال اسٹیڈیم بنا دیا گیا ہے، لیکن میری کوشش ہے کہ ٹیکنیکل ایجوکیشن کی بحالی ہو۔‘‘اِس سوال پر کہ’’ایک قدیم سرکاری اسکول پرائیوٹ/ پبلک پارٹنر شپ کے تحت چلایا جا رہا ہے، تو اِس اسکول کو پرائیوٹ/ پبلک پارٹنر شپ کے تحت کیوں نہیں چلایا جا رہا؟‘‘ اُن کا کہنا تھا ’’اُس قدیمی اسکول کو پرائیوٹ /پبلک پارٹنر شپ کے تحت نہیں چلایا جا رہا بلکہ بعض افراد اُس کی مالی معاونت کر رہے ہیں اور مَیں پرائیوٹ پبلک پارٹنر شپ کے حق میں بھی نہیں ہوں، کیوں کہ اِس سے اسکول کے معاملات میں غیر ضروری طور پر مداخلت کا راستہ کُھل جاتا ہے، جس سے درس و تدریس کی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں ایک یک ساں تعلیمی نظام کی ضرورت ہے، جس میں سائنس، ٹیکنالوجی، انگلش، کمپیوٹر کے ساتھ اردو اور اسلامیات کو بھی خصوصی اہمیت دی جائے۔ رٹّا سسٹم کی سختی سے نفی کی جائے۔ پورے مُلک کا تعلیمی نظام ایک ہی ہو تاکہ ہم نسلی اور صوبائی عصبیت سے نکل سکیں۔‘‘
حاجی شفیق الرحمٰن خلجی اسکول کے وائس پرنسپل ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ’’میرے والد، مولانا عبداللہ خلجی1971 ء سے1981 ء تک یہاں عربی زبان کی تدریس سے منسلک رہے۔ بعدازاں، وہ صدر ضیاء الحق کے مشیر بھی رہے۔ یہ تو طے ہے کہ کوئی بھی مُلک یا قوم حصولِ علم اور فروغِ علم کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔‘‘ اُنہوں نے طلبہ پر زور دیا کہ’’کام یابی کے لیے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا، اگر محنت کریں گے، تو ہی اپنے مقصد کے حصول تک پہنچ پائیں گے۔ نیز، اپنی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق کوئی ہنر یا ٹیکنیکل ایجوکیشن بھی حاصل کرنی چاہیے تاکہ نوکریوں کی تلاش میں دھکّے نہ کھانے پڑیں۔‘‘